بجٹ اور لفاظی

موجودہ حکومت منتخب شدہ وزیر ِ اعظم، محمد نواز شریف کی قیادت میں پانچ جون کو2015-16 ء کے مالی سال کے لیے اپنا تیسرا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے عوام کو دل خوش کن نوید سنائی جارہی ہے ، گویا ان کی کایا پلٹنے والی ہے۔ فنانس منسٹر ، محترم اسحاق ڈار کے مطابق اس سے ایک دن پہلے، یعنی چار جون کو حسبِ روایت ''اکنامک سروے آف پاکستان‘‘ جاری کیا جائے گا۔ تاثر ہے کہ بجٹ اور یہ ڈاکومنٹ محض رسمی کارروائی کے سوا کچھ نہیں ہوگی کیونکہ اس سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔وہ بدستور مالی مسائل اور زندگی کی پریشانیوں میں الجھا رہے گا۔ حسب ِ دستور اُس سے جبری طور پر بھاری بھرکم ٹیکس وصول کرکے دولت مند افراد کو عیش وعشرت کی زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ جب ٹیکس ڈائریکٹری 2014ء، جسے ایف بی آر کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے، کے مطابق صرف چند ہزار افراد نے انکم ٹیکس فائل جمع کرائی ہوں اور ان سے حاصل ہونے والے ٹیکس کا حجم اصل پوٹینشیل کے مقابلے میں برائے نام ہو تو یہ تمام سرگرمی کار ِ لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔ کیا ہم توقع کرسکتے ہیں کہ حکومت سب پر بلاتخصیص پروگریسو انکم ٹیکس لاگو کردے یا طاقتور وڈیروں کو زرعی ٹیکس کے نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات کرے؟
16 مئی2015ء کو اسلام آبادمیں فنانس ڈویژن کے اعلیٰ افسران کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر خزانہ مسٹر ڈار نے یقین دلایا کہ ''ٹیکس ریفارم کمیشن کی سفارشات بجٹ میں شامل کی جائیں گی۔‘‘ اُنھوں نے مزید کہا، ''بجٹ کی تیاری میں عوام کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔‘‘ ہم سب اس لفاظی کو اچھی طرح جانتے ہیں، بلکہ ان میٹھے الفاظ کو سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں۔ کیاکسی ملک کے فنانس منسٹر کو یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ وہ عوامی مفاد کا خیال رکھے گا؟ عوام کے سوااُس نے اور کس کے مفاد کا خیال رکھنا ہوتا ہے؟ تو پھر وزیر خزانہ کو ہمیں یہ بات یاد دلانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔ اس کا سادہ ساجواب ایک عام فہم محاورے کے مطابق ''چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے پیش ِ نظر کن حلقوں کا مفاد ہے۔
فنانس منسٹر نے تاحال پاکستان کو مالی طور پر ایک خودمختار اور قرضوں کے جال سے آزاد ملک بنانے کے کسی منصوبے پر روشنی نہیں ڈالی۔ وہ ہمیں الفاظ سے ہی خوش رکھنا کافی سمجھتے ہیںکہ ''غیر ملکی قرضہ فراہم کرنے والے ڈونرز پاکستان کو مزید قرضہ فراہم کرنے پر راضی ہو گئے ہیں‘‘۔ سبحان اﷲ! یہ ہے ایک فنانس منسٹر کی مالیاتی کامیابی کا پیمانہ؟ اٹھارہ مئی کو کابینہ کی اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی(ای سی سی)کا اجلا س ایک اور رسمی کارروائی ثابت ہوا۔ اسی طرح ماہرین، پیشہ ور افراد، کامرس انڈسٹر ی سے تعلق رکھنے والے اور سابق حکومت کے افسران کی طرف سے قومی بجٹ کے لیے دی گئی تجاویز کا فنانس منسٹر کی طرف سے خیر مقدم بھی محض دکھاوے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اگرچہ اب بجٹ پیش کیے جانے میں چند دن رہ گئے ہیں، لیکن فنانس منسٹر کی طرف سے عوامی سطح پر کسی اہم پالیسی کا اعلان نہیںکیا گیاکہ اہم مالی امور، جیسا کہ بڑھتے ہوئے قرضہ جات، پھیلتے ہوئے تجارتی خسارے، توانائی کے بحران ، بے روزگاری اور سستی کی طرف مائل معاشی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کیا کرنے جارہی ہے۔ ان کالموں کے ذریعے وفاقی اور صوبائی محصولات کو بارہ ٹریلین تک لے جانے کے لیے بہت سے ٹھوس اور قابل ِعمل تجاویز سامنے لائی گئیںلیکن ارباب ِ اختیار کی طر ف سے بجٹ کی تیاری میں ان تجاویز کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ یہ رویہ ان نام نہاد معاشی ماہرین ، جنھوں نے پاکستان کو درپیش مالیاتی چیلنجز سے نمٹنے اور قلیل مدتی اور طویل مدتی منصوبے بنانے سے متعلق ایک بھی ورکنگ پیپر نہیں لکھا، کی بے حسی پر دلالت کرتا ہے۔
ٹیکس قوانین کو طاقتور دھڑوںسے خائف ہوئے بغیر نافذکرنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ ملک کو موجودہ معاشی دلدل سے نکال کرعوام کی فلاح کی طرف قدم بڑھانے کی طرف یہی ایک راستہ ہے۔۔۔۔ باقی سب لفاظی ہے۔ اگریہ طاقتور افراد، اور ان کی تعداد کم نہیں، ٹیکس نیٹ میں آگئے اور ان سے حاصل کردہ محصولات سے عوام کی زندگی میں بہتری آنا شروع ہو گئی تو عام شہری کا ٹیکس کے نظام پر اعتماد بحال ہوگا اور وہ بھی ٹیکس دینے کی طرف مائل ہوگا۔ اس وقت جبکہ ملک میں سرمایہ کاری کی فضا بنتی دکھائی دیتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پوٹینشیل کے مطابق ٹیکس وصول کریں۔ یہ بات بارہا کہی گئی ہے کہ ایف بی آر کا بوسیدہ نظام قومی تقاضے پورے کرنے کے قابل نہیں، چنانچہ این ٹی اے (نیشنل ٹیکس اتھارٹی) کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جمہوری اتفاق ِ رائے سے خود مختار اوربااختیار این ٹی اے کے قیام کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔ اس ادارے کے قیام کے بعد عوام کو مختلف ٹیکس ایجنسیوں کی بجائے ایک واحد ادارے سے عہدہ برا ہونا ہوگا۔ کونسل برائے مفاد ِعامہ(آئین کا آرٹیکل 153) کے تحت اس ادارے کا کردار زیر ِ بحث لایا جاسکتا ہے جبکہ اس کا کنٹرول نیشنل اکنامک کونسل (آئین کا آرٹیکل 156)کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں لوگ ٹیکس فائل جمع کرانے میں تامل سے کام لیتے ہیں کیونکہ وہ ٹیکس حکام سے خائف رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ٹیکس جمع کرانا چاہتے ہیں لیکن وہ ٹیکس افسران کے رویے سے ڈرتے ہوئے ٹیکس چوری کے بہانے تلاش کرلیتے ہیں۔ اگر ایک مرتبہ ٹیکس دہندگان کا اعتماد حاصل ہوجائے تو ہماری ریاست کی حالت میں تبدیلی آسکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس افسران اپنی ایمانداری اور قواعد وضوابط سے غیر متزلزل وابستگی کا ثبوت دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں