ٹیکس نظام میں بہتری کیسے لائی جائے؟

سوملین ڈالر قرضہ لینے سے 2000ء میں شروع کی گئی ٹیکس اصلاحات پندرہ سال کے بعدبھی جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس کی شرح بہتر کرنے میں ناکام رہیں۔ 2014-15ء کے مالی سال کے دوران ایف بی آر تیسری مرتبہ ترمیم شدہ ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ ابتدائی طے شدہ ہدف 2810 بلین روپے تھا، تاہم حاصل کردہ رقم اس سے 222 بلین روپے کم رہی۔ دس سال پہلے سی بی آر طے شدہ ہدف سے دس بلین روپے زیادہ وصول کرلیتا تھا۔ 2014-15ء میں ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوںکی تعداد میں خاطر خواہ کمی دیکھی گئی اور زیادہ تر ٹیکس بالواسطہ محصولات سے ہی جمع کیاگیا۔ حاصل ہونے والے محصولات کا 65 فیصد پٹرولیم اور اس کی مصنوعات پر بھاری سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ 
آزاد تجزیے خود اختیاری ٹیکس ، جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس کی شرح اور معاشرے کے غریب طبقات پر ٹیکس کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی افسوس ناک صورت ِحال بیان کرتے ہیں۔ سرکاری اور آزاد حلقوں کے درمیان ایک اتفاق ِر ائے موجود ہے کہ پاکستان کو معاشی استحکام کے لیے آنے والے تین برسوں میں ٹیکس کے دائرے کو بڑھانے اور اسے جی ڈی پی کے پندرہ فیصد تک (اس وقت یہ 9.5 فیصد ہے) لے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سیلز ٹیکس کے ہوشربا نرخوں میں کمی لاتے ہوئے سادہ اور موثر سیلز ٹیکس اور بچت اور سرمایہ کاری کے رجحان کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت کو اپنے ٹیکس اہداف کو از سر ِ نوطے کرتے ہوئے ٹیکس کو جی ڈی پی کی شرح کے مطابق لانے اور کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 
افسوس ناک بات یہ ہے کہ رئیل اسٹیٹ اور حصص کی خریدوفروخت پر بھاری منافع کمایا جاتا ہے لیکن حکومت اس شعبے میں ظاہر کیے جانے والے جعلی لین دین کو روکنے کی کوشش نہیں کرتی۔ معاشرے کے طاقت ور دھڑے اس کاروبار میں ملوث ہیں ، چنانچہ قانون اُن کا تحفظ کرتا ہے۔پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء اور انکم ٹیکس آرڈیننس2001ء کا سیکشن 111(4) اس کی کچھ مثالیں ہیں۔ ٹیکس مراعات کو ختم کرنے کے لیے قومی اسمبلی یا سینٹ میں کوئی بل پیش نہیں کیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان طاقتور حلقوں کو حاصل ٹیکس میں چھوٹ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اب وقت آگیا ہے جب سول سوسائٹی، میڈیا اور دانشور طبقہ عسکری، جوڈیشل، سویلین افسرشاہی اور جاگیردارں اورسرمایہ داروں پر مشتمل طاقتور اشرافیہ کو حاصل مراعات کے خلاف آواز اٹھائے ۔ اگر ان کے پاس ایسے اثاثے موجود ہوں جو انھوں نے ظاہر نہیں کیے تھے، تو اُنہیں ضبط کرلینا چاہیے۔ 
یہ ناقابل ِتردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں ٹیکس چوری یا اپنی آمدنی کوکم ظاہر کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ اگر اشرافیہ کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے( اور اس کے لیے خاطرخواہ سختی کرنا پڑے گی)اور حاصل ہونے والی رقم سے عوام کو سہولیات فراہم کی جائیں تو پھر عام شہری کو بھی ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب دی جاسکے گی۔ اس طرح ٹیکس کا دائرہ پھیلتا چلا جائے گا اور پاکستان معاشی طور پر ایک فعال ریاست کے طور پر اپنے قدم مضبوط جما لے گا۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاشرے کے طاقتور طبقوں کی طرف سے شور مچانے پر کان دھرے بغیر معیشت کوڈاکومنٹ کرے اور آمدنی کے مطابق انکم ٹیکس ا دا نہ کرنے کوقطعاً برداشت نہ کرے۔ 
اس مقصد کے لیے ایک سوچی سمجھی سکیم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ محصولات جمع کرنے میں ہونے والے زیاںکوروکا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ ٹیکس افسران سے خائف ہوئے بغیر انکم ٹیکس فائل جمع کرائیں۔ ٹیکس چوری اور ٹیکس کے دائرے میں توسیع کا عمل بیک وقت ہونا چاہیے۔ اس وقت سیلز ٹیکس کے شعبے میں بہت زیادہ چوری ہورہی ہے۔ رجسٹرڈ دکان دار سترہ فیصد کے حساب سے صارفین سے سیلز ٹیکس وصول کرلیتے ہیں لیکن ٹیکس انتظامیہ کی بدعنوانی اور غفلت کی وجہ سے وہ وصول کیا گیا پورا ٹیکس سرکاری خزانے میں جمع نہیں کراتے ہیں۔ اس طرح حکومت کا بھاری نقصان ہورہا ہے لیکن ٹیکس افسران سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ حتمی صارفین کو تو سیلز ٹیکس جبراً ادا کرنا پڑتا ہے لیکن اُس رجسٹرڈ دکانداریا تاجر سے حکومت نہ تو انکم ٹیکس پورے طریقے سے وصول کرپاتی ہے اور نہ ہی جمع کیا گیا سیلز ٹیکس۔ اب چونکہ سیلز ٹیکس قوانین ٹیکس ادا کرنے والوں کے لیے کچھ ترغیبات پیش کرنے جارہے ہیں، اس لیے مندرجہ ذیل تجاویز کو مدِ نظر رکھا جانا چاہیے۔ 
ہر وہ شخص جو سیلز ٹیکس ادا کرنے کا ثبوت مہیا کرے، اُسے ٹیکس کی بیس فیصدرقم انعام کے طور پر واپس کردی جائے۔ ریفنڈ کا طریقہ سادہ ہونا چاہیے۔ ثبوت فراہم کرنے والے شخص سے کہا جائے کہ وہ ایف بی آر کی سنٹرل ڈپازیٹری میں انوائسز جمع کرائے۔ وہاںسے تصدیق ہونے کے بعد اس کے اکائونٹ میں ریفنڈ کی رقم براہ ِراست جمع کرادی جائے۔ اس طریقے سے ایف بی آر سیلز ٹیکس کے بارے میں اعدادوشمار حاصل کرتے ہوئے اُس دکاندار یا تاجر تک انکم ٹیکس کی ادائیگی کے لیے پہنچ سکتا ہے۔ یہ سکیم لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے گی کہ وہ سیلز ٹیکس انوائسز حاصل کریں۔ اس وقت صارفین ان کے لیے اصرار نہیں کرتے ہیں لیکن بیس فیصد رقم کی ترغیب اُن کے لیے ایک اچھا محرک ثابت ہوگی۔ اس طرح حکومت کوانکم ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لیے عوام کی عملی مدد حاصل ہوجائے گی۔ اس وقت حکومت کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے موجود ٹیکس ادا کرنے والے افراد کو زیادہ سے زیادہ نچوڑ لے۔ وہ نادہندگان پر ہاتھ ڈالنے کے لیے تیار نہیں ۔ اس طرح لوگ ٹیکس ادا کرنے سے گھبراتے ہیں کہ اگر ایک مرتبہ وہ اس کی گرفت میں آگئے تو حکومت اُن سے تمام جمع پونجی چھین لے گی۔ اس تصور کو اب بدلنا چاہیے۔ 
ٹیکس کے نظام پر اُس وقت تک عوام کا اعتماد قائم نہیں ہوسکتا جب تک ٹیکس مشینری اور ٹیکس دہندگان، دونوں کو قانون کے تابع نہیں کیا جاتا۔ اس وقت حکومت کے سامنے بنیادی چیلنج پوٹینشل کے مطابق ٹیکس وصول کرنا ہے۔ ریاست کویاد رکھنا چاہیے کہ اگر عوام کو ٹیکس کے نظام کو منصفانہ یا کسی ایک طبقے کو فائدہ پہنچانے والا سمجھتے رہیں گے تو وہ ٹیکس ادا کرنے کی طرف راغب نہیں ہوں گے۔ اس لیے بنائے گئے تمام قوانین دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ سب سے پہلا کام عوام کا اعتمادجیتنا ہے۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس کے نظام کو عوام دشمن سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ قومی سطح پر خصوصی اور منطقی کاوشوں کی ضرورت ہے تاکہ عوام کا اعتماد بحال کیا جاسکے۔ 
پاکستان کی منتخب شدہ پارلیمنٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹیکس ریفارمز کی طرف کی طرف قدم بڑھائے۔ اس کے لیے بعض قوانین میں بھی ترمیم کرنی پڑے گی۔ اس کے لیے ماہرین سے مشاورت کی جائے ۔ اس وقت یہ کام ایف بی آر اور فنانس منسٹری میں بیٹھے ہوئے سرکاری افسران کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قوانین بنانا ان سرکاری افسران کا نہیں بلکہ عوام کی منتخب شدہ پارلیمنٹ کا استحقاق ہے ۔ایف بی آر کوپالیسی ساز اور قانون ساز کا کردار نہیں سونپا جاسکتا، یہ صرف ٹیکس وصول کرنے والا ایک ادارہ ہے۔ ملک میں پارلیمنٹ موجود اور فعال ہے۔ اسے جمہوری عمل کے ذریعے ایک قابل ِ قبول اور ٹیکس پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔چنانچہ عوام کے تعاون اور پارلیمنٹ میں ہونے والی موثر قانون سازی سے ٹیکس کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے ریاست کی ضروریات کے لیے رقم جمع کی جاسکتی ہے۔ صرف اُس صورت میں ہی ہم غیر ملکی امداد سے جان چھڑا سکیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں