منصفانہ نظام ِ محصولات کی تشکیل

اس بات پر کم وبیش قومی اتفاق ِ رائے پایا جاتا ہے کہ ٹیکس کا موجودہ دقیانوسی،استیصالی اور جابرانہ نظام معاشی ترقی کا گلا گھونٹتے ہوئے معاشرے میں امیر اور غریب کے فرق کو بڑھا رہا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کی جگہ منصفانہ، عملی اور سرمایہ کاری کی ترغیب دینے والا نظام وضع کیا جائے جسے کوئی موثر ٹیکس انتظامیہ چلائے۔ ٹیکس کے قوانین کو سادہ ، آسان، عام فہم اور غیر ضروری پیچیدگی سے پاک بنائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا بھرپور نفاذ ممکن ہوسکے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اپنی حتمی رپورٹ میں ٹیکس ریفارمز کمیشن نہ صرف اس کی تجویز بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے قوانین یا ترامیم کے لیے مسودہ بھی پیش کرے گا تاکہ بہت دیر سے التوا کا شکار اس اہم کام کی بجا آوری ممکن ہو سکے۔ 
اس وقت حکومت اتنے محصولات جمع نہیں کرپارہی جس سے یہ اپنے اخراجات پورے کرسکے۔ حالیہ دنوں''ٹیکس کے بحران پر قابو پانے کے اقدامات‘‘ کے موضوع پر ہونے والی ایک بحث میں چیئرمین ایف بی آر نے اعتراف کیا کہ''موجودہ اخراجات پورے کرنے کے لیے ملک کو رقم ادھار لینا پڑے گی‘‘۔ موجودہ مالیاتی خسارہ اور بڑھتا ہوا قرضہ حکمرانوں کی طرف سے رقم کے بے جا سراف اور طاقت ور طبقے کی طرف سے ٹیکس ادا نہ کرنے کا لازمی نتیجہ ہیں۔ بحث کے دوران بتایا گیا کہ پارلیمنٹ کے65 فیصد ارکان اور نصف سے زیادہ وفاقی وزرا نے انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ تاہم چیئرمین ایف بی آر نے بحث کے شرکا کو یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ اُن کے ادارے کی طرف سے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے طاقتور نادہندہ افراد کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی گئی۔
یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ ناروا اور غیر منصفانہ ودہولڈنگ ٹیکس کے باوجود ایف بی آر پوٹینشل کے مطابق محصولات جمع کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ منصفانہ ٹیکس کے نظام کا تقاضا ہے کہ جن افراد کی آمدنی اور دولت زیادہ ہے، اُن سے زیادہ ٹیکس لیا جائے، لیکن پاکستان میںپہلے مارشل لا سے لے کر اب تک، ٹیکس کی بنائی جانے والی تمام پالیسیوں نے دولت مند طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کم کردیا ۔ اس طبقے کو سہولت فراہم کرنے کے لیے پروگریسو ٹیکس، گفٹ ٹیکس، جائیداد ٹیکس، کیپٹل گین ٹیکس، دولت ٹیکس وغیرہ ختم کردیے گئے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ ٹیکس وصول کرنے کا اختیار صوبوں کو تفویض کردیا گیا ، لیکن صوبائی اسمبلیوںپر چھائی ہوئی دولت مند اور طاقت لابیاں ان ٹیکسز کے نفاذ سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ براہ راست ان کی زد میں آجائیں گی۔ 
ہم اُس وقت تک ٹیکس کے ذرائع کو ترقی نہیں دے سکتے جب تک کم نرخ رکھنے والا جامع اور مربوط سیلز ٹیکس، جس کا اطلاق تمام ملک میں یکساںطور پر ہو اورسادہ انکم ٹیکس نظام متعارف نہیں کرائے جاتے۔ اگر ایسا ہوتو لوگ بغیر کسی خوف اور تذبذب کے ٹیکس جمع کرا سکیں گے۔ اس کے عوض اُنہیں صحت، تعلیم ، رہائش، ٹرانسپورٹ ، پینے کا صاف پانی اور دیگر شہری سہولیات فراہم کی جائیں۔ خود کاشت کاری نہ کرنے والے جاگیرداروں اور وڈیروں پر بھاری ٹیکس عائد کیا جائے کیونکہ وہ اپنے مریدوں اور ہاریوں کا استیصال کرکے اُن سے کام لیتے ہیں اور زمین سے بے تحاشہ نفع کماتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ جب ملک سے دہشت گردی اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مثبت اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، ریاست آگے بڑھ کر ٹیکس ادا کیے بغیر جمع کی گئی رقم سے خریدی گئی جائیداد ضبط کرلے اور اسے غریب شہریوں کے مفاد کے لیے استعمال میں لائے۔ 
ہم وفاقی او ر صوبائی سطحوں پر آسانی سے بارہ ٹریلین روپے جمع کرسکتے ہیں۔ اس سے ریاست نہ صرف اپنی موجودہ ضروریات پوری کرسکتی ہے بلکہ اس کے پاس غریب اور ضرورت مند افراد کی معاشی ترقی کے خصوصی پروگرام بنانے کے لیے خاطر خواہ رقم بھی میسر ہوگی۔ دہشت گردی اور جرائم کے خلاف لڑنے والے پاکستان کے لیے اس وقت ضروری ہے کہ یہ اپنی معاشی پیداوار کو بڑھاتے ہوئے معاشی ناہمواری کو کم کرنے والی پالیسیاں بنائے۔ ان پالیسیوں کوبھی اس جنگ کا ایک حصہ سمجھا جانا چاہیے۔ جمہوری ممالک میں کمپنیوں کے لیے ٹیکس کے نرخ کم جبکہ دولت مند افراد کے لیے انکم ٹیکس، کیپٹل ٹرانسفر ، ودلت ٹیکس وغیرہ کے نرخ اُونچے ہوتے ہیں۔ یہ اقدامات معاشرے میں معاشی ہمواری لانے کا باعث بنتے ہیں۔ 
پاکستان کے پالیسی سازوں کو ''ڈیکلریشن آف دی انڈی پنڈنٹ کمیشن فار دی ریفارمز آف انٹرنیشنل کارپوریٹ ٹیکسیشن‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس اعلامیے میں اُن کثیر ملکی کمپنیوں پر تنقید کی گئی ہے جوٹیکس میں ہیراپھیری کرتے ہوئے ٹیکس کا بوجھ دیگر ٹیکس دہندگان پر منتقل کردیتی ہیں،اپنی سماجی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتی ہیں اورترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کے وسائل لوٹتی ہیں۔ ان کی وجہ سے وہ ملک غربت کے خاتمے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے منصوبے نہیں بناسکتا۔ یہ اعلامیہ زور دیتا ہے کہ ان کمپنیوں کو فرم مان کر ٹیکس عائد کیا جائے ۔ یہ ضروری بھی ہے کیونکہ کثیر ملکی کمپنیاںاکثر اپنی قیمتوں کے تعین اور دیگر مالیاتی انتظامات کے ذریعے منافع پہلے ہی خود بنائی گئی کمپنیوں، جن کا کوئی وجود نہیںہوتا، کو منتقل کرچکی ہوتی ہیں۔ ان کمپنیوں نے ٹیکس فری علاقے (Tax heavens) تلاش کیے ہوتے ہیں جہاں یہ اپنی دولت کو ٹیکس سے محفوظ رکھتی ہیں۔ ان کا ہاتھ روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے مالیاتی نظام میں شفافیت اور معلومات تک رسائی ہوتاکہ ٹیکس چور ی کا تدارک کیا جاسکے۔ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جہاں ٹیکس چوری، رقم کو غیر قانونی طور پر ٹیکس فری علاقوں تک منتقل کرنا اور قومی دولت کو لوٹنا ایک معمول ہے، اس لیے پاکستان کو اس اعلامیے کے مندرجات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ 
اس دوران مروجہ غیر منصفانہ ٹیکس کے نظام کو تبدیل کرکے منصفانہ اور مربوط نظام قائم کیا جانا چاہیے۔ موجودہ نظام دولت مند اور طاقتور طبقے کا تحفظ کرتے ہوئے اس کی دولت پر اجارہ داری قائم کرتاہے۔ غریب لوگ 17 سے لے کر 36 فیصد تک سیلز ٹیکس ادا کررہے ہیں(بعض صورتوں میں یہ 45 فیصد تک جا پہنچتا ہے)، لیکن معاشرے کے طاقتور طبقے ، جیسا کہ صنعت کار، جاگیردار، اعلیٰ افسران اور بزنس مین دولت ٹیکس یا انکم ٹیکس ادا نہیں کررہے۔ صوبائی حکومتیں بھی زرعی ٹیکس نافذ کرنے یا دولت مند افراد سے پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ سروسز پر ٹیکس عائد کررہی ہیں۔ ان اقدامات سے بزنس کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر اس کا بوجھ صارفین پر منتقل کردیا جاتا ہے جو حتمی طور پر اس ملک کے عام شہری ہیں۔ اس ضمن میں آج کل صوبائی سطح پر ٹیکس اکٹھا کرنے والی اتھارٹی بھی ویسے ہی جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے جس کے لیے ایف بی آر بدنام تھا۔ 
معاشی طور پر خود کفیل اور فلاحی ریاست قائم کرنے کے لیے اشرافیہ کو ٹیکس کے دائرے میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس طبقے نے ملکی دولت لوٹتے ہوئے اور ٹیکس ادا نہ کرکے ملک میں اور بیرون ِ ملک ہوشربا حد تک وسیع اثاثے جمع کررکھے ہیں۔ یہ لوگ قومی مجرم ہیں، لیکن ان میں سے کچھ نے نیب کے ساتھ افہام و تفہیم کرتے ہوئے تھوڑی سی رقم کی ادائیگی کی ہامی بھری لیکن اکثر نے وہ بھی ادا نہ کی۔ ان افراد کو انتخابات لڑنے کے لیے ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔ ستم ہے کہ لوگ غربت سے مررہے ہیں تو دوسری طرف ملک میں حکمران طبقہ اپنی سکیورٹی اور دوروں پر بھاری رقم خرچ کررہا ہے۔اس طرح ریاستیں کتنی دیر تک چل سکتی ہیں؟عوام پر مزید ٹیکس لگانے سے پہلے اس طبقے کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے اور اس میںاتنی شفافیت ہوکہ عوام کو دکھائی دے کہ ان کے حکمران اور دولت مند طبقہ واجب ٹیکس ادا کررہا ہے اور ٹیکس کی رقم ان پر خرچ کی جارہی ہے۔ صرف اُس وقت ہی یہ ملک ایک فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں