ایف بی آر، بیکار باش

چوبیس جولائی 2015ء کو چیف کمشنرز کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میںفنانس منسٹرنے اگرچہ محصولات جمع کرنے میں ایف بی آر کی کاوشوں کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سراہا لیکن اُنھوں نے ایک خاص پیرائے میں بات کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ ناقص کارکردگی دکھانے والوں کو گھر بھیجنے کی ضرورت ہے۔ 360 بلین روپے کے اضافی ٹیکس نافذ کرنے کے باوجود ایف بی آر نہ صرف ٹیکس دہندگان کے 220 بلین روپے کے ریفنڈمبینہ طور پر روک رہا ہے بلکہ اربوں روپے بطور ایڈوانس بھی حاصل کررہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایف بی آر تیسری مرتبہ ٹیکس ترمیمی ہدف 2014-15ء حاصل کرنے میں ناکام ہورہا ہے ۔ اصل ہدف2810 بلین روپے تھا جس میں پہلی مرتبہ تخفیف کرکے 2691 بلین روپے کردیا گیا۔ اس کے بعد جب اس تخفیف شدہ ہدف کا حصول بھی مشکل دکھائی دیا تو اسے 2605 بلین روپے قراردے دیا گیا۔ 
ایف بی آر کے مطابق اس وقت تک 2588 بلین روپے حاصل کیے جاچکے لیکن آزاد ذرائع کہتے ہیں کہ سٹیٹ بینک نے صرف 2581 بلین روپے کی تصدیق کی ۔ ایف بی آر کے سینئر افسر کے مطابق نوبلین روپے کا فرق ''بک ایڈجسٹمنٹ‘‘ کی وجہ سے تھا جسے سٹیٹ بینک نے شامل نہیں کیا۔ اگر ایف بی آر کے دعوے کو سچ مان لیں تو بھی حاصل کردہ رقم اصل ہدف 2810 بلین روپے سے 222 بلین روپے کم ہے۔ اس کی وجہ سے مالیاتی خسارے کی شرح جی ڈی پی کے4.9 فیصد سے تجاوز کرجائے گی۔ یہ خسارہ آئی ایم ایف سے طے کی گئی خسارہ کی حد کی خلاف ورزی تصور ہوگا؛ تاہم ، جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ، اسے نظر انداز کرکے قرضے کی اگلی قسط حاصل کرنے کی کوشش شروع ہوجائے گی۔ 
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوگا کہ حکومت آئی ایم ایف اور عوام کو چکما دینے کی کوشش کرے گی۔ ایف بی آر حاصل کردہ اصل محصولات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی طویل تاریخ رکھتا ہے اور تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ اس کام کا ماہر ہوچکا ہے۔ اس کی طرف سے اختیار کیے گئے حربوں میں ریفنڈ کی واجب الادا رقم کو روکنا اور ایڈوانس رقم حاصل کرنا شامل ہے۔ 1999ء میں ٹیکس افسران نے آئی ایم ایف کے سامنے 1989-90ء کے مالی سال کی غلط رپورٹ رکھتے ہوئے ملک کی سبکی کرائی تھی۔1994ء سے لے کر 2000ء کے مالی سال تک کا مواد ظاہر کرتا تھا کہ ملک میں حاصل کردہ محصولات کے حجم میں 5.2 بلین روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ٹیکس جمع کرنے والوں (جنہیں اعدادوشمار کا ہیرپھیر کرنے والے کہنا چاہیے) نے مسخ شدہ ا عدادوشمار ظاہرکیے۔ اس دھوکہ دہی کا قوم کو بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا۔ نہ صرف غلط بیانی کا جرمانہ دینا پڑا بلکہ آئندہ کے لیے بھی عالمی برادری کی نگاہوں میں پاکستان کو بدنام کردیا گیا۔ ملک کا یہ تاثر قائم ہوگیا کہ یہاں کوئی چیز بھی شفاف اور قابل ِ اعتماد نہیں۔ 
محصولات کی بابت پیہم غلط بیانی سے کام لینا ایک تشویش ناک فعل ہے۔ آزاد اور عالمی ذرائع نے اس فعل کو بارہا ناپسندیدہ قرار دیا ،لیکن حکومت نے اس کی کبھی انکوائری نہیں کرائی کہ ملک کو بدنام کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، اور نہ ہی ایف بی آرنے کبھی واضح کیا کہ ریفنڈ کی مد میں اس نے کتنی رقم ادا کرنی تھی۔ اصولی طور پر ریفنڈ کی جانے والی رقم کل محصولات کے حجم سے منہا کرنا چاہیے تا کہ اصل اعدادوشمار کا پتہ لگ سکے۔ یہ بات حیرت انگیز دکھائی دیتی ہے کہ اسحاق ڈار ایک فارن کوالی فائیڈ چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں، لیکن وہ اکائونٹنگ کے اس بنیادی اصول کو بوجوہ نظر انداز کررہے ہیں۔ ایف بی آر کی طرف سے دروغ گوئی ، غلط بیانی اور غلط اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے اپنی کارگزاری دکھانے کو مجرمانہ سرگرمی تصور کرنا چاہیے۔ وہ ایسا کرتے ہوئے غیر ملکی قرض فراہم کرنے والے اداروں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں لیکن دراصل وہ ملک کی سبکی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ِ فہم ہے کہ صرف ایف بی آر اپنے طور پر اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا تاوقتیکہ اُسے حکومت کی آشیر باد حاصل نہ ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ معاملہ انتہائی سنگین ہوجاتا ہے کیونکہ اس سے حکومت اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ناکامی آشکار ہوتی ہے۔ 
مختلف شعبہ جات کے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ریفنڈ کو روکناایف بی آر کی ایک معمول کی کارروائی ہے۔ قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے یکے بعد دیگر ے کئی ایک چیئرمین ایف بی آرنے اس بات کا اعتراف کیا، لیکن اس پر کبھی کوئی کارروائی ہوتی دکھائی نہیں دی۔ اس کی بجائے ایف بی آر کے افسران کی اعلیٰ کارکردگی کی داد سنائی دیتی رہی ہے۔ اﷲجانے ان کی کون سی ادا حکمرانوں کو بھاتی ہے جو وہ داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے رہتے ہیں۔ یہ بات بھی انتہائی صدمے والی ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈبنک کی تیزنگاہیں یہ سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ اُن سے کچھ بھی اوجھل نہیں ، لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اُنہیں چکمادینے میں کامیاب جارہے ہیں۔یہ اورا س طرح کی دیگر منفی سرگرمیاں ٹیکس مشینری کے زنگ آلود ہونے کاتاثر گہرا کرتی ہیں۔ اس سے ایف بی آر کی پیش کردہ رپورٹ کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے اور لوگوں کو اس ادارے پر اعتبار نہیں رہتا۔ اب وقت آگیا ہے جب ایف بی آر کوسرکاری افسران کی بجائے آزاداور پیشہ ور افراد کا بورڈ چلائے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ 2014ء میں 195ملین کی آبادی رکھنے والے اس ملک میں سے صرف 3663افراد نے ایسے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے جن میں دس ملین سے زیادہ ٹیکس تھا۔ 
پانچ ملین دولت مند افراد ، جن کی تعداد کل آبادی کا 2.5 فیصد بنتی ہے، سے حاصل ہونے والا ٹیکس تین ٹریلین روپے ہونا چاہیے۔ پوٹینشل کے مطابق محصولات، جو آٹھ ٹریلین سے تجاوز کرسکتے ہیں، جمع کرنے میں ناکامی کی تمام تر ذمہ داری ایف بی آر اور اس کے سیاسی بنیادوں پر تعینات کیے جانے والے سربراہان پر ہوتی ہے۔ سیاسی وابستگیوں کی بدولت اعلیٰ عہدے سنبھالنے والے ایسے افراد نااہل ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے پاس انتظامی خوبیاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایف بی آر جیسے اہم ادارے ناکامی کی کھلی داستان ہیں۔ 
2012ء میں بھارت کی حکومت کوبھی کم وبیش اسی صورت ِحال کا سامنا تھا۔ اس کی سول سروس کا ایک بڑا حصہ ناقص کارکردگی دکھارہا تھا اور اس کی بہتری کا کوئی امکان نہ تھا۔ اس پر بھارتی حکومت نے اس غیر فعال حصے کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ ان کی بہتری پر رقم خرچ کرنا نادانی تھی۔ حکومت کی طرف سے انڈین سول سروس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ یہ صورتِ حال ''پیٹر پرنسپل‘‘ کی متقاضی ہے۔ پیٹر پرنسپل ایسا اصول ہے جس میں یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ یہ شخص اب اس سے بہتر کارکردگی نہیںدکھاسکتا ، چنانچہ اس سے مزید توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ چنانچہ بھارتی حکومت نے ایسے افسران کی نشاندہی کی اور اُنہیں جبری طور پر ریٹائر کردیا۔ اس وقت ہمیں بھی ایف بی آر پر یہی اصول لاگوکرنے کی ضرورت ہے۔ اگر فنانس منسٹر چاہیں تو وہ مجھ سے رہنمائی لے سکتے ہیں یا ویب سائٹ پر دیکھ سکتے کہ بھارت نے صفائی کی یہ مہم کس طرح سرانجام دی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں