گلو کریسی اورپولیس میں اصلاحات کا عمل

کچھ پاکستانیوں نے بڑی بڑی مونچھوں کو تائودیتے، ڈنڈا لہراتے اور گاڑیوں کے شیشے توڑتے ہوئے گلو بٹ کی ویڈیو دیکھ کر ''گلوکریسی‘‘ کی اصطلاح گھڑ لی۔ شنید ہے کہ یہ اصطلاح آکسفورڈ ڈکشنری کے اگلے ایڈیشن کی زینت بنے گی۔ اس طرح انگلش ڈکشنری مرتب کرنے والے اہل ِ زبان ہمارے مشکور ہوںگے کہ ہم نے ان کی زبان کو ایک نئی اصطلاح بخشی ، اگرچہ اس کا استعمال منفی امور کے لیے ہی ہوسکتا ہے۔ اس طرح گلوبٹ نے تشدد، ہنگامہ آرائی،توڑ پھوڑاور پولیس کی سرپرستی میں قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کردارکے طور پر سامنے آکر پاکستان کو چار دانگ عالم میں بدنام کرنے کا فریضہ سرانجام دیا۔ یوں گلو بٹ کا جیتا جاگتا کردار پولیس اور اس کے سیاسی ماسٹرز کی طرف سے منفی مقاصد کے لیے فورس کے استعمال کی علامت بن کر دنیا کی نظروں میں آگیا۔ 
درحقیقت پنجاب پولیس میں ایسے بہت سے کردار ہیں جو سیاسی مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کا کام کرتے ہیں، یہ گلوبٹ تو سترہ جون کی کارروائی کے دوران کیمرے کی نظر میں آکرعالمی شہرت کا امین ہوا۔ ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں گلوبٹ نے قوم سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ اُنہیں اپنے افعال پر شرمندگی ہے۔ تاہم گلوبٹ کسی ایک شخص کا نام نہیں، بلکہ وہ جا برانہ نظام کی نمائندگی کرتا ہے جس میںاعلیٰ عہدوں پر فائز پُررعونت حکمران اپنے مذموم مقاصد کے لیے کسی بھی تبدیلی کے روادار نہیں اور ایسے افرادکی پھیلائی ہوئی دہشت کے بل بوتے پر وہ اپنے اقتدار کو قائم کرتے اورطول دیتے ہیں۔ خادم ِ اعلیٰ گزشتہ کئی برسوں سے پنجاب پر حکومت کررہے ہیں۔ وہ زبانی جمع خرچ کے طور پر تھانہ کلچر تبدیل کرنے کی بات کرتے رہتے ہیں۔ تاہم وہ ایسا ہرگز نہیں کریںگے کیونکہ وہ پولیس کے آہنی ڈنڈے سے ہی حکومت کرتے ہیں لہٰذا وہ موجودہ پولیس کے نظام میں مطلق تبدیلی کے روادار نہیںہوںگے۔ 
پاکستان میں پولیس ریفارمز میں ناکامی پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے قانون ساز صرف سخت قوانین بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ ان کے نفاذ کے لیے کسی منصفانہ نظام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ایسے کسی نظام کی غیر موجودگی میں اصلاحات کی کوئی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ عدلیہ نہ جانے کیوں اس نظام کی بہتری کے لیے تیار نہیں، حالانکہ گزشتہ دور میں عدلیہ کے بحالی کے بعدیہ اپنے اختیار کو آزادی سے استعمال کررہی تھی۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات حکمرانوں اور قانون سازوں پر بیانات کی حدتک تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن میرے خیال میں یہ کبھی نہیں دیکھنے میں آیا کہ پولیس کو نااہلی یا تفتیش اور امن و امان برقرار رکھنے میں ناکامی پر عدلیہ کی طرف سے کوئی سزا دی گئی ہو۔ 
بھارت میں اعلیٰ عدلیہ نہ صرف عوام کے حقوق پر نظر رکھتی ہے بلکہ ہر سطح پر موثر نظام ِ عدل کی فعالیت کو بھی یقینی بناتی ہے۔ تاہم پاکستان میں ایسی فعالیت دیکھنے میں نہیں آتی۔ چھ سال تک پولیس ریفارمز کے عمل کی نگرانی کرنے کے بعد گیارہ اپریل 2013ء کو بھارتی سپریم کورٹ نے اس کے نفاذ کا عملی اقدام اٹھاتے ہوئے تمام ریاستوں کو ہدایت کی کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر ان ''سکیورٹی کمشنز‘‘ کو یقینی بنائیں ، جو پولیس کو سیاسی مداخلت سے بچاتے ہیں۔ ریاستوں کو بادل ِ ناخواستہ ایسا کرنا پڑا۔ دوسری طرف پاکستان میں پولیس آرڈر 2002ء کے بعد سے صورت ِحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ اس کی نشاندہی ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان اور کامن ویلتھ رائٹس نے بھی کی ۔ 
دیگر جمہوری ریاستوں کی طرح ہمیں بھی اچھی طرز ِحکمرانی یقینی بنانے کے لیے پولیس کے نظام کو جمہور پسند بنانا ہوگا۔ اس نظام کا سب سے اہم پہلو احتساب ہے۔۔۔ صرف حکومت کاہی نہیں بلکہ اس کے تحت چلنے والے تمام اداروں ، ایجنسیوں اور تنظیموں کا تاکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ انسانی حقوق کے طے شدہ پیمانوں کے مطابق کام کررہے ہیں یا نہیں۔ ہمارے ہاں صوبائی حکومتیںمقامی حکومتوںکا نظام قائم کرنے میں ہی ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ یہ آئین کے آرٹیکل 140Aکی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کو جس سطح پر جرائم اور دہشت گردی کا سامنا ہے ، اس سے نمٹنے کے لیے موثر پولیس کا نظام موجود نہیں۔ پاکستان میں اُ س وقت تک سیاسی استحکام، معاشی خوشحالی اور سماجی ترقی دیکھنے میں نہیں آسکتی جب تک پولیس فورس کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اسے ایک لیگل فریم ورک کے اندر نہیں لایا جاتا اور جب تک پولیس بطور ادارہ اور پاکستان کی قانون نافذ کرنے کی پالیسی عالمی قواعد وضوابط کے ساتھ ہم آہنگ نہیںہوجاتی۔ 
درحقیقت ملک میںپولیس ایکٹ 1861ء میں اصلاح لانے کے لیے بہت سی کمیٹیاں اورکمشنز قائم کیے گئے ہیں۔ چودہ اگست 2002ء کو پولیس آرڈر 2002ء کا نفاذ دیکھنے میں آیا۔ اس کا مقصد پولیس کو پیشہ ور، فعالیت کے اعتبار سے خود مختارلیکن جمہوری طور پر قابل ِ احتساب ادارہ بنانا تھا۔ عوامی سطح پر اس پر نظر رکھنے کے لیے قومی، صوبائی اور ضلعے کی سطح پر ادارے متعارف کرائے گئے۔ ان میں ''پبلک سیفٹی کمیشنز‘‘ اور ''پولیس کمپلینٹ کمیشنز‘‘ شامل ہیں۔ تاہم ان اداروں کو سیاسی قیادت اور اعلیٰ بیوروکریسی نے کام نہیں کرنے دیا۔ پولیس آرڈر 2002ء کے ضوابط طاقت کے غلط استعمال سے روکتے ہیں، تاہم جب شکایات پر کوئی کارروائی ہی دیکھنے میں نہ آئے تو عوام کے مسائل کا مداوا کیسے ہوسکتا ہے۔مزید یہ کہ ان اداروں میں عام شہریوں کو نمائندگی دینے کے لیے بھی کوئی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے ۔ پولیس آرڈر 2002ء اور 2004ء کے درمیان بہت سی ترامیم متعارف 
کرائی گئیں اور پھر 2007ء میں اس کی اہم شقوں کو تحلیل کردیا گیا۔ ان ترامیم کی وجہ سے پولیس کی فعالیت نہ تو خودمختار ہوسکی اور نہ ہی یہ سیاسی اثر سے پاک ہوسکی۔ ان کمیشنز کی کمزوری کی وجہ سے عوام کو بھی اس کے جبر سے نہ بچایا جاسکا۔ اٹھارویں ترمیم 2010ء کے بعد پولیس کوصوبائی حکومت کے ماتحت کردیا گیا۔ اس وقت ملک میں حالت یہ ہے کہ پولیس آرڈر 2002ء دو صوبوں، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نافذ ہے جب کہ سندھ اور بلوچستان پولیس ایکٹ 1861ء کے تحت کام کررہے ہیں۔ 
بھارت میں پولیس ریفارمز پر 23 جنوری 2013ء کو سامنے آنے والی ''جسٹس ورما کمیٹی رپورٹ ‘‘ میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے بہت سے ایسے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا جن میں عدالت نے پولیس نظام میں اصلاحات پر زور دیا ۔ وہاں پولیس اور اس کے تفتیشی عمل کو سیاسی مداخلت سے بچانے کے لیے بہت کام کیا جارہا ہے۔ جسٹس ورما رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس چیف کی تقرری کے عمل کو شفاف بنایا جائے اور اُسے ایک مخصوص مدت کے لیے تعینات کیا جائے۔ اس کے علاوہ عوام کے جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے نیا پولیس ایکٹ متعارف کرایا جائے۔ اگر ہم پاکستان میں گلوکریسی سے نجات پاتے ہوئے جمہوریت اور ترقی کی راہ پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی ایسی اصلاحات اپنانا ہوں گی۔ سیاسی حکمرانوں کا تو انتخابات میں کسی قدر احتساب ہوجاتاہے، لیکن پولیس اور دیگر اداروں کے احتساب کا بھی کوئی نظام ہونا چاہیے، ورنہ ایک حکومت کے پروردہ گلوبٹ کو دوسری حکومت استعمال کر لے گی اور شیشے عوام کے ہی ٹوٹیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں