اصلاحات ایک مرتبہ پھر نظر انداز

اپنے دوسرے بجٹ میں حکومت نے ایک مرتبہ پھران معاشی اصلاحات کو نظر انداز کردیا جن کی شدت سے کمی محسوس کی جارہی ہے۔ پالیسی سازوں کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ملک کم ٹیکس وصول کرتے ہوئے بھی اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے غیر پیداواری اخراجات۔۔۔سول، عدلیہ اور دفاعی افسران اورسیاسی شخصیات پر خرچ ہونے والی رقوم۔۔۔ کو کنٹرول کرسکے اور اس کے پاس پبلک سیکٹر میں چلنے والے اداروں کو ادا کرنے کے لیے فنڈز ہوں تاکہ عوام کو احساس ِ محرومی سے بچایا جاسکے۔ 
عوام کی اکثریت سوچتی ہے کہ وہ ان افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے ٹیکس کیوں اد ا کریں جو پہلے ہی دولت مند اور طاقت ور ہیں؟ دراصل ان افراد کو فراہم کی جانے والی سہولیات کا تعین Composite Pay Package کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔ اس پیکج کو مارکیٹ میں مروجہ تنخواہ کی بنیاد پر طے کیا جائے۔ان افسران کو دی گئی وسیع و عریض رہائش گاہوںکو نیلام کردیا جائے۔ پبلک سیکٹر میں چلنے والے تمام کاروباری اداروںکو نجی تحویل میں دے دیا جائے تاکہ ریاست پر پڑنے والا بوجھ کم ہوسکے۔ 
بجٹ بناتے وقت مسٹر ڈارنے بھی اپنے پیش رو کی طرح اس حقیقت کو نظر انداز کرنے میں عافیت گردانی کہ قومی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ اُس رقم کا زیاں ہے جو اعلیٰ طبقے، سرکاری اور غیر سرکاری افسران، عوامی نمائندوں اور دیگر اشراف کو دی جانے والی سہولیات کے لیے صرف کرنا پڑتی ہے۔ ا س کے علاوہ پبلک 
سیکٹر میں چلنے والے کاروباری ادارے بھی سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ ٹیکس کا موجودہ نظام پہلے ہی بڑی حد تک بالواسطہ ٹیکسز پر انحصار کرتے ہوئے عوام کی گردن پر بھاری بوجھ ثابت ہورہا ہے۔ 2014ء کے مالیاتی بل میں عوام پر مزید سختی کا عندیہ دے دیا گیا ۔ اگر اس بل کی منظوری دی جاتی ہے توپیداواری شرح میں مزید کمی آئے گی۔ایسا لگتا ہے کہ مسٹر ڈار نے ٹیکس کے نظام کو سادہ اور قابلِ فہم بنانے کی ضرورت محسوس نہیںکی اور نہ ہی اس کی پیچیدگی کے معاشی ترقی پر پڑے والے منفی اثرات کا ادراک کیا ۔ اب پیش کی جانے والی ٹیکس تجاویز بدعنوانی کے نئے راستے کھولتے ہوئے اس مافیا کو فائدہ پہنچائیں گی جو ایف بی آر کو کنٹرول کرتا ہے۔ ان ٹیکسز کی وجہ سے پڑنے والے بوجھ کو کاروباری طبقہ بہت آسانی سے عام صارف پر منتقل کردے گا۔ دکاندار کے لیے سیلز ٹیکس کی ادائیگی اور بجلی پر لگایا گیا مزید ٹیکس کاروبار کی لاگت کو بڑھا دے گا۔ وہ افراد جن کا ماہانہ بل بیس ہزار روپے سے کم ہے، پر 46 فیصد ٹیکس عائد ہوگا جبکہ جن کا بل بیس ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ ہے، پر صرف معمولی اضافے کے ساتھ48.5 فیصد ہے۔ عقل حیران ہے کہ ایف بی آر کے خودسر افسران زمینی حقائق سے بے خبر ہوکر کس قسم کے جابرانہ فیصلے اور من مانی کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ یہ فیصلہ چھوٹی سطح پر ہونے والے تمام کاروبارکو بیک جنبشِ قلم ختم کردینے کے مترادف ہے۔ 
اس کے علاوہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ء کے ضابطہ نمبر سات میں کی جانے والی ترمیم ملاحظہ ہو۔ اس کے مطابق Input ٹیکس کا اطلاق Actual Consumption پر ہوگا۔ جس کسی نے بھی اس کو تجویز کیا ہے، اس سے پارلیمنٹ میں باز پرس ہونی چاہیے کیونکہ اس پر Input ٹیکس کا اطلاق ہوہی نہیںسکتا۔ یہ ایف بی آر میں بیٹھا ہوا کوئی بقراط ہی بتا سکتا ہے کہ Input ٹیکس کو Actual Consumption سے کس طرح مربوط کیا جائے گا۔ یقینا سیلز ٹیکس آڈٹ مافیا کی اس قسم کے گورکھ دھندے سے مزید چاندی ہوجائے گی۔ اس ترمیم کے بعد یہ اس کی صوابدید پر ہوگا کہ وہ Input کی اجازت دیں یا نہ دیں۔ اس سے کاروباری طبقے پر دبائو میں اضافہ ہوگا اور چھوٹی سطح پر سرمایہ کاری کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ Input Taxکے لیے درکار اعداد و شمار حاصل کرنا اور پھر اس کی افسران سے تصدیق کرانا تقریباً ناممکن ہوگا۔ یہ بات قابل ِ غور ہے کہ صوبائی سیلز ٹیکس کو ناقابل ِ قبول قرار دے دیا گیا ہے۔ 
مسٹر ڈار اس بات کی تفہیم میں ناکام ہوگئے کہ ودہولڈنگ ٹیکس، چاہے اس کا دارومدار انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء پر ہو یا سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ء پر‘ محصولات میں خاطرخواہ اضافہ نہیں کرسکتا۔ اگر اس پر مزید زور دیا جاتا رہا تو پھر یہ تجویز بھی سامنے آئے گی کہ اب ایف بی آر کو ختم کردیا جائے کیونکہ اگر ودہولڈنگ ٹیکس ہی جمع کرنا ہے تو پھر ان پچیس ہزار ملازمین کو پالنے کی کیا ضرورت ہے؟اس کے علاوہ غیر روایتی سیکٹر پر مزید دو سے تین فیصد ٹیکس لگانے سے کام نہیں چلے گا۔ اس کی وجہ سے کاروبار کی لاگت اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کے باوجود لوگ ٹیکس فائل جمع کرانے کی زحمت نہیں کرتے۔ 2013ء میں صرف840,000افراد نے ٹیکس ریٹرن جمع کرائی حالانکہ رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد3.6 ملین ہے۔ اس کے علاوہ پری پیڈ موبائل فون صارفین کی صورت میں ایڈوانس ٹیکس اداکرنے والوں کی تعداد تیس ملین ہے۔ 
ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کے کروڑوں باشندے مختلف صورتوں میں ایڈوانس ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس کے باوجود اُن پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس ادا نہیںکرتے۔ وہ ٹیکس افسران سے سہمے رہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیںکہ ریٹرن فائل کے حوالے سے آسان قوانین بنائے جائیں۔ تاہم اس ضمن میں پیچیدہ طریقِ کار ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت کو احساس کرنا ہوگا کہ وہ ٹیکس کا ایسا نظام وضع کرے جس سے عام آدمی پربوجھ کم پڑے اور مراعات یافتہ طبقے کی جیب سے رقم نکلوائی جاسکے۔ ٹیکس کے نظام کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنے اخراجات کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ اگر دولت مندا فراد سے انکم ٹیکس وصول کر بھی لیا جائے لیکن حکومت کے اخراجات ایسے ہی رہے تو ریاست کوکوئی فائدہ نہیںہوگا۔ دراصل ٹیکس پر جاری اس بحث کا مقصد غریب افراد کو دولت مندوں کے مقابلے پر لا کھڑا کرنا نہیں بلکہ یہ حکومت اور اس کے پالیسی سازوں کے لیے یادہانی ہے کہ عوام کو عدم تحفظ کا شکار ہونے سے بچائیں۔ جس قسم کے حالات کا پاکستان کو سامنا ہے، اس میں عام آدمی کو زیادہ تحفظ کی ضرورت ہے۔ 
ہمیں پاکستان کے بہتر مستقبل پر یقین رکھنا چاہیے۔ اگر حکومت عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوجائے توعوام کی ایک بڑی تعدادٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی آنے والی تعلیم یافتہ نسلیں موجودہ ٹیکس کے نظام میں تبدیلی چاہیںگی۔ اس نظام میں انصاف کے اور دیانت کے تقاضے پورے کرنا حکومت کا فرض ہے۔ تاہم مسٹر ڈار نے ان معروضات کو نظر انداز کرتے ہوئے جابرانہ ٹیکس کے نظا م کو ترجیح دی ہے۔ حکومت کو احساس کرنا ہوگا کہ ملک کا درمیانہ طبقہ بے چینی محسوس کرنا شروع ہوچکا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں