سوئس بینک اکائونٹس میں موجود رقوم

اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق وزیر خزانہ جناب سینیٹر اسحاق ڈار صاحب نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ سوئس حکام سے مذاکرات کر کے سوئس بینک اکائونٹس سے پاکستانیوں کے ــ200بلین ڈالر واپس لائیں گے۔ خدا جانے انہوں نے یہ اعدادوشمار کہاں سے حاصل کئے ہیں۔
میں نے اپنے کئی مضامین میں واضح کیا ہے کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کیـ200بلین ڈالر کی رقوم کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ یہ صرف اخباری خبریں ہیں جن کی صداقت نہ کسی دستاویز اور نہ ہی کسی تحقیق سے ثابت ہے۔دراصل موجودہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہ رقم محض 1.41 بلین امریکی ڈالرز ہے۔ پچھلے چند برسوں میںاس دعوے کو لے کر پریس میں بغیر تحقیق کے ہر طرح کی قیاس آرائیاںہو رہی ہیں۔ محترم جناب خرم حسین نے اس بات کی نشاندہی ایک انگریزی اخبار میں اپنے کالم میںکی ہے۔ انہوں نے درست اعدادوشمار کی طرف سب کی توجہ دلائی ہے۔ امید ہے حکومتی اہلکار، سیاستدان اور تبصرہ نگار اب 200ارب ڈالر کی خیالی جنت سے نکل کر حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کریں گے۔
ہندوستان کو بھی فی الوقت اپنے شہریوں کے سوئس بینکوں میں موجود بلا ٹیکس اثاثوں کا پتہ لگانے میں دشواری کا سامنا ہے۔ نریندر مودی نے جب مئی 2014ء میں اقتدار سنبھالا تو ایک عدالتی حکم کی پاسداری میں ایک خاص انویسٹی گیشن ٹیم ترتیب دی۔ ہندوستان کی عدالتِ عظمیٰ نے جولائی 2011ء میں سابق وزیر قانون رام جیٹھ ملانی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے سوئس حکومت کے ساتھ مذاکرات کے طریقہِ کار کو واضح کیا تھا۔ سابق کانگریسی حکومت نے عدالتی حکم کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی تھی لیکن نئی حکومت نے بغیر کسی تاخیر کے عدالتی حکم پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران مودی نے بارہا غیرملکی بینکوں میں موجود ناجائز پیسہ ہندوستان واپس لانے کا وعدہ کیاتھا۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے اقتدار میں آتے ہی اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم بنائی جس میں عدالتِ عظمیٰ کے 2سابق جج، سینٹرل بینک کا ڈپٹی گورنر اور مختلف محکموں جیسا کہ انٹیلی جنس، سی بی آئی، مرکزی بینک وغیرہ سے تعلق رکھنے والے افسران شامل ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ ہمارے وزیرِاعظم نوازشریف اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو مودی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کوئی ایسا مثبت قدم اٹھائیں تا کہ ملک کا کچھ بھلا ہو سکے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ سوئس حکومت نے مورخہ یکم اگست 2014ء سے ایک نیا قانون ٹیکس ایڈمنسٹریشن اسسٹنس ایکٹ (TAAC) نافذ کیا ہے جس کی رُو سے دیگر ممالک باآسانی ٹیکس نادہندگان کی بابت معلومات حاصل کر سکیں گے۔ شاید وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر میں موجود ماہرین کو TAAC کے بارے میں علم ہو؟ شاید ان کو اندازہ ہو کہ پاکستان جیسے ملک کے لئے اس نئے قانون کی کیا اہمیت ہے؟ پاکستان کا وفد زیورخ کے مجوزہ دورے (24-26اگست) کے دوران سوئس حکومت سے Avoidance of Double Taxation Agreement [DTA] کی ان شقوں پر تبادلہ خیال کرے گا جن کا تعلق معلومات کی رسائی اور تبادلے کے بارے میں ہے۔ ان حالات میں وفد کو حالیہ تبدیلیوں سے پوری طرح آگاہ ہونا چاہیے۔ حکومتِ پاکستان کو واضح اور ناقابلِ تردید معلومات برائے ناہندگان فراہم کرنا ہوں گی تب جا کر سوئس حکومت کوئی تعاون کرے گی۔ہماری حکومت کا تو یہ حال ہے کہ اسے اعدادوشمار اور بنیادی سوئس قانون کا ہی پتا نہیں۔ سوئس حکومت نے 2010ء میں غیر قانونی طور پر لوٹی ہوئی دولت کو واپس کرنے کا قانون بنایا تھا اور ہم آج تک موجودہ کو ہی اس کے مطابق نہیں بنا سکے۔
TAAC نے مندرجہ ذیل ضروری ترامیم کی ہیں:-
1۔ اب چند ممالک مل کر سوئس حکومت کو گروپ کی حیثیت سے گزارشات پیش کر سکتے ہیں جس کے تحت ٹیکس نادہندگان کو منظرِ عام پر لانے میں تیزی ہو گی کیونکہ گروپ درخواست ہونے کی وجہ سے دستاویزات فراہم کرنے میں آسانی ہو جائے گی اور وقت کی بچت بھی۔
2۔ اس کے ذریعے اس بات کے امکانات بھی کم ہو گئے ہیں کہ ٹیکس چور اب اپنا پیسہ نکال کر کہیں اور لے جائیں گے۔ 
TAAC پاکستان اور اس جیسے ممالک کیلئے بہت سے روشن امکانات پیش کرتا ہے۔سوئٹزرلینڈ نے بلامقصد اس قانون کا اجراء نہیں کیا۔ دراصل OECD اور G-20 کی طرف سے اس پر مکمل دبائو تھا کہ یہ ٹیکس چوروں اور حقیقی سرمایہ داروں کے درمیان حدِفاصل کو واضح کریں اور ہر حال میں دوسرے ممالک کو ٹیکس چوروں کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔
البتہ ابھی اس ضمن میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ عالمی سطح پر بااثر گروپ جیسا کہ ٹیکس جسٹس نیٹ ورک ہے کو ایک کثیر الجہتی نظام کیلئے زور دینا چاہیے جس کے تحت ہر ملک پر لازم ہو کہ وہ دوسرے کسی ملک کے شہری کے بارے میں خود بخود معلومات کا تبادلہ کرے۔ اس طرح کا ایک معاہدہ سوئٹزر لینڈ اور او ای سی ڈی کے ممبر ملکوں کے درمیان ہو چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ G-20 ممالک کی طرف سے اس طرح کے معاہدے کو دیگر ممالک تک بھی پھیلایا جائے۔ اسی طرح تمام اقوامِ عالم مشترکہ طور پر ٹیکس چوری اور لُوٹی جانے والی دولت کا سدِّ باب کر پائیں گے۔ جب تک یہ نہیں ہو پاتا کم از کم پاکستان اور ہندوستان کو اس خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر سوئٹزرلینڈ کے ساتھ اسی طرح کا کثیرالجہتی معاہدہ کرنا چاہیے جیسا کہ او ای سی ڈی کے ساتھ مشترکہ طور پر کیا گیا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں