حکومت کے شاہانہ اخراجات

سات جون 2013ء کو اپنا منصب سنبھالتے ہوئے فنانس منسٹر اسحاق ڈار نے بہت تفصیل سے بیان کیا تھا کہ پی ایم ایل (ن) کی حکومت منی بجٹ لانے کی روایت کا اعادہ نہیں کرے گی۔ اُس وقت سے لے کر اب تک اُنھوں نے بیس سے زائدمنی بجٹ لاکر اُس وعدے کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔ اس مرتبہ تو حد کرتے ہوئے 2015-16ء کے سالانہ بجٹ سے چند دن پہلے اُنھوں نے عوام پر پٹرول بم گرادیا۔ 2013ء کی بجٹ تقریر میں اُنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیر ِ اعظم ہائوس کے اخراجات کو 45 فیصد اور وزرا کے اخراجات کو30 فیصد تک کم کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران وزیر ِ اعظم ہائو س کے اخراجات میں سو فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ وزرا نے بھی فنانس منسٹر ی کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اربوں روپے کے فنڈز ضائع کردیے۔ اسحاق ڈار نے حسب معمول اُن اقدامات کا ذکر کیا جن کی بدولت عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں آئی ہیں۔ یہ بھی محض لفاظی ہی تھی کیونکہ اس ملک میں بھوک، صاف پانی کی کمی اور بیماریوں سے لڑتے ہوئے عام آدمی کا عملی طور پرکوئی پرسان ِحال نہیں۔ اب جبکہ وہ تیسرا بجٹ پیش کرنے جارہے ہیں، حسب ِ معمول انہی وعدوں کا اعادہ سنائی دے گا ۔
ہمارے حکمران بچت کرنے اور پیسوں کو اچھے مقاصد پر خرچ کرنے کی بہت دلکش باتیں کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ عوام کے فنڈز کو بے رحمی سے خود پر خرچ کرتے ہیں۔ اُنہیں شاید احساس نہیں ہے کہ پاکستان اس طرح کے اسراف کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ درحقیقت ہمیں اپنی عقربی سرکاری مشینری اور وی آئی پیز کو سہولیات فراہم کرنے میں کمی کرنے کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اہم افراد کی طرف سے اندھا دھندغیرملکی دوروں اور پرتعیش ضیافتوں پربھاری رقوم خرچ کی جاتی ہیں۔ اگلے دن آئی ایم ایف کے مشرق ِ و سطیٰ اور وسطی ایشیا کے ڈائریکٹر، مسعود خان نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے لیے ''ہدایات ‘‘ جاری کیں کہ وہ اپنے اخراجات کم کرکے آنے والے بجٹ میں تعلیم اور صحت پر زیادہ رقم خرچ کرے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ''آئی ایم ایف نے پاکستان کو اپنے محصولات میں اضافہ کرنے کی ہدایت کی ہے‘‘۔
ریکارڈ کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران وزیر ِ اعظم ہائوس کے اخراجات میں500 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے اخراجات 1999ء سے پہلے75 سے 80 ملین روپے کے لگ بھگ تھے، لیکن پھر 1999ء کے بعد 690 ملین سے لے کر 2014ء تک 1400 ملین روپے تک پہنچ گئے۔ دس سال پہلے وزرا اور مشیر حضرات پر صرف 24 ملین روپے خرچ ہوتے تھے لیکن یہ اعدادوشمار 20 بلین روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔ عوامی نمائندوں کا کہنا ہے کہ ان کے اخراجات میں کمی کرنے سے ملکی معیشت میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ ممکن ہے کہ ان کی یہ بات درست ہو لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اخراجات عوام کے لیے ایک مثال قائم کرتے ہیں اور وہ بھی ایسی ہی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں جو ان کے نمائندے کرتے ہیں۔ پھر سرکاری افسران بھی تنخواہوں اور دیگر سہولیات میں اضافے کا تقاضا کرتے ہیں۔ سرمایہ داروں اور وڈیروں کو بھی شاہانہ زندگی گزارنے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ اُنھوں نے کون سا کوئی ٹیکس دیناہوتا ہے۔ جہاں تک ایف بی آر کے افسران کا تعلق ہے تو وہ ان طبقات کی عیش و عشرت کے لیے غریب عوام کی جیبوںسے رقم نکلوانے کا ہنر جانتے ہیں۔ وزیر ِخزانہ مالی استحکام کے لیے طویل المدت اصلاحات، مستقل گروتھ، تیز رفتار صنعتی اور سماجی ترقی کی بات کرتے ہیں لیکن انہیں نافذ کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ درحقیقت ہمارے سیاست دانوں کو اپنی فلاح ہی درکارہے، لیکن وہ پاکستان کے غریب عوام کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں۔
پاکستان کا بیرونی قرضہ جات پر انحصار بہت حد تک بڑھ چکا ۔ آنے والے برسوں میں ملک پر بیرونی قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ دیکھنے میں آئے گا کیونکہ ماضی میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینے پڑیں گے۔ اس کے ساتھ اندرونی قرضے بھی بڑھیں گے کیونکہ حکومت ٹیکس کے دائرے کو بڑھانے اور اخراجات میں کمی لانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ غلط اعدادوشمار سے مزین خوشنما کہانیاں سنا کر عوام کو بہلایا جائے گا۔ 2013-14ء میںحکومت نے قرضوں کی مد میں1.325 روپے ادا کیے جبکہ آئی ایم ایف کی طرف سے طے شدہ رقم 1.352 ٹریلین روپے تھی۔ اشیا پر دی گئی امدادی قیمت کے سرکاری اعدادوشمار 203بلین روپے تھے جبکہ آئی ایم ایف کے مطابق یہ رقم 229 بلین روپے تھی۔ 2013-14ء کے مالی سال میں امدادی قیمت پرخرچ کی جانے والی رقم بجٹ میں طے شدہ رقم سے83 بلین روپے زیادہ تھی۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ دفاعی بجٹ پر خرچ کی گئی رقم سالانہ بجٹ میں اس مقصد کے لیے مختص کی گئی رقم سے سات بلین روپے زیادہ تھی۔ اسی طرح آئی ایم ایف نے دعویٰ کیا کہ گرانٹس پر 442 بلین روپے خرچ کیے گئے۔ ان میں سے زیادہ ترگرانٹس دفاعی اداروں کو دی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنے وہ اخراجات پورا کرسکیں جن کا دفاعی بجٹ میں ذکر نہیں کیا جاتا۔
گزشتہ چند ایک برسوں کے دوران بجٹ کے متوقع خسارے سے بھی زیادہ خسارے کا سامنا کرنے اور اندرونی ذرائع سے رقوم حاصل کرنے میں ناکامی اور اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ملکی معیشت شدید دبائو کا شکار ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو سترہ وزارتیں منتقل کرنے کے باوجود وفاقی سطح پر ہونے والے اخراجات میں کوئی کمی واقع نہیںہوئی کیونکہ زیادہ تر افسران نے صوبوں میںخدمات سرانجام دینے کی بجائے وفاق میںہی رہنا پسند کیا۔وفاق کی سطح پر اخراجات میں اضافے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ کچھ نئی وزارتوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور کچھ ڈویژنز کو اپ گریڈ کیاگیا۔ یہ اخراجات بھی بچائے جاسکتے تھے اگر سرکاری مشینری اور سرکاری افسران کو حاصل مراعات میںکم از کم ایک تہائی کمی لائی جاتی۔
لگاتا ر کئی حکومتوں ، چاہے وہ سول ہوں یا فوجی، نے بھاری بھرکم سرکاری مشینری میںکمی لانے کی زحمت نہیں کی۔ اعلیٰ افسران پر ہونے والے اخراجات میں کمی سے اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن عام کلرک اور پولیس کانسٹیبل کی سہولیات میں کمی سے ان کی زندگی پہلے سے زیادہ دشوار ہوجائے گی۔ ان تمام معاملات سے بیگانہ حکومت مزید قرضے لے کر اپنا کام چلانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ان قرضوں سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئے گی لیکن اشرافیہ کے مزے ہوجائیں گے۔ ستم یہ ہے کہ یہ قرضے عوام نے واپس کرنے ہوتے ہیں۔ حکومت اخراجات اور محصولات کی وصولی میں حائل فرق کو کم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ہم اُس وقت تک اس خسارے پر قابونہیں پاسکتے جب تک بے کار اخراجات میں کمی کا فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ تمام تر سختی اور غیر منصفانہ ودہولڈنگ ٹیکسز کے باوجود ایف بی آرٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ پاکستان کا اصل مسئلہ اس کی طاقتور افسرشاہی ہے جو نہ صرف نااہل بلکہ غیر موثر بھی ہے۔ اس کا طریق ِ کار گھسا پٹا اور متروک ہے۔ یہ زمانے کے ساتھ چلنے سے قاصر ہے۔ دنیا کے کسی ملک کا دفتری نظام ہمارے جیسا نہیں۔ ستم یہ ہے کہ ان افسران کی سفارشات پر عوامی نمائندے بل پیش کرتے ہیں۔ یہ بل عام طو رپر انہی دونوں طبقوں کی مراعات اور منافع کے لیے ہوتے ہیں ۔اس دوران عوام حیرت سے اس جمہوری نظام کو دیکھتے ہوئے سوچتے ہیں کہ ''یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں