اصلاحات کی مبادیات

گزشتہ ہفتے کے کالم میںہمہ جہتی اصلاحات، جن کے بغیر پاکستان کو ایک فلاحی ریاست نہیں بنایا جاسکتا، کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس کالم میں اصلاحات کی مبادیات کا ذکر ہے تاکہ ایک قابل ِعمل خاکہ سامنے آسکے اور لوگ سیاسی اشرافیہ کو مجبور کرسکیں کہ اگر اُنہیں ووٹ درکار ہیںتو ان اصلاحات کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ 
پاکستان میں عوام کی سماجی، معاشی اور سیاسی زبوں حالی کی وجہ نااہل اور بدعنوان ادارے ہیں جنہیں عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں۔ یکے بعد دیگر ے بہت سی حکومتوںکی فقط اپنی دولت اور اختیار بڑھانے کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان دائمی کشمکش کا شکار ہو چکا ہے۔ ہمیں فوری طور پراس رجحان کا تدارک کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان کی جغرافیائی طور پر اسٹریٹیجک اہمیت ، جس پر ہم بہت ناز کرتے ہیں، کم ہو جائے گی۔ہم اصلاحات کے مربوط نظام کے ذریعے تمام ریاستی اداروں میں تبدیلی لاتے اور ان کی فعالیت میں اضافہ کرتے ہوئے اس کشمکش کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ اگر ہم ایک کامیاب ریاست بننا چاہتے ہیں تو مندرجہ ذیل اقدامات ناگزیر ہیں۔ 
سب سے پہلے ہمیں جمہوری اداروں کی اصلاح درکار ہے تاکہ ایسے ادارے وجود میں آسکیں جو جمہوریت کے نام پر شخصی حکومت اور مطلق العنانی کی بجائے عوام کو جوابدہ حکومت تشکیل دے سکیں۔ حالیہ دنوں سینیٹ انتخابات کے موقع پر پیدا ہونے والے بحران نے سوچ سمجھ رکھنے والے طبقے کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ سینیٹ کے انتخابات بھی براہ ِ راست ہونے چاہییں ۔سینیٹ کے پاس مالیاتی بل کے لیے رائے شماری کرنے کا اختیارہو۔جمہوریت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تمام سطحوں پر حکومت کے معاملات شفاف ہوں اور ان کا احتساب کیا جاسکے تاکہ شہری قومی فعالیت کا حصہ بنتے ہوئے اپنا کردار ادا کر سکیں۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی کارکردگی سے عوام کو باخبر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی کارروائی براہ ِ راست نشر ہو تاکہ عوام دیکھیں سکیں کہ ان کے نمائندے ایوانوں میں کیا کررہے ہیں۔ 
اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو تفویض کیے جانے والے حقوق کو یقینی بناتے ہوئے عوام کو مالی خودمختاری اور سماجی اور معاشی انصاف تک رسائی دی جائے۔ آئین کے آرٹیکل 140A پر عمل درآمد کرتے ہوئے مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ نظام ِ انصاف میں بھی بہت سی اصلاحات کی گنجائش موجود ہے۔ عوام کو فوری انصاف مہیا کیا جائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ معمولی معاملات کو مقامی سطح پر نمٹاتے ہوئے بات بات پر مقدمات کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ پاکستان کی سول سروس پر الزام رہا ہے کہ یہ بہت سی خرابیوں کی وجہ ہے ۔ نیز یہ عوام کی فلاح سے مجموعی طور پر بے نیاز رہتی ہے۔ چنانچہ عوام کی حالت سدھارنے کے عمل میں سول سروس کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کو درپیش مسائل، جیسا کہ دہشت گردی، انتہا پسندی ، تنگ نظری، جرائم وغیرہ، کو دیکھتے ہوئے جس معاملے کوسب سے زیادہ توجہ درکار ہے ، وہ تعلیم کا شعبہ ہے۔ اس پر توجہ دینے کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ آج ہمارا مسئلہ صرف شرح ِ خواندگی میں رسمی اضافہ ہی نہیں بلکہ سوچ سمجھ رکھنے والی نسل کو وقت کے چیلنجوںسے عہدہ برآء ہونے کے لیے تیار کرنا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ نام نہاد تعلیم یافتہ افراد بھی تنگ نظر اور شہری فرائض سے لاپروا ، بلکہ لاعلم ہیں۔ ہمیں اپنے تعلیمی مقاصد کا تعین کرنا ہوگا۔ تعلیم کا مقصد ایک منظم، شائستہ، مہذب ، باخبر اور متوازن معاشرے کاقیام ہوتا ہے۔ تعلیم معاشرے کوجدید سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے قابل بناتی ہے۔ اگر ہم معاشرے میں تعلیم اور معاشی انصا ف کے ذریعے اعلیٰ سماجی اقدار پیدا کریں تو ہی ہم دہشت گردی، فرقہ واریت، تنگ نظری، عدم برداشت اور تشدد جیسے مسائل پر قابوپاسکتے ہیں۔ 
سخت قوانین اور ان کا موثر نفاذ جرائم اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔ ہمارے ہاںمنی لانڈرنگ، قومی دولت کو لوٹنے، قرضے معاف کرانے، ٹیکس چوری کرنے اور اپنے فرائض سرانجام دینے کو جرائم نہیں سمجھا جاتا۔ ان پر کسی کو بمشکل ہی سزا ملتی ہے۔ 
یہ تمام مسائل اور ان کا حل ایک طرف، یہ حوصلہ شکن حقیقت ہے کہ پاکستان بھاری قرضوں تلے دبا ہوا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ مزید قرضہ جات لیے بغیر اس کی معیشت کو چلانا ممکن نہیں۔ اگر ہم ایک باوقار ریاست کے طور پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں قرضوں کے چنگل سے نکلنے کے لیے مختصر اور طویل مدتی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ صرف اسی طرح ہی ہم ایک خودمختار اور باوقار قوم کے طور پر اپنے وجود کو منوا سکیں گے۔قرضہ جات سے چھٹکارا پانے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس کے نظام کو موثر بنایا جائے۔ اس کے لیے متعدد کالموں میں ذکر کرچکا ہوں کہ ایف بی آر توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہوچکا ہے، چنانچہ اس کو تحلیل کرکے نیشنل ٹیکس ایجنسی قائم کی جائے۔ ہمارے ہاں وفاقی اور صوبائی سطحوں پر 13 ٹریلین روپے محصولات اکٹھا کرنے کا پوٹیشنل موجود ہے۔اگر ہم اتنا ٹیکس حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے نہ صرف عوامی فلاح کے منصوبوں کو پایہ ٔ تکمیل 
تک پہنچانا ممکن ہوگا بلکہ ہم کشکول بھی توڑنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔۔۔ سیاست دان صرف کشکول توڑنے کے نعرے لگاتے ہیں، لیکن ان کے پاس ٹیکسز اکٹھاکرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔ شاید نیت بھی نہیں ہوتی۔ ضروری ہے کہ ٹیکس کے قوانین کو بے لچک لیکن آسان بنایا جائے۔ انکم ٹیکس کو زکوٰۃ کا نام دے کر فرض کردیا جائے۔ کارپوریٹ انکم ٹیکس صرف کمپنیوں سے وصول کیا جائے۔ سیلز ٹیکس کی جگہ مربوط Consumption and service tax عائد کیا جائے۔ 
معاشی پالیسی سازی اور سیاسی نظام میں اصلاح لازم وملزوم ہے۔ اصلاحات کا ایجنڈا ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہو۔ ایسا نہیں کہ کچھ چیزوں کو بہت اہمیت دے کر کچھ اور چیزوں کو نظر انداز کردیا جائے۔ اگر یہ ایجنڈا ہمہ گیر نہیں ہوگا تو مطلوبہ نتائج فراہم کرنے میں ناکام ہوجائے گا۔ اس کی ایک مثال موجودہ حکومت کی طرف سے سڑکیں اور موٹر ویز بنانے کا جنون ہے۔ دوسری طرف طبی سہولیات اور تعلیم کے شعبہ جات بری طرح نظر انداز کیے جارہے ہیں۔ ٹیکس وصول کرنے سے مطلق دلچسپی نہیں، بلکہ دولت مندتاجروں کو سہولیات اور ٹیکس کی چھوٹ دینا اس حکومت کی پالیسی ہے۔ اس وقت ہمارہ معاشرہ دولت کی دوڑ میں مصروف ہوکر بامقصد زندگی سے تہی دامن ہے۔ اس کی وجہ سے مایوسی اور لالچ کا عنصر غالب آتا جارہا ہے۔ جبکہ ریاست کے قیام کا مقصد شہریوں کوان برائیوںسے نکال کر صاف ستھری زندگی گزارنے کے قابل بنانا ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں