مہام انگہ نہ ہوتی تو شاید جلال الدین اکبر عرف مہا بَلی اکبرِاعظم مغربی عظیم فاتح سکندرِ اعظم کے قریب قریب پہنچ جاتا۔ مغلِ اعظم کو راج نیتی یا حکومت کا فن خوب آتا تھا۔فتوحات اور گورننس کے اعتبار سے اس کا دور ایک عالی شان شہنشاہیت تھی۔
مہام انگہ کون تھی...؟ اس پر آگے چل کر بات کریں گے‘ لیکن ہندوستان کی تقدیر بنانے اور پھر زیادہ سے زیادہ بگاڑنے میں مہام انگہ کا بڑاہاتھ رہا ۔میرا مطلب ہے ہر شہنشاہ کی شاہی کے پیچھے کوئی عورت ضرور دکھائی دیتی ہے‘ یا پھر سلاطین ِہندوستان کے اقتدار کی غلام گردشوں میں کوئی نہ کوئی مہام انگہ ملتی ہے۔ بادشاہ ایک نمبر ہوں یا دو نمبر اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔کسی شاعر نے یہ نجانے کس کے لیے کہا لیکن میرا دل چاہتا ہے میں اس شعر کو مہام انگہ کے نام کروں ؎
کِس کِس کی زباں روکنے جاؤں تری خاطر؟
کِس کِس کی تباہی میں ترا ہاتھ نہیں ہے
مہام انگہ محض ایک خاتون ہوتی تو شاید تاریخ اُسے بھلا دیتی۔ یہ سیاست کی تاریخ کا ایک مسلسل کردار ہے۔ جب تک اقتدار کی غلام گردشوں میں چھپے ہوئے بادشاہ، اپنا ایک کان چُغلیاں سننے کے لیے وقف اور دوسرا کان خوشامد کے لیے کھولے رکھیں گے‘ مہام انگہ ہر دور میں جنم لیتی رہے گی ۔اگرچہ سائنس نے ابھی تک انسان کی کلوننگ نہیں کی‘ یعنی انسان کے ڈی این اے (تخلیقی خلیے) سے قدرتی عمل کے بغیر انسان تخلیق نہیں کیا مگر تاریخ ہر دور میں مہام انگہ کی کلوننگ کرنے میں مصروف نظر آتی ہے۔
رضیہ سلطانہ کے بارے میں تاریخِ ہندمُتضاد خیالات کا اظہار کرتی ہے‘ لیکن مہام انگہ کے معرکوں پر تاریخ دان متفق ہیں۔آگے چلنے سے پہلے جو نہیں جانتے سُن لیں مہام انگہ کون تھی۔ ایک معمولی عورت ، جو مغل شہنشاہ سلطان نصیرالدین ہمایوں کے گھر عمر کوٹ سندھ میںمحمد جلال الدین اکبرِاعظم کی پیدائش کے وقت اس کی بیگم کی خدمت گزار تھی۔اس نے اکبرِاعظم کو دائی بن کر جھولے میںہی سنبھال لیا تھا ۔جلال الدین اکبر اسے اپنی سگی ماں سے زیادہ اہمیت دیتا۔ ہمایوں کی بے وقت اور حادثاتی موت نے اکبر کو بہت کم عمری میںہی شہنشاہ ہندوستان کا تاج پہنادیا۔ اس طرح نصیر الدین ہمایوں کے خلاء کو مہام انگہ نے پُر کیا۔ وہ سر پر دوپٹہ نہیں لیتی تھی‘ بلکہ جنگجوؤں کی طرح پگڑی باندھتی تھی۔وہ شاہی حرم میں سب سے اونچے قد والی اور جتنی طاقتور تھی اس سے بھی کہیں زیادہ چال بازعورت تھی۔
یوں تو جنگل اور سیاست کی دنیا کا قانون ایک سا ہے‘ لیکن جنگل میں پیٹ بھرنے کے لیے ایک وقت کا شکار مارا جاتا ہے۔ جنگل کا شیر ایک بار کھالے تو کئی دن کا وقفہ کرے گا ۔ سیاست کی دنیا کی مستقل پالیسی صرف مار دھاڑ اور چیر پھاڑ ہے۔ جن کا پیٹ بھر جاتا ہے وہ ''سگِ آزاد‘‘ کی طرح مزید گوشت اور ہڈیاں نوچ نوچ کر دباتا رہتاہے کہ پھر کھاؤں گا۔ جنگل کا بادشاہ صرف اپنے لیے شکار کرتا ہے‘ کئی نسلوںکے لیے نہیں۔ اس کے برعکس انسانوں کی دنیا کا بادشاہ صرف اپنی پانچ ،سات نسلوں کے لیے نہیں بلکہ درجنوں نسلوں کا پیٹ بھرنے کی ہوس لے کر قبرستان پہنچتا ہے۔ خالقِ حقیقی نے اسی لیے یہ ابدی حقیقت آفاقی قانون میں ڈھال کر یوں بیان فرمائی: تمہیں کثرت کی خواہش نے برباد کر دیا حتیٰ کہ تم قبروں تک جا پہنچے۔
جنگل کے بادشاہ کے مقابلے میں انسانوں کا بادشاہ اپنے بچے بھی مار کھاتا ہے‘ لیکن قدرت کا ایک قانون جنگل اور انسانوں کے بادشاہ کو برابر کر دیتا ہے‘ اور وہ یہ کہ ان دونوں بادشاہوں کی بادشاہی کو پہلا چیلنج ان کے اپنے ہی گھر والے دیتے ہیں۔مغل اعظم جلال الدین اکبر کو جہانگیر نے چیلنج کیا۔ایک ناچنے والی ڈومنی سے عشق کا تاریخی ڈرامہ کھیلا اور ''شیخو‘‘ کہلایا۔ بیٹے نے باپ پر فوجی لشکروں سے چڑھائی کر دی۔ نور الدین جہانگیر کے ساتھ اس کے بیٹے شاہ جہاں نے اپنے دادا والی تاریخ دہرا کر حساب برابر کر دیا۔اورنگزیب عالمگیر اس معاملے میں سب سے آگے نکل گیا۔ اورنگزیب نے بھائی ،بھتیجے اور ان کی نسلوں کا حق ادا کرنے کے بعد باپ کو تاج محل کے سامنے لال قلعے کا آٹھ سالہ قیدی بنالیا۔
اقتدار کے حوالے سے تاریخ کس قدر بے رحم ہے‘ اس پر مجھے تو ہمت ہی نہیں پڑتی کہ کوئی تبصرہ کر سکوں۔ویسے بھی سیاست شے ہی ایسی ہے جس کے سینے میں دل نہیں۔
اس پسِ منظر کے ساتھ اگر آپ ایشیا میں فیملی فیڈریشن برانڈ سیاست کو اندر سے جھانک سکیں تو آپ ہزار داستان بھول جائیں ۔ساتھ ہی کاؤنٹ ڈریکولا کو بھی۔یہاں ایک مثال کافی رہے گی۔ابھی چند سال پہلے نیپال کے شاہی خاندان کے ایک فرد نے ننھی منی نیپالی بادشاہت پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے دادا کی اولاد،باپ کی اولاداور بھائیوں سمیت ان کی اولادیں اور سارا خاندا ن کھانے کی میز پر جمع کر کے گولیوں سے بھون دیا۔ دوسرے ملکوں میں بھی سیاسی جماعتوں کی بادشاہت کے لیے ایسی جنگیں عام ہیں۔ جنگ ہو، وہ بھی سازشوں کی۔ اور سازش ہو وہ بھی محلاتی، تو ان میں سے مہام انگہ کے کردار کو کیسے نکالا جا ئے؟
رانی کے نام سے مشہور ہونے والی ایک جرنیلی خاتون نے 70ء اور80ء کی دہائی میں کیا کیا معرکے مارے، یہ بھی ہماری جدید سیاست کا ایک باب ہے۔مغلِ اعظم کے زمانے میں مہام انگہ کو تاج و تحت ہتھیانے کا کس قدر شوق تھا اس کی مختصر کہانی سُنیے۔ مہام انگہ کے بیٹے اعظم خان نے ماں کی آشیر باد سے مُغلیہ سلطنت کی جگہ اپنی شُغلیہ بادشاہت قائم کرنے کی محّلاتی سازش کی۔مغلِ اعظم کے حرم نے یہ سازش پکڑ لی۔ مہام انگہ شہنشاہ کے سامنے اعترافِ جرم کرنے پر مجبور ہوئی‘ لیکن اس دوران ناکام بغاوت کے مجرم‘ اس کے بیٹے کو قلعے کی چھت سے دو مرتبہ گرا کر سزائے موت دی جا چکی تھی۔
اب تھوڑی سی توجہ سے دیکھیے تو محسوس ہوگا کہ آج بھی مہام انگہ کا کھیل جاری ہے۔ جہاں جہاں یہ کھیل جاری ہے وہاں جو لولا، لنگڑا، بے ڈھنگا اور Expired Itemجیسا حرم موجود ہے‘ وہ مہام انگہ کا تنخواہ دار ملازم ہے ۔یہ کھیل چور سپاہی کا نہیں رہا۔ اس لیے مہام انگہ دونوں صورتوں میں خوش ہے ۔جیسے زبانِ حال سے پکار رہی ہو ''جیتوں تو تجھے پاؤں، ہاروں تو پیا تیری‘‘۔
دربان خاموش ہیں اس لیے کہ انہیں بادشاہ ،شہزادے اور بادشاہت سے زیادہ نوکریاں پیاری ہیں۔ مشیروں کا مشورہ وہی ،جو ان کے کان میں پھونکا جاتا ہے ۔خدا نہ کرے کہ مہام انگہ کا خواب پورا ہو ۔بادشاہ غیر مقبول اور بیکار ہی سہی مگر تجر بے کی گٹھڑی ۔شہزادہ نوخیز یا نوآموز ہی سہی لیکن توانائی کابھرپور ٹیکہ ہے۔ٹائی ٹینک پہلے ٹیڑھا تھا‘ اب اُلٹتا جا رہا ہے۔ جہاز کی سواریاں اگر اپنی جان بچاکر جہاز کو سلا مت دیکھنا چاہتی ہیں تو مہام انگہ پر قابو پائیں۔ اس کے ہاتھ سے وہ ڈرل مشین چھین لیں جس کے زور پر مہام انگہ ڈوبتے جہاز میں سوراخ کرنے سے باز نہیںآ رہی۔