ٹیکس ٹربیونلز کی تشکیلِ نوکی ضرورت

ہمارے فنانس منسٹر اسحاق ڈار ٹیکس دہندگان اور ٹیکس مشیروں کے اس مطالبے کو مسلسل نظر انداز کررہے ہیں کہ ٹیکس ایپلیٹ سسٹم کو آزاد، بااختیار اور موثر بنائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ اسے سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایات کے مطابق انتظامی کنٹرول سے آزاد کیا جاسکے ۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت ٹیکس اصلاحات سے کس طرح جان چھڑوا رہی ہے ۔ وہ اس نظام میں اصلاحات اور شفافیت لانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔دوسری طرف ایف بی آر حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ٹیکس کے نظام میں فنانس ایکٹ کے ذریعے کئی غیر آئینی شقیں داخل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ 
انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء میں 2013ء میں کی جانے والی ترمیم آئین کی کھلی خلاف وزری قرار دی جاسکتی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے محکمے کے افسران کو ایپلیٹ ٹربیونل ان لینڈ ریونیو (ATIR)کے جوڈیشل ممبرز مقرر کیا جاسکتا ہے۔ فنانس منسٹر کا دعویٰ ہے کہ وہ اکائونٹنگ، ٹیکس، فنانس اور معاشیات کے شعبے کے ماہرہیں ، لیکن وہ 2013ء کے بجٹ میں ٹیکس تجاویز کی منظوری دیتے وقت ایف بی آر کے افسران کی چالبازی کو سمجھنے میں ناکام رہے کہ یہ گھاگ افسران یا تو ATIR پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں یا اپنے ناپسندیدہ افسران سے جان چھڑانے کے لیے وہاں تعینات کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات کی شہادت اُس وقت ملی جب اُنھوں نے اکیسویں سکیل کے ایک افسر کو جوڈیشل ممبر بنا کر بھیجا۔ بدقسمتی سے کابینہ اور پارلیمنٹ نے محض ربڑ سٹیمپ کا کردار ادا کرتے ہوئے فنانس بلز کی منظوری دے دی۔ ان پر بھی آئین کی خلاف ورزی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ ایف بی آر کے افسران منتخب شدہ نمائندوں کو مہروں کی طرح استعمال کرتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں اور عوامی نمائندے ان کی چالبازیوں کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس طرح ایف بی آر نے بہت ''کامیابی‘‘ سے 75سال سے قائم شدہ جوڈیشل ادارے کو تباہ کردیا۔ دراصل ایف بی آر کے افسران نے عوامی نمائندوں کی ٹیکس قوانین سے لاعملی کا فائدہ اٹھایا اور فنانس ایکٹ میں کئی ایک ترامیم کرڈالیں۔ ان ترامیم کی وجہ سے یہ ادارہ مفلوج ہوکے رہ گیا۔ 
ٹیکس افسران کو بطور جوڈیشل ممبر متعین کرنے سے ATIR ایک طرح کے ایف بی آر کے ''کیمپ آفس ‘‘ میں بدل گیا ہے۔ ایف بی آر کی افسر شاہی ٹیکس افسران کے منظور کردہ غیر قانونی احکامات کی ثالثی کرنا چاہتی ہے۔ مقصد کسی نہ کسی طریقے سے پارلیمنٹ کے طے کردہ بجٹ کے اہداف حاصل کرنا ہے۔ بعد میں، فنانس بل 2014ء میںاس پوزیشن کو تبدیل نہ کیا گیا حالانکہ اسحق ڈار نے ٹیکس بار اور ٹریڈ ایسوسی ایشنز سے ایسا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ عام طور پر ایف بی آر سے آنے والے اکائونٹس ممبران اکیس گریڈ کے افسران ہوتے تھے، یا اگر وہ بیسویں گریڈ کے ہوں توان کے پاس پانچ سال کا تجربہ بھی ہو۔ فنانس ایکٹ 2012ء نے اس شرط کوپانچ سے کم کرکے تین سال کردیا ۔ اس کی وجہ سے جونیئر افسران بھی کمیشنر کے طور پر کام کرسکتے ہیں۔ تاہم خدشہ ہے کہ یہ جونیئرافسران ایف بی آر کے گھاگ افسران کے دبائو میں آجائیں گے یا بہتر ترقی کی خواہش میں اُنہیں ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لیںگے۔ 
انڈیا میں 1941ء میں ٹریبونل قائم کرنے سے ٹیکس کے نظام میں ایک اہم تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ اس کا مقصد ادارے کو مکمل آزاد اور خودمختار بنانے اور اس میں اعلیٰ پائے کے قانونی ماہرین کو تعینات کرنا تھا تاکہ وہ ٹیکس کے معاملات کو آسان بناتے ہوئے صارفین کی مشکلات کا تدارک کر سکیں۔ انہیں فوری انصاف فراہم کرنے کی ہدایت کی گی تھی۔ 1941ء سے لے کر آج تک جوڈیشل ممبر کا تعین کرنے کے لیے درکار اہلیت وہی تھی جو ہائی کورٹ کے جج کا تعین کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف اعلیٰ درجے کے قانونی ماہرین ہی بطور جوڈیشل افسران لگائے جاتے تھے۔ 
پی پی پی کی سابق حکومت اور پی ایم ایل (ن) کی موجودہ حکومت نے اس ادارے میں بہت سی تقرریاں کرتے ہوئے اہلیت کی بجائے اپنی روایتی اقرباپروری اور ذاتی پسندیدگی کو ترجیح دی ہے۔ اکائونٹس ممبران کے لیے وزارت ِ قانون نے بہت سے نااہل اور ناپسندیدہ ماضی رکھنے والے افرا د کو افسران لگادیا ۔ تابوت میں آخری کیل 2014ء میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب موجودہ حکومت نے ایف بی آر کے افسران کو جوڈیشل ممبر مقرر کردیا۔ 2013ء میں کی گئی یہ ترمیم نیشنل جوڈیشل پالیسی 2009ء کے پیرا گراف نمبر چھ کی خلاف ورزی تھی۔ اس کے مطابق۔۔۔'' ایگزیکٹو کے کنٹرول کے ماتحت تما م خصوصی عدالتوں اور ٹربیونلز کو عدلیہ کی نگرانی میں دیا جائے تاکہ متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سفارشات کی روشنی میں افسران کی پوسٹنگ ہوسکے۔ ‘‘یہ آل پاکستان ٹیکس بار کا فرض تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں حکومت کی طرف سے ایک جونیئر ممبر کو جوڈیشل ممبر لگانے کے اقدام کو چیلنج کرتے، لیکن وہ آج تک اس مسئلے پر خاموش ہیں؛ تاہم، اب وقت آگیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت درخواست دی جائے اور نیشنل جوڈیشل پالیسی 2009ء کے پیراگراف نمبر پانچ کی سفارشات کی یقین دہانی کے لیے حکومت پر دبائو ڈالا جائے ۔ 
2007ء میں کی جانے والی ترمیم کے مطابق اکائونٹ ممبر کے لیے گریڈ اکیس کا ہونا ضروری ہے۔ 2007ء میں بیس گریڈکا افسر جو پانچ سال کا تجربہ رکھتا ہو،کی بھی تقرری دیکھنے میں آئی تھی ۔ 2010میںکمیشنر اپیل کے طور پر کام کرنے کی شرط ختم کردی گئی۔ اس کے بعد فنانس ایکٹ 2012ء میں مزید ترمیم کرکے تجربے کی شرط پانچ سال سے کم کرکے تین سال کردی گئی۔ تنزلی کے اس سفر کی بدترین مثال، جیسا کہ میں نے پہلے نشاندہی کی، ایف بی آر افسران کو جوڈیشل ممبرمتعین کرنے کی پالیسی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکس ٹربیونل کو وزارتِ قانون کے ماتحت نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی بجائے اسے ہائی کورٹ کے اختیار میں دے دیا جانا چاہیے۔ ایف بی آر سے تعلق رکھنے والے کسی افسر کو اس ٹربیونل کا ممبر نہیں ہونا چاہیے۔ اکائونٹس ممبران کے لیے ضروری ہے کہ وہ چارٹرڈ اکائونٹنٹس ہوں، یا ان کے پاس سی ایم اے کی ڈگری اور کم از کم دس سال کا تجربہ ہو۔ جوڈیشل ممبران کی اہلیت وہی ہو جو ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی ہوتی ہے۔ 
پاکستان میں لوگ ٹیکس فائل جمع کرانے میں تامل سے کام لیتے ہیں کیونکہ وہ ٹیکس حکام سے خائف رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ٹیکس جمع کرانا چاہتے ہیں لیکن وہ ٹیکس افسران کے رویے سے ڈرتے ہوئے ٹیکس چوری کے بہانے تلاش کرلیتے ہیں۔ اگر ایک مرتبہ ٹیکس دہندگان کا اعتماد حاصل ہوجائے تو ہماری ریاست کی حالت میں بھی تبدیلی آسکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس افسران ایمانداری اور قواعد وضوابط سے غیر متزلزل وابستگی کا ثبوت دیں۔ وہ مختلف بہانوں سے عوام اور عوامی نمائندوںکی آنکھوں میں دھول جھونکتے دکھائی نہ دیں۔ 
پسِ تحریر: پشاور میں قیامت گزرگئی۔ وطن کے نونہالوں کو گولیاںسے چھلنی کردیا گیا۔ دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ خدا سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہمیں ان دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی توفیق دے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں