ٹیکس چوری کی دہائی

ستائیس نومبر 2014ء کو ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر ِ اطلاعات نے چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان اور ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے دیگر رہنمائوں پر الزام عائد کیا کہ وہ ٹیکس چور ہیں۔ اس سے سیاسی حلقوں کے درمیان الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔وزیر ِ موصوف کے الزام کے جواب میں عمران خان کے حامیوں نے اراکین ِ اسمبلی کو بالعموم اور حکمران جماعت کی قیادت کو بالخصوص ''ٹیکس چور اور ملکی دولت لوٹنے والے‘‘ قرار دیا۔ عقل حیران ہے کہ حکومت کو ایسے الزامات لگانے کی کیاضرورت ہے؟ اُسے تو ٹیکس چور وں کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے، چاہے اُن کا تعلق کسی بھی جماعت سے کیوں نہ ہو۔ یہ ایف بی آر کا فرض ہے کہ وہ سیاسی وابستگیوں کا لحاظ کیے بغیر ٹیکس چوروں کو قانون کی گرفت میں لائے ۔ وزیر ِ اطلاعات کی طرف سے ٹیکس چور ی کے الزامات سمجھ سے بالا تر ہیں، یا پھر ملک میں کوئی قانون ہے ہی نہیں! 
ایف بی آر کے اپنے ریکارڈ کے مطابق 2013ء کے ٹیکس ائیر کے دوران ساٹھ فیصد کے قریب اراکین ِ پارلیمنٹ ریٹرن فائل جمع کرانے میں ناکام رہے۔ ٹیکس ایڈمنسٹریٹرز کی تعداد 1020 ہے اور وہ کیا کررہے ہیں؟ ایف بی آر کے پاس 23 ہزار ملازمین ہیں جن میں 13 ہزار کی تنخواہ قابلِ ٹیکس ہے۔ جس دوران ہم جمہوریت کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے، ہم اس بات کی تفہیم کرنے سے قاصر ہیں کہ ٹیکس کے بغیر جمہوریت بے معنی ہے۔ اگر تنخواہ داراراکین اور ایڈمنسٹریٹرز ٹیکس وصول کرنے کی اپنی ذمہ د اریاں ادا کرنے میں ناکام ہیں تو نظام نہیں چل سکے گا۔ لوگوں کا جمہوریت پر سے اعتماد اٹھتا جائے گا اور پھر ان کی مایوسی کسی طوفان کو دعوت دے گی۔ چنانچہ ، اس مسئلے کا نہایت آسان حل ہے۔۔۔۔ حکومت ایمانداری سے ٹیکس وصول کرے اور رقم کو منصفانہ طور پر عوام کی فلاح پر خرچ کرے۔ تمام دنیا میں ریاست کی یہی غرض و غایت ہی سمجھی جاتی ہے، پاکستان بھی اس سے مبّرا نہیں۔ 
سنٹر فار انویسٹی گیٹو رپورٹنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2011ء میںپاکستان میں ستر فیصد کے قریب قانون سازوں نے ٹیکس فائلز جمع نہیں کرائیں، لیکن ان کے خلاف قانون کے مطابق کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کے نتیجے میں 2013ء میںوفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں بہت سے ٹیکس چور داخل ہوگئے۔ ان میں سے اکثر نہایت شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے تعلق رکھنے والے 1072 قانون سازوں میں سے ایک بھی ان ایک سو ٹاپ ٹیکس دہندگان میںشامل نہیں جنہیں ایف بی آر نے 2013ء میں ایوارڈ دیے۔ یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ تمام قانون ساز مجموعی طور پرڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں 251 ملین روپے ادا کرتے ہیں۔ یہ رقم کل ڈائریکٹ ٹیکس کا 0.03 فیصد بنتی ہے ۔ ان اراکین کی اوسط حیثیت 900,000 ڈالر کے قریب ہے۔ 
ایف بی آر ڈائریکٹری(2013ء) جسے کوئی بھی ایف بی آر کی ویب سائیٹ پر دیکھ سکتا ہے‘ کے مطابق وہ رہنما جو جمہوریت کے چمپئن، آئین اور قانون کے محافظ کہلاتے نہیں تھکتے،کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ محمود خان اچکزئی، سراج الحق، بلوچستان کے وزیرِاعلیٰ عبدالمالک اور پنجاب کے سابق وزیر ِ قانون رانا مشہود کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نے 2,646,401 روپے، پنجاب کے وزیرِاعلیٰ نے 3,644,003 روپے، حمزہ شہباز نے4,383,138 ٹیکس ادا کیا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے 194,936 روپے، اسد عمرنے532,918 روپے، شاہ محمود قریشی نے605,500 روپے، عارف علوی نے 84,303 ، محمود الرشید نے 45,500 روپے ٹیکس ادا کیا۔ پی ایم ایل (ن) کے رہنما چوہدری شجاعت حسین نے 1,824,382 روپے، چوہدری پرویز الٰہی نے 791,600 روپے، چوہدری مونس الٰہی نے 519,455 روپے جبکہ گفتار کے غازی، شیخ رشید نے 58,410 روپے ٹیکس ادا کیا(باقی تفصیل انٹر نیٹ استعمال کرنے والے قارئین خود دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ کالم اس کا متحمل نہیںہوسکتا)۔ چکرادینے والا سوال یہ ہے کہ ان انتہائی متمول افراد سے صرف اتناٹیکس ہی کیوں لیا گیا۔ کہاں گئیں پاکستان کی عدالتیں، الیکشن کمیشن اور ایف بی آر؟کیا ان سب کا کوئی فرض بنتا ہے یا نہیں؟جب ان افراد کی زندگی، غیر ملکی دورے، گاڑیاں اور مکانات، بلکہ محلات دیکھیں تو ادا کردہ ٹیکس تو صرف (پنجابی محاورے کے مطابق) شلجموں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف بنتا ہے۔ 
چونکہ پاکستان میں خواص کے لیے ٹیکس کی چوری کوئی جرم نہیں، اس لیے کوئی سیاسی جماعت بھی ٹیکس چوروں کواپنی صفوں سے نہیں نکالتی۔ عام طور پر سیاست دان دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنے اثاثے ظاہر کردیے ہیں لیکن وہ صرف اشک شوئی ہوتی ہے۔ ان کی طرف سے ادا کردہ ٹیکس وہ ہوتا ہے جو وہ ریاست اُنہیں مشاہرہ دیتے ہوئے ٹیکس کی رقم منہا کرلیتی ہے، لیکن وہ خود اپنے ذمہ واجب الادا محصولات کیسے اور کیونکر ادا کرتے ہیں؟ 
تاہم ٹیکس ادا نہ کرنے میں صرف سیاست دان ہی اکیلے نہیں، بلکہ معاشرے کا ہر طاقت ور طبقہ ایسا کرتا ہے۔ درحقیقت قانون کی پیروی ہمارے ہاں کمزوری کے مترادف ہے اور ٹیکس ادا کرنے کے لیے قانون اور ریاست کا احترام ضروری ہے، چنانچہ ہمارے طاقت ور افراد خود کو ''کمزور‘‘ ثابت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اگر قانون ساز خود ہی قانون کا احترام نہ کریں تو وہ دوسروں پر قانون کی حکمرانی کیسے قائم کریں گے؟یہ قانون ساز آئین کے تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں لیکن وہ قدم قدم پر اس حلف کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ بارک اوباما کی پہلی مدت کے دوران ہونے والے انتخابات میں دو امیدواروں، Tom Daschle اور Nancy Killefe نے اپنے نام صرف اس لیے واپس لے لیے کیونکہ ان کی ٹیکس کی ادائیگی میں کچھ معاملات واضح نہیں تھے۔ اُنھوں نے یقینا ٹیکس ادا کیا تھا لیکن صرف کچھ شکو ک کی بنا پر نام واپس لینا پڑے۔ اس کا مطلب ہے کہ قیادت پر فائز شخص کو قانون سے انحراف تو کیا ، اس کے شک سے بھی بچنا ضروری ہوتا ہے۔ 
آج کل ہمارے ملک میں تبدیلی کی بات ہورہی ہے۔ یہ بات میں بارہاکرچکا ہوں کہ ملک کو اس کے سوا کسی اور تبدیلی کی ضرورت نہیں کہ ملک میں ٹیکس کی وصولی کانظام شفاف اور غیر جانبدار ہو جائے۔ اس وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ ان کے الزامات پر کان دھرنے کی بجائے انکم ٹیکس ڈائریکٹری دیکھ لیں۔ جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو اس کی ہمارے ملک میں بہتات ہے، لیکن اس کے عملی تقاضے ہمارے ہاں عنقا ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں