منشیات کے تباہ کن اثرات

چھبیس جون منشیات کے استعمال اور اس کی غیر قانونی تجارت سے آگاہی کے دن کے طور پرمنایا جاتا ہے۔ منشیات کے مضر اثرات سے عوام کو باخبر رکھنے کے لیے یواین کی جنرل اسمبلی نے 1987ء میں اس دن کو منانے کا فیصلہ کیا تھا۔
منشیات کے استعمال پرنارکوٹکس کنٹرول ڈویژن، پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس اور یونائیٹڈ نیشن آفس کے تعاون سے کیے جانے والے ملک گیرسروے کے مطابق پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 7.6 ملین ہے جن میں 78 فیصد مرد اور22 فیصد خواتین ہیں۔ سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی نشہ آور چیز چرس ہے ، جس کے عادی افراد کی تعداد چارملین کے قریب ہے۔ ہیروئن اور افیون استعمال کرنے والوں کی تعداد منشیات کے عادی افراد کی تعداد کا ایک فیصد ہے۔ملک میں ہیروئین کے عادی افراد کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ ہے۔
منشیات کے عادی افراد میں سے دوملین افراد ایسے ہیں جنہیں باقاعدہ علاج کی شدید ضرورت ہے، لیکن ایسے افراد کا علاج کرنے والا طبی ڈھانچہ ایک سال میں تیس ہزار سے بھی کم افراد کی نگہداشت اور بحالی کا کام سرانجام دے سکتا ہے۔ اس سروے سے سامنے آنے والی سب سے پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ ہیروئین کے نشے میں مبتلا ہونے والوں میں اکثریت کی اوسط عمر چوبیس سال سے کم ہے اور یہ کہ نوجوان افراد میں اس قبیح عادت میں مبتلا ہونے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔ لاہور کے دس کالجوں اور دو یونیورسٹیوں کا حال ہی میں لیا گیا جائزہ کچھ خوفناک حقائق سامنے لاتا ہے۔۔۔ اوریہ بات والدین کی رات کی نیندیں حرام کرنے کے لیے کافی ہے۔ جن طلبہ کا معائنہ کیا گیا، اُن میں ستاون فیصدکسی نہ کسی قسم کی منشیات استعمال کرتے تھے۔ اسی طرح کے کیے گئے اور بھی بہت سے سروے اس تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیںکہ ملک میں نوجوان طلبہ، جنہیں قوم کا مستقبل تصور کیا جاتا ہے، میں منشیات کا استعمال خوفناک حد تک بڑھ رہا ہے۔
خوش قسمتی سے پچاسی سے نوے فیصد منشیات استعمال کرنے والے ایسے افراد ہیں جنہیں اس کی پختہ عادت نہیں ہوئی ہے اور اگر اُنہیں اس کے نتائج و عواقب سے آگاہ کیاجائے اور ان کی باقاعدہ نگہداشت کی جائے تو وہ اُس گڑھے میں گرنے سے بچ سکتے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے۔ یہ افراد وہ ہوتے ہیں جو کسی قسم کا پیغام نہیں سمجھ سکتے کیونکہ منشیات کا استعمال اُن کے ذہن کو مائوف کردیتا ہے، لیکن جو افراد ابھی اس خرابی تک نہیں پہنچے ہوتے تو اُنہیں بچانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اسے بھی خوش قسمتی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں منشیات کے لاعلاج عادی افراد کی تعداد دس سے پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ منشیات کے خلاف جنگ میں مصروف کوئی ایجنسی بھی عوام کو منشیات کے تباہ کن اثرات سے باخبر رکھنے کی زحمت نہیں کرتی۔ اس کے نتیجے میں مختلف ادویات، جن میں نشہ آور اجزا پائے جاتے ہیں، کا بلاروک ٹوک غلط استعمال ہوتا ہے اور اس سے بہت سی ہلاکتیں بھی ہوجاتی ہیں لیکن کوئی ادارہ اس کو چیک نہیں کرتا۔ ہمارے ملک میں نہ صرف ممنوعہ ادویات بلکہ منظور شدہ ادویات کابھی غلط استعمال عام ہے۔ اس مقصد کے لیے بہت سی سکون آور ادویات کو نشے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ منفی استعمال سے ایک قانونی طور پر درست دوا بھی ''غیر قانونی‘‘ بن جاتی ہے،تاہم اس میں ادویات ساز اداروں کا قصور نہیں ہوتا ، لیکن کسی نہ کسی طریقے سے ان کا منفی استعمال روکا جانا چاہیے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر اُن ادویات کی ڈوز پر کیے جانے والے مطالعے ان ادویات کا جائزہ نہیں لے سکتے جو میڈیکل سٹور وں کی بجائے گلیوں میں سرعام فروخت ہوتی ہیں۔ منشیات کے عادی افراد استعمال کی جانے والی اشیا کے کیمیائی مرکبات سے ناواقف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ چرس ، جو پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہے، کو ''بے ضرر‘‘ سمجھتے ہیں۔ امریکہ کے ''نیشنل انسٹی ٹیوٹ ان ڈرگ ابیوز‘‘ کی برس ہابرس کی جانے والی تحقیق ان کی ‘‘تسلی‘‘ کی تردید کرتی ہے۔ پتہ چلا ہے کہ چرس کے عام طور پر دو منفی اثرات ہوتے ہیں۔ ایک تو نیم مدہوشی کی کیفیت جو عام طور پر نئے استعمال کرنے والوں پر طاری ہوتی ہے اور کئی گھنٹوں تک طویل ہوسکتی ہے۔ دوسرا منفی اثر شدید ذہنی تنائو اور بے چینی کی کیفیت ہے جو چرس کی بھاری مقدار استعمال کرنے سے ہوسکتی ہے۔ مسکن آور ادویات کے منفی استعمال سے بے خوابی، بے چینی، طبیعت کے متلانے کے علاوہ بعض اوقات مرگی کے دورے بھی پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر اس پر قابونہ پایا جائے تو اس سے جان بھی جاسکتی ہے۔ یہ ادویات پہلے تو جسم کے اعصابی نظام کو مفلوج کرتی ہیں اور پھر جسم کے اندورنی اعضا کو متاثر کرنا شروع کردیتی ہیں۔ جب عادی شخص اس کی خوراک بڑھاتا جاتا ہے تو اس کا نظام ِ تنفس متاثر ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ اُس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں تحریک دینے والی ادویات (Stimulants) کو بھی نشے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں کوکین اور Amphetamines شامل ہیں۔ اس کا باقاعدہ یا ضرورت سے زیادہ استعمال فشار ِخون اور دل کی دھڑکن کو بڑھادیتا ہے۔ایسی ادویات کا عادی مریض متشدد اور غصیلا ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کی انتڑیوں میں زخم ہوجاتے ہیں اور خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں۔ افیون بھی مسکن آور اجزا رکھتی ہے اوراس کے استعمال سے ایک مخصوص نشہ ہوجاتا ہے۔ اسے استعمال کرنے والا شخص خود کو گہرے سکون میں ڈوبتا محسوس کرتا ہے۔ چونکہ جسم بہت جلد افیون کا عادی ہوجاتا ہے اور پھر استعمال کرنے والے شخص کو اس کا لطف نہیں آتا، اس لیے اُسے اس کی خوراک بڑھانا پڑتی ہے۔ اس سے بھی سانس رک جاتا ہے کہ موت واقع ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں ہیروئین کو بھی سموک کیا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال بھی افیون کی طرح تیزی سے بڑھانا پڑتا ہے، اس لیے یہ انتہائی خطرناک ہے۔ موت سے پہلے بھی اس کا مریض شدید قبض، بھوک غائب ہونا اورجسمانی کمزور ی کاشکار رہتا ہے۔ آخری خوراک لینے کے چند گھنٹے بعد اس کی شدید علامات ظاہر ہوتی ہیں، چنانچہ اُسے پھر ایک اور خوراک لینا پڑتی ہے۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ سکولوں میں منشیات کے مضر اثرات پر مضامین پڑھائے جائیں۔ الیکٹرانک میڈیا ، جس کا اثر آج کل بہت گہرا ہے، کے ذریعے عوام کو اس کے بارے میں ایجوکیٹ کیا جائے۔ نوجوان طلبہ کو بتایاجائے کہ ڈرگ مافیا اُنہیں کس طرح اپنے جال میں پھنسا سکتا ہے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ خاندان میں تنائو اور انسیت کی کمی بھی بہت سے بچوں کو منشیات کی تاریک دنیا میں دھکیل سکتی ہے۔ اس وقت تعلیمی اداروں کے سربراہان کے لیے میرے نزدیک سب سے ضروری بات یہی ہے کہ وہ طلبہ کو منشیات سے بچائیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ہی اپنے منصب کے ساتھ انصاف کرتے دکھائی دیں گے۔ والدین اور معاشرے کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ نوجوان بہت جذباتی ہوتے ہیں اور وہ دبائو اور گھٹن زدہ ماحول برداشت نہیں کرتے ۔ وہ اس سے فرار چاہتے ہیں۔ ان کو معاشرے میں مثبت سرگرمیوں میں مشغول رہنے کاموقع ملنا چاہیے ورنہ وہ منفی سرگرمیاں اپنا لیںگے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں