جمہوری کوارٹر کی خیر ہو!

وہ کہہ رہا تھا... میں اور میرا باس جمہوریت کو بچائیں گے۔ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دوں گا۔اتفاق میں برکت ہے۔ یعنی ونڈ کھاؤ‘ کھنڈ کھاؤ۔ یہی ہے جمہوریت کی خوبصورتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ مفاہمتی سیاست نے آئینی ترمیم کے ذریعے انصاف کو بھی مزید خوبصورت کر ڈالا۔
میری ہنسی چُھوٹ گئی... اگرچہ مقام رونے کا تھا۔سپریم کورٹ بار کے صدارتی کمرے میں بیٹھے ہوئے وکیل مسکرائے اور پوچھا آپ کو کیا یاد آیا؟ ساتھ ہی کہا ۔پلیز بتائیے گا ضرور۔مجھے یاد آیا‘ میڈیا ٹاک کرنے والا 2012ء تک وزیر تھا مگرپچھلے الیکشن سے باہر ہو گیا۔اس کے باوجود 2015ء میں بھی وہ وزیروں کی کالونی والے سرکاری گھر میں رہتا ہے۔ سرکاری ملازموں یا پبلک عہدیداروں کے لیے بنائے گئے رہائشی رولز میں وزیر کا گھر کسی اور کو کرائے پر نہیں دیا جا سکتا‘ مگر نظریۂ ضرورت یا مفاہمت کے نام پر منافقت میں سب چلتا ہے۔یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ایسا کچھ چھوٹے سرکاری ملازموں یا غریب اہلکاروں کے حق میں نہیں چل سکتا۔
پچھلے سال اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہزاروں چھوٹے سرکاری ملازموں کو شوکاز نوٹس جاری ہوئے‘ جن کا موضوع بڑا دلچسپ تھا۔سرکاری ملازموں کو نوٹس میں دھمکی دی گئی کہ آپ نے اپنے گھروں میں سرکاری زمین پر مرغیوں کے شیڈ یا خالی جگہ پر سٹور نما کھولیاں بنائی ہیں۔ انہیں سات دن کے اندراندر گِراڈالو‘ ورنہ تمہارے گھر کی کرایہ داری منسُوخ‘ الاٹمنٹ کینسل ہو جائے گی اور محکمانہ کارروائی کے ذریعے تمہیں نوکری سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔ وفاق کے ترقیاتی ادارے نے چھوٹے ملازموں کو نوٹس جاری کر کے خوفزدہ کرنے کی دوڑ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ پھر سی ڈی اے شعبہِ انفورسمنٹ کے افسروں کی جیبوں کا سائز گلیوں سے پھیلتا ہوا سیکٹروں تک پھُول گیا۔ہر گھر سے وصولیاں شروع ہو گئیں‘ مگر کسی امیر بستی میں ایسے آپریشن ہوئے نہ ہی نوٹس جاری ۔
پچھلے دنوں ''اختلافی نوٹ‘‘ کے ذریعے ہم نے سیکرٹری وزارتِ داخلہ کی تلاشِ گمشدہ مہم چلائی‘ جس کے نتیجے میں ایک دن آئی الیون والی بستی کے سامنے پولیس آ کر کھڑی ہوئی۔پھر راوی کے مطابق تھیلے بھر کر واپس بھی چلی گئی۔اس بستی میں ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا اور کار لفٹنگ مافیا کا راج ہے۔ظاہر ہے کوئی بھی کمائی کرنے والے ''پُتّر‘‘ کو بے روزگار نہیں دیکھ سکتا ۔یہی حال اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کا بھی ہے۔ اسی لیے اسلام آباد کے ہر گرین ایریا میں چار ،پانچ منزلہ خُود رو عمارتیں نمودار ہو رہی ہیں۔ جو لوگ تین ،تین دفعہ ایکوائر شدہ اراضی کا معاوضہ، اس پر کھڑے درختوں اور راتوں رات بنائے گئے گھروں کی قیمتیں وصول کر چکے ہیں‘ ان کی قسمت ابھی تک جاگ رہی ہے۔
اگر کوئی پنڈی تحصیل کی اس آدھی تحصیل‘ جِسے آج کل اسلام آباد کہتے ہیں‘ میں دیئے گئے معاوضے کی تفصیل شائع کرے تو مجھے یقین ہے اس سے اسلام آباد جتنے تین مزیدشہر بس جائیں‘ لیکن یہ معاوضے لینڈ مافیا کھا گیا۔اسلام آباد کے غریب متاثرین آج بھی بد حال ہیں‘ ساتھ ساتھ بے روز گار اور مسائل سے مارے ہوئے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی بغل میں سینکڑوں کنال سرکاری اراضی پر بڑے بڑے ہوٹل، شوروم، ورک شاپس، اڈے اور میگا پلازے بن رہے ہیں۔ قانون تو ہوتا ہی اندھا ہے‘ لیکن کیاانصاف بھی بینائی سے محروم ہو گیا...؟ 
سی ڈی اے چھوٹے گھروں میں نئے کمرے اور کھوکھے بنانے، گِرانے اور پھر اپنی نگرانی میں بنوا کر دینے والا کاروبار چلا رہی ہے۔سرکاری زمین پر قبضہ کر کے ایک کمرہ ،دو کمرے، حویلی، دُکان ،مارکیٹ یا عبادت گاہ ،مذہبی کمپلیکس، سکول اور مدرسہ بنانے کی فیس علیحدہ علیحدہ مقرر ہے۔ آپ فیس دیں اور جو مرضی بنا ڈالیں‘ آپ کو کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ فیس دینے کے بعد نہ کسی الاٹمنٹ کی ضرورت‘ نہ کوئی لیز کی شرائط طے ہوں گی‘ نہ ہی کرائے کی ادائیگی کا جھنجٹ۔ زمین کی ناپ تول بھی آپ خود کر لیں ۔کارنر پلاٹ کا کوئی زائد پیسہ نہیں لگتا۔ دوسری جانب چھوٹے ملازموں کے ان سے بھی چھوٹے کوارٹر کو زبردستی خالی کرایا جاتا ہے‘ لیکن بڑے لوگوں کے لیے بڑے گھروں میں بڑے بڑے اخراجات کے ساتھ نئے بیڈ روم، نئے ڈرائنگ روم، نئی کھڑکیاںاور نئی چھتیں بنائی جاتی ہیں۔ غریب کے کوارٹر کا حال خانۂِ دل جیسا ہے: 
ٹُوٹے کواڑ اور کھڑکیاں، چھت کے ٹپکنے کے نشاں
دروازے ہیں، روزن نہیں، پردے نہیں، چلمن نہیں
وہ خانۂ حالی ہے دل، اک شمع تک روشن نہیں
ملک میں عملی طور پردو قوانین نافذ ہیں ۔غریب پاکستان کے لیے امیر اور بے رحم قانون۔سرمایہ دار پاکستان کے لیے معذور اور غریب الوطن قانون۔
بات ہو رہی تھی جمہوریت کو مضبوط کرنے والوں کی۔عجیب کارٹون نما کریکٹر، گورننس اور جمہوریت کے نام پر پروگراموں میں پرفارمنس دکھا تے نظر آتے ہیں ۔سٹیٹس کُو کے بد بودار نظام کی بد صورتی کی حد دیکھیں۔ کاروباری جمہوریت کے دلال اور ٹھیکدار بظاہر ''بلا معاوضہ‘‘ خدمت گزار ہیں‘ لیکن جمہوریت کی اس بلا معاوضہ خدمت کے بدلے ایک گھر وزراء کالونی میں اپنے لیے‘ جبکہ سالے سالیوں یا بھانجے بہنوئی کے لیے ایک فرنشڈ اپارٹمنٹ پا رلیمانی لاج کے اندر بھی۔ اسلا م آباد کے بڑے سیکٹروں میں آج کل ایک کنال کے گھر کا کرایہ لاکھوں روپے ماہانہ ہے۔ اگر گھر فْلی طور پر فرنیچر، قالین، اے سی، ہیٹر، لانڈری اور کچن سے سجایا ہو تو کرایہ ڈبل سے زیادہ۔ جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے روکنے والی ''رضاکار پلاٹون‘‘ کے پاس مْفت کی سرکاری گاڑ یاں ہیں۔ گھر مْفت، نوکرمْفت، سکیورٹی مْفت، لوڈ شیڈنگ اور گیس گردی سے نجات بھی مْفت۔ اگر اس طرح کی سہولیات پاکستان کے غریب عوام کومل جائیں تو وہ بھی جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچاسکتے ہیں۔ سرما یہ دارانہ نظا م کے چور بازار کارندے کس قدر جری اور بہادر ہیں‘ اس کا اندازہ وزارتِ خزانہ کے دو عدد بیانو ں سے لگا لیں۔ ایک بیان وزیرِ خزانہ نے دیا‘ وہ بھی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں۔یہ کمیٹی وفاقی کابینہ کا حصّہ ہے۔ اس کے بیا ن کا مطلب ہے وزیرِ اعظم کی دی ہوئی پالیسی ۔ وزیرِ خالی خزانہ نے کہا‘ بجٹ سے پہلے بجلی گیس اور پٹرولیم پرمزید ٹیکس لگیںگے۔ ٹیکس سے پہلے ہی پٹرول غائب ہو گیا،پمپ بند ہیں، منافع خوروں کے منہ کُھلے ہوئے۔ دوسری جانب وزارتِ خزانہ نے ہماری مجبورو ممنون پارلیمنٹ کی پارلیمانی کمیٹی میں انکشاف کیا کہ آئی ایم ایف کہتا ہے لوگوں کو سبسڈی کا ریلیف نہ دو، ٹیکس لگائو، جو ہم ضرور لگائیں گے۔ کمیٹی کے ممبران مسور کی دال والا منہ لے کر اس جواب پر شرمندہ ہونے کی ایکٹنگ کرتے رہے۔
اگر قوم پچھلے سو دن میں پارلیمنٹ اورچار صوبائی اسمبلیوںکے ریکارڈ دیکھے تواُس کے چودہ طبق روشن ہو سکتے ہیں۔ سب جانتے ہیں طبق روشن کرنے کے لیے نہ لوڈ شیڈنگ آڑے آتی ہے نہ بجلی کا بل پیچھا کرے گا۔ آج تک کسی اسمبلی میں کسی نے مہنگائی ، بے روز گاری ، یوتھ کے مسائل، عورتوں کے تحفظ، بچوں کی نگہبانی، پنشنرز، سینئر شہریوں تک کے لیے موثرآ واز نہیں اٹھائی۔ میں نے صرف موثر آواز اٹھانے کا اس لیے کہاکیونکہ ان میں پالیسی سازی یا فیصلہ سازی کی صلاحیت ہو تی تو پھر کس بات کا رونا...؟ اسمبلیوں میں بڑے زمینداروں کے مافیا زموجود ہیں‘ لہٰذا وہاں کاشتکار یا زرعی مزدوروں کے حق میں نہ پالیسی بن سکتی ہے نہ ان کے تحفظ کا قانون۔
دیہاتی سکولوں میں یخ بستہ سردی میں بھی بچوں کے نیچے نہ کوئی ٹاٹ ہے نہ چٹائی ۔قوم کا غم قوم جانے‘ لیکن سرکاری کوارٹر کا مزہ اپنا ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں