نوجسٹس۔ نو پِیس

کوئٹہ شہر میں جلسہ جلوس اور اجتماع منعقدکرنے پر پابندی اور آمریت عروج پر تھی۔ اس لیے بلوچستان اسمبلی ہاسٹل کے سبزہ زار میں شامیانے لگائے ۔ میں خصوصی دعوت پر تقریر کرنے پہنچا۔ لشکری رئیسانی، سردار اختر مینگل، علی احمد کُرد ایڈووکیٹ، ڈاکٹر حئی کے علاوہ اپوزیشن اور قوم پرست جماعتوں کے بڑے راہنمائوں کا بھر پور اجتماع تھا۔ یخ بستہ سردی اور طوفانی بارش۔ میں نے ساری تقاریر سُننے کے بعد ایک جملہ یہ کہا ''پاکستان میں دو قومیں بستی ہیں۔ ایک ظالم ، دوسری مظلوم۔ پنجگور سے بھائی پھیرو تک، شیندور سے پسرور تک اور طورخم سے کیماڑی تک‘‘۔ 
یہ پرانی بات تھی۔ اب دل چاہتا ہے وہی جملہ اس طرح سے کہوں ''دنیا بھر میں دو قومیں بستی ہیں۔ ایک ظالم اور ایک مظلوم۔ ماڈل ٹائون لاہور سے لے کر فرگوسن میسوری تک‘‘۔ آپ جاننا چاہتے ہیں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں ؟ تو سُنیے...!! ظالم کس طرح ظلم کا تحفظ کرتے ہیں ؟۔
امریکی ریاست میسوری میں سیاہ فام امریکی شہری سین جیکسن کے اٹھارہ سالہ نوعمر بیٹے مائیکل برائون کو اگست کے مہینے میں برسرِ عام قتل کیا گیا۔ قاتل گورا پولیس والا شیرون وِلسن تھا‘ جس کے لیے امریکہ کی ریاست میسوری میں گرینڈ جیوری بٹھائی گئی۔ گرینڈ جیوری نے مائیکل برائون کے قاتل سفید فام پولیس اہلکار شیرون وِلسن کو بے گناہ قرار دیا۔ تب سے اب تک فرگوسن اور سینٹ لوئیس سے شروع ہونے والے مظاہرے اور شدید احتجاج پُرتشدد ہنگاموں میں تبدیل ہو چکے ہیں‘ جن کے سامنے میسوری کا گورنر نیکسن بھی بے بس ہو گیا ہے۔ اسی لیے پہلے سینکڑوں پھر ہزاروں نیشنل گارڈز کو ریاست میں امن و امان کی بحالی کے لیے طلب کیا گیا۔ انصاف مانگنے والوں کے یہ مظاہرے اب امریکی دارالحکومت سمیت سارے بڑے شہروں میں پھیل گئے ہیں۔ مظاہرے کرنے والے شہری برسرِ بازار طاقتورپولیس اور معزز عدالتی فیصلے کے خلاف زبردست نعرے لگا رہے ہیں۔ نیویارک اور واشنگٹن میں مظاہرین نے فلک شگاف نعروں میں کہا ''مائیکل برائون کو انصاف دو‘‘ ''ہم خاموش نہیں رہیں گے‘‘۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ پولیس تشد د اور نسل پرستی ہر روز کا معمول بن چکی۔ درجنوں لوگ گرفتار ہوئے‘ اس کے باوجود لاس اینجلس میں عوام نے کیلیفورنیا جانے والی ہائی وے بلاک کر دی۔ آک لینڈ میں بڑی شاہراہوں کو بند کر کے احتجاج کیا گیا۔ فرگوسن شہر میں ہنگاموں کے دوران درجنوں عمارتیں اور گاڑیاں نذرِ آتش ہوئیں۔
سارا جلائو گھیرائو، روکو اور پولیس کو پھینٹی لگائو ماحول‘ افسوسناک عمل ہے ۔ امریکہ جیسے ملک کے لیے خوفناک بھی۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان واقعات کے بعد بھی امریکہ کے صدر ، کسی وزیر یا میسوری کے گورنر نے عوامی غم و غصے پر نہ تو یہ کہا کہ یہ جمہوریت کو کمزور کرنے کی سازش ہو رہی ہے‘ نہ ہی امریکی سرکار نے یہ فرمایا کہ احتجاج ، نعروں اور جھڑپوں سے ''جمہوریت ڈی ریل‘‘ ہو جائے گی۔ ہاں البتہ ایک بات طے ہو گئی کہ پولیس یا تھانہ تتلے عالی گوجرانوالہ میں ہو یا سینٹ لوئیس میسوری میں، پولیس عوام کو قتل بھی کرتی ہے‘ جعلی پولیس مقابلے بھی سٹیج ہوتے ہیں جبکہ پولیس کہیں بھی پولیس کو بچانے کے لیے ملک کو تشدد میں دھکیل سکتی ہے۔ اس کے نزدیک دبائو سے نکلنے کا محفوظ راستہ یہی ہے۔
اب ذرا آئیے اپنے ماڈل ٹائون لاہور کی طرف۔ یہاں کروڑوں لوگوں کے سامنے لائیو فلمی شوٹنگ کی طرح پولیس والے ایک سیاسی کارکن کی قیادت میں ایک سیاسی جماعت کے مرکز پر حملہ آور ہوئے۔ ٹی وی کی ویڈیو تصویریں بولتی ہیں کہ گاڑیوں اور دکانوں کو لُوٹنے والا کوئی اور نہیں‘ حملہ آور گروہ تھا۔ سینئر سٹیزن، حاملہ عورتیں اور جوان بچے خاک و خون میں نہلا دیئے گئے۔
پھر ایک ہفتے بعد اسی ایکشن کا پارٹ ٹُو ری پلے کیا گیا۔ وہی قاتل اور وہی مقتول۔ ٹی وی کیمرے پھر موجود تھے۔ ویڈیو جیسی ناقابلِ تردید دستاویزی شہادت بھی حاضر۔ جو قانونِ شہادت آرڈر مجریہ 1984ء کے تحت فوجداری مقدمے میں قابلِ ادخال شہادت (Admissible in Evidence) بھی ہے۔ خونخوار اور تشدد پسند ذہنیت مزید مسلح ہو کر عوام کو کچلنے کے لیے تیسری مرتبہ آگے بڑھتی ہے۔ سودے بازی اور مُک مُکا کی ماری ہوئی پارلیمنٹ کے احاطے میں گولیاں اور گولے گرتے ہیں۔ درجنوں زخمی اور لاشیں بھی‘ شاہراہِ دستور پر بے یارو مددگار تڑپتی ہیں۔ جو ایمبولینس زخمیوں کو اُٹھانے آئی‘ پولیس اس پر حملہ آور ہوئی۔ جن رپورٹروں نے کوئی ابنِ آدم سرکاری دہشت گردی سے بچانا چاہا، اُن کے سر پھٹے، بازو ٹوٹے اور کپڑے لیر و لیر کر دیئے گئے۔پھر کچھ واقعات ایسے ہوئے جو پاکستانی قانون اور انصاف کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ محض چند جھلکیاں دیکھ لیجیے: 
اولاً ملک کے 14کروڑی صوبے کی حکومت نے جوڈیشل کمشن بنوایا۔ جب محترم جسٹس نجفی کمشن کی رپورٹ آئی تو چند پولسیے بٹھا دیے گئے جن کی کمیٹی نے رپورٹ مسترد کر دی مگر نہ توہینِ عدالت نہ احترامِ انصاف ہوا۔ 
دوسرے‘ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قتلِ عام اور کھلے تشدد کے الزام میں پرچہ درج کرنے کا فیصلہ آیا‘ ساتھ ہی یہ آرڈر بھی کہ کسی ملزم کو گرفتار نہ کیا جائے۔
تیسرے‘ اسلام آباد واقعہ کی ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات آئے بھی اور اُڑائے بھی گئے۔ ایف آئی آر معطل ہو گئی۔
چوتھے‘ پولیس نے غیر مسلح سیاسی کارکنوں کو دہشت گرد قرار دے کر ماڈل ٹائون واقعات کا چالان پیش کر دیا۔ یہ وہی شہری ہیں جنہیں پوری دنیا نے پولیس کے ہاتھوں غیر انسانی طریقے سے پٹتے دیکھا۔
پانچویں‘ آج وہی لاٹھی گولی کا جمہوری نظام دہشت گردی سے نبٹنے کی پھر تیاری کر رہا ہے۔ پولیس کو چور ڈاکو، اغواء کار، گینگ ریپ اور ہلاکت خیزیوں کے ملزم پکڑنے کی بجائے رنگدار پانی کی توپ چلا کر خالی ہاتھ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ نتھ فورس کے ذریعے عفت مآب عورتوں کو گھسیٹنے کی تربیت والی تصویریں قومی پریس قوم کو دکھا چکا ہے۔ جو ایسی جمہوریت کا تحفظ نہ کرے وہ اپوزیشن لیڈر کا ملزم اور وزیرِ اعظم کا مجرم سمجھا جائے گا۔ اس لیے کہ ان دونوں کو بچانا 20کروڑ لوگوں کی قومی ذمہ داری ہے۔
بات ہو رہی تھی ظالم اور مظلوم کی۔ امریکہ میں چند عشرے پہلے تک افریقی امریکن شہریوں کو بس میں سوار ہو کر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح کسی بھی ریسٹورنٹ یا کلب میں گورے ٹیبل پر بیٹھ کر کالا شہری کھانا نہیں کھا سکتا تھا۔گوروں اور کالوں کے لیے علیحدہ علیحدہ سروس بوتھ بنے ہوئے تھے۔ کالے امریکنوں کے لیے قانون الگ تھا۔ گورے امریکنوں کے لیے انصاف علیحدہ۔ اس ماحول میں ایک ادھیڑ عمر سیاہ فام خاتون روزا پارک ایک بس میں سوار ہوئی۔ بس کے اہلکاروں کے اعتراض کے باوجود وہ ایک خالی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ گوروں نے بس میں اتنا شور مچایا کہ جیسے بس سر پر اٹھا لی ہو۔ مگر روزا پارک اپنی سیٹ پر ڈٹی رہی۔ کوئی طعنہ، کوئی گالی، کوئی دھکا اس کے حوصلے کو فتح نہ کر سکا۔روزا پارک نے امریکہ کے سیاہ فام افریقی شہریوں کوطاقت کا ٹیکہ لگا دیا۔ اس واقعہ کی گونج امریکہ سے کینیڈا اور یورپ تک پہنچی۔ اگلے ہی روز وہ سارے ریستوران، کلب اور پارک جہاں کتّے اور کالے کا داخلہ بند ہے کی عبارت والے بورڈ لگے ہوئے تھے‘ وہاں کالوں نے یلغار کر دی۔ نسلی تعصب اور گورے رنگ پر فخر کرنے والوں کی انا، تکبّر اور خدائی کو روزا پارک کے دلیرانہ فیصلے نے ہوا میں اُڑا دیا۔
 
امریکہ کی ریاست میسوری کے شہر فرگوسن کی ایک نرس نے ایک مرتبہ پھر نسل پرستی اور انا پرستی کو بے توقیر اور ذلیل کر دیا۔ ایم زیڈ ٹے ((MZ Tay نامی فرگوسن شہر کی اس نرس نے (No Justice No Peace) کے نعرے والی ٹی شرٹ پہنی اور ہسپتال سے باہر نکل آئی۔دردِدل رکھنے والی اس نرس کو خدشہ ہے کہ فرگوسن کے شہری آئندہ خوف میں جییں گے۔ اس کی اپنی زبان میں خوف نام کی کوئی شے نہیں۔لیکن وہ اپنے ملک کے شہریوں کو بے توقیر کرنے والے نظام کے خلاف ڈٹ گئی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام خادم پولیس اور عادلانہ قانون کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ قوم کو سچ جاننے سے محروم رکھا جائے۔ مکروہ جرائم کے اکثر پرچے تھانے درج ہی نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ پرچہ درج ہو جائے تو تفتیش کرنا پڑتی ہے۔جو پرچے درج ہوتے ہیں ان کا حال آپ اوپر جھلکیوں میں پڑھ چکے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے مقبولِ عام ولن کا محکمۂ انصاف ہے The US Bureau of Justice & Statistics۔ یہ ایک سرکاری محکمہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق زیرِ حراست (arrest-related)قتل کے واقعات کی تعداد 2003ء سے 2009ء تک 2931بنتی ہے۔زیادہ تر مارے جانے والے25سے 44سال تک کی عمر کے جوان تھے۔ کالی آبادی امریکہ کا صرف13فیصد ہے۔ اس طرح کے قتل کے واقعات میں مارے جانے والے 32فیصد نوجوان سیاہ فام تھے۔ یہ بھی سن لیجیے۔ فرگوسن پولیس ڈیپارٹمنٹ میںانتہائی بھاری تعداد سفید فام پولیس والوں کی ہے‘ حالانکہ شہر کی آبادی زیادہ تر سیاہ فام ہے۔
ہماری پولیس، بیوروکریسی اور عدل کے ایوانوں میں سیاسی بیک گرائونڈ رکھنے والے لوگ پہنچ جاتے ہیں۔ ہم سلاطین اور شہنشاہوں کے ثنا خوان ہیں۔ اس لیے جو بیٹھ گیا‘ وہ کرسی پر براجمان رہنے کو خاندانی مینڈیٹ سمجھتا ہے۔ محکمہ پولیس اور بیوروکریسی میں سابق بابے ہوں یا موجودہ شیر جوان‘ اکثریت ایسے خاندانوں سے ہے جن کا کوئی نہ کوئی فرد سیاست میں بھی ہے۔ وہ ریاست جس کی بنیاد ہی بنیے کے تکبّر، سرمائے کے غرور اور وسائل پر قبضے سے نجات کے تصّور پر ہو وہ گروہی اور فروعی سیاست کی خدمت میں مصروف ہے۔جمہوریت چند گھرانوں کے تحفظ کا نام۔ انصاف پاکٹ سائز گھڑی۔ قانون ستی ہونے سے بچ جانے والی بیوہ۔ نظام غرور، تکبر، طاقت اور پیسہ۔ مجھے یوں لگتا ہے جس طرح بہت جلد ہر شہر میں ایک روزا پارک اور ہر گلی میں ایم زیڈ ٹے پیدا ہونے جا رہی ہے۔ حکمران خاندانوں کے کچھ چوکیدار اور چوبدار عوامی بیداری کو امپورٹڈ تشدد کے خوف میں گم کرنا چاہتے ہیں۔ ان خوف فروشوں نے ملک کی سب سے بڑی سیاسی طاقت کو خوف الرٹ کے دڑبے میں بند کر دیا ہے: 
گرچہ کانٹے ہیں راہوں میں بکھرے ہوئے
پا برہنہ چلو نوکِ ہر خار پر
ایک نظارۂ زندگی یوں سہی
رقص کرتے چلو، تیغ کی دھار پر
اس میں شامل ہے سُرخی جواں خون کی
آسمانوں سے رنگِ شفق چھین لو
دیکھتے کیا ہو دستِ ستم کی طرف
اپنا حق چاہتے ہو تو حق چھین لو 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں