منہ توڑ جواب

حمیدا بوری والا اور بنارسی ٹھگ مفاہمتی جمہوریت کے داؤ پیچ کے سامنے کیا بیچتے ہیں۔ اگرچہ لفظ ' شرمناک ‘ سابق سیاسی چیف جسٹس کے سیاسی فیصلے کے بعد پارلیمانی ہو چکا ہے لیکن پھر بھی وہ ناکافی سا لگتا ہے۔
ایوانِ زیریں میں سرکار اور سرکارکی تابعدار اپوزیشن والوں نے کہا کہ بھارت اور مودی سرکار کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے ۔ منہ توڑ جواب دینے کے لیے دو منہ کام نہیں آسکتے ، اس لیے کہ عالمی گائوں کے رہائشی اب دو منہ کی پہچان کے لیے جنگل کا رُخ نہیں کرتے۔ انہیں کسی بھی ٹولے یا ریاست کے دو منہ سوشل میڈیا پر نظر آ جاتے ہیں۔ امریکہ کے دورے کے دوران ہمارے وزیرِاعظم نواز شریف نے وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے انگریزی کی لکھی ہوئی تقریر پڑھی جس میں مسئلہ کشمیر کا بھی ذکر تھا۔ اس تقریر پر وزیرِاعظم کے پاکستانی پرستاروں اور ہندوستانی دلداروں میں کہرام مچ گیا ؛ چنانچہ وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے وزیرِ اعظم کے مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز نے فوراً اس تقریر کا اثرزائل کرنے والا بیان دے ڈالا۔ سرتاج عزیز کو پاکستانی سفارت خانے پرغصّہ تھا کیونکہ سفارت خانے‘ نے امریکہ میں کشمیری لیڈروں سے ملاقات کی۔ آپ کے لیے شاید یہ خبر ہو کہ سرتاج عزیز صرف مشیرِ خارجہ نہیں بلکہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر بھی ہیں ، اس لیے یہ بات تسلیم شدہ ہوگئی کہ مشیرِ خارجہ نے وزیرِ خارجہ نما وزیرِ اعظم کو عالمی سطح پر منہ توڑ جواب دیا۔
اب یہ بات تو نواز شریف ہی بتا سکتے ہیں کہ اس منہ توڑ جواب کو سننے کے بعد ان کے منہ کا ذائقہ کیسا تھا۔ ہاں البتہ پاکستانیوں کے منہ کا ذائقہ ہم سب کو معلوم ہے۔ اگر ان کو کہیں سرتاج عزیز سبزی خریدتے مل جائیں اور انہیں عوام پہچان لیں کہ کشمیریوں کو اجنبی کہنے والا ہماری سلامتی کا مشیر یہی ہے تو ان کے ساتھ یقیناً وہی ہو گا جو اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں ہمارے گرائیں وفاقی وزیرِ پیٹرولیم کے ساتھ ہوا۔ وفاقی وزیرِ پیٹرولیم آج کل عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کے لیے صبح شام مصروف رہتے ہیں۔ ان کی دوسری مصروفیت اپنے ''انویسٹر دوست‘‘ ڈھونڈنا ہے تاکہ ان کو سرکاری خرچ پر بلا مقابلہ عہدے دیے جا سکیں۔ ایک ایسا ہی عہدہ انہوں نے اپنے دوست کو تازہ تازہ اپنی وزارت میں دیا۔ اس عہدے کے لیے وہ کمیشن جو آصف بنام فیڈریشن کیس میں سپریم کورٹ نے قائم کیا تھا تاکہ سرکاری عہدوں پر با معنی مقابلے کے بعد افسر مقرر ہوں، لاوارث ثابت ہوا اور منہ ہی دیکھتا رہ گیا۔ وزیرِ پیٹرولیم کے اس جواب کے بعد کمیشن کا وہی حال ہے جو وزیرِ پیٹرولیم کا فائیو سٹار ہوٹل سے کھانا کھائے بغیر دوڑ لگاتے وقت ہوا تھا۔
موجودہ جمہوریت نے ساری جمہوریت اور برداشت مودی سرکار کے لیے مخصوص کر دی ہے۔ 32دنوں میں ورکنگ بائونڈری اورکشمیر میں لائن آف کنٹرول کی عارضی لکیر پر 36000ہزار گولے داغنے والے مودی کو ہماری وزارتِ خارجہ نے دیوالی کے موقع پر منہ توڑ جواب دیا ہے۔ حلوائی اور نان بائی ڈپلومیسی کے تازہ ماڈل کے عین مطابق گولہ باری کے جواب میں لاہور کے شاہی مطبخ نے مودی سرکار پر ''برفی باری‘‘ شروع کر دی۔ مودی سرکار پہلے ہی ہماری شریف برفی کی زد میں تھی۔ اس منہ توڑ جواب کے بعد توقع ہے کہ بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس اور کشمیر پر قابض لاکھوں فوجی کون سا منہ لے کر نارووال اور سیالکوٹ والوں کے گھر توڑنے کے لیے پھر گولہ باری کریں گے۔ دوسری طرف چین ہے جس کی تبت والی سرحد پر پچھلے سال بھارت نے ہماری ایل او سی جیسی حرکت کی جس کے نتیجے میں چین کی حکومت نے بھارت کے ساتھ وہی سلوک کیا جو انہوں نے امریکہ کے جاسوسی طیارے کے ساتھ کیا تھا۔ اسّی کے عشرے میں امریکی طیارے کو عوامی جمہوریہ چین کی ایئر فورس کے ہوابازوں نے گھیر کر اپنے ہوائی اڈے پر اتارا ۔ پھر چین کی حکومت نے امریکہ کو بتایا کہ ان کے قانون کے مطابق جو فوجی سامان یا فوجی وردی والا انسان چین پر دھاوا بولے گا‘ وہ صحیح سلامت یعنی اپنے پیروں پر چل کر واپس نہیں جائے گا۔ چنانچہ چین نے امریکہ کا جاسوسی طیارہ تفصیل سے پرزے پرزے کرکے کھولا۔ اسے چھ مہینے کی امریکی منت سماجت کے بعد ٹرک پر لاد کر انکل سام کے حوالے کردیا۔ بھارت کی شرارت کے جواب میں چین کی فوج نے وہی کیا جو چین کی غیرت مند قیادت نے کیا۔
پاکستان کے مغربی بارڈر پر گولہ باری، دراندازی اور ڈیورنڈ لائن کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ ایران کو ایوب خان کی طرف سے تحفے میں دی گئی زمین پر سے بھی حملے شروع ہو گئے ہیں جن کی رفتار خاصی تیز ہے۔ ہمارے جمہوری منہ توڑ جواب کوئٹہ کی سردی سے ڈرتا ہے، اس لیے وہ تافتان کا رخ نہیں کررہا۔
تاجِ برطانیہ کے زمانے میںمیراثی کے پُرجوش لڑکے نے فیصلہ کیا کہ وہ دشمن کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے کمپنی بہادر کی فوج میں شامل ہو جائے۔ اس منہ زور جوان کے فیصلے پر میراثیوں نے خوب ڈھول بجائے ؛ چنانچہ وہ کمپنی جوائن کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں دو دیہاتی لڑ پڑے اور گولیاں چل گئیں۔ ایک گولی مراثی کے لڑکے کے کان کے قریب سے گزری، وہ واپس لوٹا اور کمپنی بہادر جوائن کرنے سے انکارکر دیا ۔ کسی نے پوچھا، اتنی جلدی ریٹائرمنٹ ؟ میراثی کے لڑکے نے کہا‘ اب میں تاجِ برطانیہ کے دشمنوں کو ڈھول کی مار دوں گا۔
برفی کی مارکے نتیجے میں بھارت کے حوصلے اور جنگی عزائم ہمالیہ کی چوٹی پر چڑھ چکے ہیں۔ انہیں نیچے اتارنے کے لیے بھارت کے مغربی سرپرست نوبیل انعام یافتہ تازہ جوڑی کو استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف وزیرِ اعظم کا دفتر یہ تردید کرنے میں سارا زور لگا رہا ہے کہ ان کا بھارت میں کوئی کاروباری مفاد نہیں ہے۔ اگر یہ سچ مان لیا جائے تو کیا وزیرِ اعظم قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ بھارت جاتے وقت وہ اور ان کے پسندیدہ خادمِ اعلیٰ پارلیمنٹ کے ارکان کو ساتھ کیوں نہیں لے جاتے۔ کیا وزیرِاعظم یہ بھی بتائیں گے کہ اُن کے خاندان کی ہر بھارت یاترا خاندانی ٹور(tour) کیوں بن جاتی ہے۔ وہ گبّر سنگھ سے ملیں ، ہیما مالنی سے یا کالیا سے، قوم کو کوئی اعتراض نہیں لیکن جب وہ امبانی جیسے بزنس ٹائیکون کے گھر چل کر جائیں گے تو پھر مجھے برفی میں کچھ کالا نظر آئے گا۔ ہماری تین سرحدوں پر جاری بمباری کے جواب میں سرکار کی پالیسی کیا ہے؟ یہ جاننا قوم کا حق ہے، یہ پالیسی کیوں ہے؟ یہ سب جانتے ہیں۔
دو دن پہلے وزیرِاعظم کی اپنی مقرر کردہ پرائم منسٹر انسپیکشن ٹیم نے سستی بجلی کے حوالے سے ان کے جلسوں والے اعلانات کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ وزیرِ اعظم معائنہ کمیشن نے اپنے خط نوٹیفکیشن نمبر1(3)/DISCO/S.M/PMIC, dated 22.10.2014 میں کہا کہ بجلی کے نئے میٹر بجلی کے اصل خرچ سے 35 فیصد زیادہ تیز چلتے ہیں۔ غریب لوگوں کے لیے خادم سرکارکا یہ کارنامہ منہ توڑ بھی ہے اورکمر توڑ بھی: 
سبو بدست شیخ جی حصارِ اقتدار میں
ملا رہے ہیں قافیہ حلال کا حرام سے
اڑا رہے ہیں کاسہ لیس بے تکی پہ بے تکی
مچھندروں کے روپ میں، قلندروں کے نام سے
لگا رہے ہیں معجزوں پہ معجزوں کی ڈھیریاں
کما رہے ہیں دولتوں پہ دولتیں عوام سے
خدا کے خوف سے انہیں کوئی بھی واسطہ نہیں
یہ لوگ بے نیاز ہیں خدا کے انتقام سے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں