کسی بھی بڑے ٹی وی چینل کا بٹن دبائیں تو آپ کو ان مسلم ملکوں کی فوٹیج اور خبر دیکھنے کو ملے گی جہاں مغربی ہتھیاروں سے مسلح جتّھے ایک دوسرے کو فتح کرنے لگے ہوئے ہیں۔بین الاقوامی میڈیا پرمسلم ملکوں کا دوسرا تعارف سونے کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ اور شہزادے ہیں ‘جن کے سامنے چاندی سے بنے، ہیروں اور جواہرات سے سجے بڑے بڑے برتن دکھائی دیتے ہیں ۔ہمارا تیسرا تعارف دو نمبر بادشاہ ہیں‘ جو ایک نمبر بادشاہوں سے سیکھ کر سونے کی رنگ والی کرسیوں پر بیٹھتے ہیں۔حیف ہے مغربی میڈیا پر، جو ان ملکوں کے کُچلے مَسلے اور پِسے ہوئے مظلوم عوام اپنی سکرین پر نہیں دکھاتا نہ ان کے مسائل۔اس میڈیا پر یا تو وہ بڑے عالمی سرمایہ دار دکھائے جاتے ہیں جن کے اثاثے، دولتیں، ڈالرز اور پاؤنڈز کے کنٹینر مغرب کے بینکوں میں پارک ہو چکے ہیں‘ یا پھر و ہ جو کسی وجہ سے بندوق اُٹھا لیں ۔
اوپر ذکر ہو رہا تھا نمبر ایک اور دونمبر بادشاہوں کا ۔تاریخ بتاتی ہے آج کے بعض بادشاہوں کے باپ دادا پچھلے زمانوں میں بھیڑ بکریاں اور اونٹ چرایا کرتے تھے ۔ان گڈریوں سے بھی پچھلی نسل شاید مزدور ، کسان یا غلامو ں جیسی تھی۔ کرنل ٹی ای لارنس المعروف ''لارنس آف عریبیہ‘‘ نے مسلمانوں کوعالمی طور پر بے لباس کر دیا۔اقبالؒ اس پر یُوں تڑپ تڑپ اُٹھے؛۔
کیا خوب امیرِ فیصل کو، سنُوسی نے پیغام دیا
تو نام و نسب کا حجازی ہے
پر دل سے حجازی بن نہ سکا
آج مسلم تاریخ کے دو مسلسل سانحے ہم سب کے سامنے رو نما ہو رہے ہیں ۔پہلا سا نحہ پا کستا ن کی بغل میں ہے‘ جہاں ''ہندو توا‘‘ کو بنیاد بنا کر ایک متعصب ہندو حکمران مودی بھارت کے آئین میں ترمیم کرنا چاہتا ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے وہ جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کرے گا۔ابھی تک پا کستان کے آئین کی طرح بھارت کا آئین بھی عملی طور پر کشمیر کو خصوصی اہمیت دے کر متنازع علاقہ مانتا آیا ہے۔ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بھارت کا مودی سرگرم ہے۔اس کا وزیر دفاع ارون جیٹلی پا کستان ،اس کی فوج ،کشمیریوں اور بارڈر کے نزدیک رہنے والے پاکستانیوں پر منہ سے بھی گولہ باری کر رہا ہے اور توپوں سے بھی۔ بھارت کا وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اپنے وزیر دفاع ارون جیٹلی سے بھی سو قدم آگے نکل گیا ۔
بھارت سے ''سریا‘‘ ڈپلومیسی کے خواہشمند پا کستانی بادشاہ، مغلوں کے آخری تاجداربہادر شاہ ظفر سے ہزاروں گُنا زیادہ بے بس دکھائی دیتے ہیں۔اگر ہماری سرکار ،لاچار نہیں ہے تو پھر قوم کو بتائیں کہ راج ناتھ کے بیان کا کس نے نوٹس لیا؟ اُس کے بیان پر بھارت سے کب احتجاج ہوا؟یا بے لگام راج ناتھ کی ہرزہ سرائی پر حکومت کی طرف سے کون بولا؟اگر ایسا نہیں ہے‘ یقینا نہیں‘ تو اس کا مطلب کیا ہے؟دشمن پاکستان کو گالی دے‘ اس کے اداروں پر سنگین الزام تراشی کی بارش کرے‘ اس کے خلاف احتجاج کون کرے کالم نگار ؟رپورٹرز؟کہاں ہیں؟ کہاں ہیں؟محافظ خُودی کے؟
دوسری جانب اسرائیل نے اپنے مظالم کی تا ریخ میں نئے تاریک باب کا اضافہ کر دیا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے تازہ قانون پاس کیا ہے‘ جس کے تحت اسرائیل کو یہودا یعنی صہیونی سلطنت قرار دے دیا گیا۔ ساتھ ہی بیت المقدس کو یہودی شہر اور اسرئیل کی آبادی کو نئی تعریف دی گئی۔ اب صرف یہودی ہی اسرئیل کا شہری ہو سکے گا جس کا سیدھااور صاف مطلب یوں ہے۔
اولاً، اسرائیل کے اندر بسنے والے مسلمان اسرائیل کے شہری نہیں رہے۔
دوئم، اسرائیل میں صدیوں اور نسلوں سے رہائش پذیر عیسائی بھی اسرائیلی شہریت سے خارج ہوئے۔
تیسرے، آزاد خیال، مْنکرینِ مذہب ، زرتُشت اور دیگر اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہری اسرائیلی شہریت کے معیا ر پر فِٹ نہیں آتے ۔
چوتھے،وہ مہاجر فلسطینی‘ جنہیں جبراً اسرائیل سے باہر دھکیلا گیا یا جو فلسطینی اسرائیل کی ''آہنی دیوارِاستبداد‘‘ کے دوسری طرف بس رہے ہیں‘ بھی فلسطینی کہلانے کے حق سے محروم کر دیے گئے۔ کون نہیں جانتا کہ بیت المقدس جس قدر یہودیوں کے لیے تقد یس رکھتا ہے اگر زیادہ نہیں تو اسی طرح یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے بھی مقدس ہے۔ اسرائیل نے یہودا تک سفر طے کیا۔ صہیونی ریاست کی اگلی منزل دو سنگِ میل رکھتی ہے۔ پہلے ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر دوسرے بیت المقدس کی کھدائی کے نام پر اس کی صدیوں پُرانی تاریخی حیثیت میں تبدیلی۔
کچھ دن پہلے مجھ سے ایک ٹی وی تجزیہ کے دوران سوال ہُوا، کہ میں نے پاکستان کو درپیش علاقائی چیلنجز پر اتنا خوفناک تجزیہ کیوں کیا ؟میرا جواب تھا تجزیہ دوبارہ پڑھ لیں‘ حالات اُن کے لیے خوفناک ہوتے ہیں جن قوموں کے لیڈر اور ملکوں کے منیجر ''فینسی کبوتر‘‘ بن جائیں‘ جو صرف پنجرے کے اندر جی سکتے ہیں‘ سردی میں انہیں ہیٹر اور گرمی میں پنکھے کی ضرورت ہو‘ یہ کبوتر چھانی ہوئی بلکہ دُھلی ہوئی فیکٹری میڈ فیڈ کھاتے ہیں۔ جن خوش بخت قوموں کو جاگتا ہوا لیڈر مل جاتا ہے ان کے لیے ہمالیہ جتنا چیلنج بھی خوفناک نہیں۔
اگلے سو دن میں وہ چیلنج بھی کُھل کر سامنے آ جائیں گے جن کے بارے میں سرکاری را گ الاپنے والے ''سب اچھا‘‘ گا رہے ہیں ۔اگر آپ پاکستان اور اس کے اثاثوں کے بارے میں دنیا کی سوچ اور رویہ جاننا چاہتے ہیں‘ تو ایک فلم دیکھ لیں جس کا نام ہے: جی آئی‘ جو ( ری ٹیلی ایشین)۔ ہالی وڈ کی اس فلم کی کہانی کے مطابق وادیٔ سندھ میں ایک دہشت پسند تنظیم نے پاکستان کے صدر کو قتل کیا۔ پھر ملک کے ایٹمی اثاثے اس نان سٹیٹ ایکٹر کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ امریکی صدر ایک میٹنگ میں کہتا ہے کہ نیوکلیئر ملک کو ایٹمی اثاثوں سے غیر مسلح (Dis-arm) کرنا ہو گا۔
کچھ ہفتوں سے جمہوریت کے غیر ملکی ضامن اسے لنگڑا گھوڑا (Injured horse)کا نام دے رہے ہیں ۔دوسری جانب مفادات اور سہولیا ت کی طویل نیند سے جاگ کر مودی کے پسندیدہ پاکستانی وزیر نے سات سمندر پار کی سیاست پر بیان دیا۔بھارت کے ساتھ امریکہ کا ایٹمی معاہدہ ہے ۔اس سارے اُبھرتے منظر کو سمجھنا نہ تو موجودہ حکمرانوں کی ترجیح ہے اور نہ ہی ان کا دردِ سر ۔اسی منظر نامے کو مسلم دنیا میں اقتدار اور اختیار کے وسائل پر قابض حکمرانوں کے تناظر میں دیکھیں۔ آپ کو ایسے شیر ملیں گے جوخرگوش سے بھی شرمیلے لگیں گے‘ اشرف المخلوقات اور اُمتِ وسطیٰ کی رہنمائی کے دعوے دار بوٹا سنگھ جتنے بھی بہادر نہیں ۔بوٹا سنگھ کون تھا یہ میں نہیں بتاؤں گا ۔ اسے بلبلِ ہزار داستان، شورش کاشمیری کے لفظوں میں پڑھیے جس کا عنوان ہے جمیل احمد۔
''لاہور کا ایک سانحہ‘ زینب اغوا ہوئی‘ بوٹا سنگھ نے پندرہ سو روپے میں خریدا۔بیاہ رچایا۔ مہندر کور کہلائی۔دو بچیوں کی ماں بنی۔ پھر برآمد کی گئی۔پاکستان آئی۔یہاں عقد ہو گیا۔بوٹا سنگھ نے تمام اثاثہ بیچ ڈالا۔ دہلی میں اسلام قبول کیا۔جمیل احمد نام رکھا اور لاہور پہنچا!!! یہاں قانون کے دروازے پر دستک دی ۔لیکن زینب نے اسے ٹھکرا دیا۔ اگلے روز مزار نور جہاں کے قریب وہ ریل کی پٹری پر سر رکھ کر ہمیشہ کی نیند سو گیا۔اپنی وصیت میں اس نے کہا میرے پاس چودہ سو روپے ہیں ۔انہیںکسی مسجد کی تعمیر میں لگا دینا ۔مجھے زینب کے گاؤں میں دفن کرنا اور اسے کہنا کہ میری قبر پر کبھی کبھی چراغ جلا دیا کرے‘‘۔