ایف بی آر کی افسوس ناک کارکردگی

2014-15 ء کے مالی سال میں ایف بی آرکا ہدف 2810 بلین روپے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 2013-14 ء کے ہدف 2266 بلین روپے کے مقابلے میں چوبیس فیصداضافہ درکار ہوگا ۔ ماہرین کا خیا ل ہے کہ ایف بی آر کی کارکردگی اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اس کی توقع لگانا خام خیال ہوگی۔ ایف بی آر کاٹریک ریکارڈ ظاہر کرتاہے کہ یہ گزشتہ پانچ سال کے دوران تسلسل سے اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ آخری مرتبہ جب یہ اپنے ہدف کو پہنچنے میں کامیاب رہا ، وہ2007-2008 ء کا مالی سال تھا۔ گزشتہ مالی سال، 2013-14ء ، میں ایف بی آر ہدف سے 209 بلین روپے کم حاصل کرپایا۔ اس سے پہلے 2012-13ء میں یہ کمی 444 بلین روپے تھی۔ 
پی پی پی کی مخلوط حکومت کے دوران ایف بی آر کی کارکردگی خوفناک حد تک خراب رہی۔ یہ اپنے اہداف کو بہت بڑے مارجن سے مس کرتارہا لیکن حکومت کی کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اس دوران ریفنڈ کی رقم کا بھی اربوں روپے کا اسکینڈل سامنے آیا۔ سلیم ایچ مانڈی والا ، جنھوں نے مختصر مدت کے لیے وزارتِ خزانہ سنبھالی تھی، نے سترہ مارچ 2013 ء کو ظاہر کیا کہ ایف بی آر نے 190 بلین روپے سیلز ٹیکس کے طور پر قومی خزانے میں جمع کیے لیکن پھر بااثر افراد کوغیر قانونی طریقے سے 600 بلین روپے واپس کر دیے۔ 2008 ء سے 2013ء تک، مالی ڈسپلن نافذ کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات دیکھنے میںنہ آئے۔ مہنگائی کم کرنے، سرمایہ کاری بڑھانے اور معاشی ترقی کی شرح کو تیز کرنے کی طرف سے کوئی پیش رفت نہ کی گئی۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں ہونے والے کمی کو روکنے کے لیے کوئی حکمت ِ عملی نہ اپنائی گئی۔
چونکہ ایف بی آر مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، تیس مئی 2013 ء تک مالیاتی خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کا آٹھ فیصد ہوچکا تھا اور جی ڈی پی کے مطابق قرض کی شرح 65 فیصد کی خطرناک حد تک پہنچ گئی تھی۔ اس لیے اقتدار میں آتے ہی نواز شریف کی حکومت کو چاروناچار آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑا۔ گزشتہ چھ سال کے اعداد وشمار ایف بی آر کی ناقص کارکردگی کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔ 2013 ء میں صرف 840,000 انکم ٹیکس فائلیں جمع کرائی گئیں جبکہ 2009 ء میں یہ تعداد 1,282,118 تھی۔ 2.5 ملین ریٹیل فروشوں میں سے صرف 8 ہزار رجسٹرڈ ہیں۔ 2013-14 ء میں پوری کوشش کے باوجود انکم ٹیکس کی وصولی صرف 80.58 بلین روپے رہی۔ 2012-13 ء میں یہ وصولی 89.4 بلین روپے رہی۔ آئی آر ایس کی نااہلی کی وجہ سے یہ شرح 8.7 فیصد تک گرگئی۔ سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ 118,000 افراد، کمپنیوں میںسے صرف 15 ہزار سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ بیاسی فیصد وفاقی سیلز ٹیکس صرف سو کمپنیوں کی طرف سے وصول ہوتا ہے۔ جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس کی شرح8.9 فیصد ہے جو دنیا میں کم ترین ہے۔ سرکاری جائزے کے مطابق ٹیکس میں 70 فیصد تک کا گیپ موجود ہے جبکہ حقیقت میں گیپ ایک سو پچاس فیصد ہے۔ ملک میں ایک سو تیس ملین موبائل فون کے صارفین ہیں۔ ان میں کم از کم دس لاکھ بھاری بھرکم بل اداکرتے ہیں۔ایسے افراد کو لازمی انکم ٹیکس کے دائرے میں لایا جانا چاہیے۔ جب ایسے دولت مند افراد تمام سہولیات سے استفادہ کرنے کے باوجود انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے تو ایف بی آر کی ناکامی کے ثبوت کے لیے اور کیا شواہد درکار ہیں؟
اس وقت ایف بی آر کریڈٹ لے رہا ہے کہ اس کی طرف سے نوٹس جاری کرنے کے بعدچند ہزار افراد نے ٹیکس فائلیں جمع کرائی ہیں۔ تاہم یہ ان افراد کے بارے میں مکمل طور پر خاموش ہے جن کی آمدنی قابل ِٹیکس ہے لیکن وہ انکم ٹیکس ادا نہیںکرتے۔ 2012 ء میں چیئرمین ایف بی آر نے سینٹ کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ تیس لاکھ دولت مند افراد ٹیکس ادا نہیں کرتے ۔ ان میں سے تین لاکھ انتہائی امیر افراد کو نوٹس بھجوائے گئے لیکن آج تک اُن کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ۔ 
تمام حقائق ظاہر کرتے ہیںکہ ایف بی آر بدعنوانی، نااہلی، کمزوری اور سستی کااستعارہ بن چکا ہے۔جعلی ریفنڈ ، بوگس انوائسز، کم انوائسز، ایکسپورٹ ری بیٹ پر بھاری ادائیگی اور دیگر سقم ظاہر کرتے ہیں کہ اس ادارے کا طاقتور مافیا سے ناجائز تعلق ضرور ہے ۔ یہ مافیا اس ادار ے کی مدد سے اپنی دولت کا تحفظ کرتا ہے اور ٹیکس کا تمام بوجھ غریب افراد پرلاد دیتا ہے۔ ایف بی آر کا بھرتی کردہ زیادہ تر سٹاف نااہل ہے۔ وہ قابل ِ احترام ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کے ساتھ بھی ناروا سلوک کرتا ہے، گو‘ ٹیکس ادانہ کرنے والوں تک اس کے ہاتھ نہیں پہنچ پاتے،یہاں سینئر شہریوں کی بھی کوئی قدر نہیں ہے۔ ٹیکس وصول کرنے والوں افسران کی ذہنیت یہ ہے کہ یہ ادارہ ٹیکس ادا کرنے والوں کے لیے اذیت رساں،جبکہ ٹیکس چوروں کے لیے راحت رساں ہو۔ ابھی اس کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہیں جس کی مدد سے اپنی ورک فورس کی استعداد کو بڑھاتے ہوئے اپنی کارکردگی کو تسلی بخش سطح تک لاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ابھی تک اپنے دفاتر میں آئی ٹی کے شعبے میں ہونے والی ترقی سے استفادہ نہیں کرپایا ۔ 
اس وقت ضرورت اس امرکی ہے کہ بدعنوانی سے پاک، باصلاحیت اور متحرک ادارہ قائم کیا جائے تو اپنے قومی فرائض سے آشنا ہوکہ ٹیکس کے بغیر ریاست نہیں چل سکتی۔ یہ بات اتنی ہی واضح ہے جتنی یہ فوج کے بغیر ریاست کا دفاع نہیںہوسکتا۔ اسے سمجھنے کے لیے بہت بڑا بقراط ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگرچہ عالمی بنک اور دیگر مالیاتی اداروں نے پاکستان کو بھاری رقوم دی ہیں اور ان کی مشاورت بھی شامل ِحال رہی ہے لیکن ہمارے مالیاتی معاملات بہتری کی بجائے خرابی کی طرف جارہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ روایتی دفتری طریقے کی جگہ ایف بی آر میں آئی ٹی اور افراد ی قوت کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔ اس کے لیے حکومت کوایک واضح پالیسی کے تحت سامنے آنا چاہیے۔ 
ٹیکس انٹیلی جنس سسٹم کے ذریعے ٹیکس چوروں کو گرفت میںلانے کی بجائے ایف بی آر ودہولڈنگ ٹیکس کے ذریعے افراد اور کمپنیوں پر ناروابوجھ لادرہا ہے۔ہرکوئی جانتا ہے کہ ٹیکس کے قوانین میںکوئی خرابی نہیں ہے لیکن جو لوگ ان کو نافذکے ذمہ دار ہیں، وہ نااہل ہیں۔موجودہ حکومت کوسیاسی دبائو سے قدرے آزادی ملنے کے بعد امید کی جانی چاہیے کہ وہ اس سمت توجہ دے گی۔ ایف بی آر کی کارکردگی پر ہمارے مستقبل کا انحصار ہے ۔ جب سیاست دان یہ کہتے ہیںکہ وہ کشکول توڑ دیںگے تو اُنہیںقوم کو بتانا چاہیے کہ امور ریاست چلانے کے لیے وسائل کہاںسے آئیںگے؟ جب حکومت مہنگائی کم کرنے کی بات کرتی ہے تو اس کا لازمی مطلب ہے کہ وہ بالواسطہ ٹیکس پر کم انحصار کرتے ہوئے دولت مند افراد پر براہ ِ راست ٹیکس لگائے گی۔ جب تک عوام ایسے اقدامات نہ دیکھیں، وہ نعروںاور بیانات پر یقین نہ کریں۔ ٹیکس نظام میں بہتر ی نہ لانا‘ دولت مند جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں سے بھاری انکم ٹیکس وصول نہ کرنا او ر غریب عوام کو ٹیکس کے بوجھ تلے دبادینا خود جمہوری اُصولوں کی نفی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں