اعدادوشمار کی جادوگری

پریس رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف نے مالیاتی خسارے، اخراجات اور محصولات جمع کرنے کی بابت حکومت کے پیش کردہ اعدادوشمار کی تحقیقات کرنے کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔ مختلف آزاد ذرائع، جن میں راقم الحروف بھی شامل ہے، کی طرف سے مالیاتی بے ضابطگیوں ، جمع شدہ محصولات کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر ظاہر کرنے اور زیادہ اخراجات کو کم کرکے بتانے کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نے آئی ایم ایف کے کان کھڑے کردیے ہیں ا ور اب اس نے خود بھی ان معاملات کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نے حکومت کو بھی پریشان کردیا ہے۔ منسٹری آف فنانس کو فوری ہدایات کی گئیں کہ اپنی ویب سائٹ پر ان ''الزامات ‘‘ کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا جائے۔ رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف نے کیے گئے دعووں اور ان کی تردید کا نوٹس لے لیا ہے، اگرچہ اس کی باضابطہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی۔ 
دراصل پی ایم ایل (ن)کے لیے اعدادوشمار کومسخ کر کے پیش کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ آئی ایم ایف کی طرف سے فنانس منسٹر ، اسحاق ڈارکو سابق دور میں ایک مرتبہ مسخ شدہ اعدادوشمار پیش کرنے پر جرمانہ بھی ہوچکا ہے۔ تاہم ،جیسا کہ وزیر موصوف سے توقع تھی، اس سزا سے کوئی سبق نہ سیکھا گیا، یا پھر جیسا کہ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ پرانی عادتیں آسانی سے نہیں جاتیں۔ ان کالموں کے ذریعے حکومت کے سامنے بارہا یہ تجویز رکھی گئی کہ وہ اپنے مالیاتی امور میں شفافیت لانے کے لیے فارسینک آڈٹ کرانے کا حکم دے۔ اس مقصد کے لیے کسی شہرت یافتہ فرم کے سینئر چارٹرڈ اکائونٹنٹس پر مشتمل ایک آزاد کمیشن کو آڈٹ کی ذمہ داری سونپی جائے۔ یہ حکومت کا آئینی فریضہ ہے کہ وہ آڈیٹر جنرل کے سامنے تمام ریکارڈ رکھے اور سالانہ ا ٓڈٹ رپورٹ تک عوام کو رسائی دی جائے۔ پاکستان کے ہر شہری کو آئین کے آرٹیکل 19A کے تحت معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔ فنانس منسٹر اور ایف بی آر کو حقائق کو چھپا کر معاملات کو غیر ضروری طور پر متنازع بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ 
پریس رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے تسلیم کیا ہے کہ2014-15ء کے مالی سال کے دوران جمع کردہ محصولات 2581 بلین روپے تھے لیکن ایف بی آر نے 2588 بلین روپے جمع کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تمام آزادذرائع کہہ رہے تھے کہ ایف بی آر تیسری مرتبہ کے ترمیم کردہ ہدف،2605 بلین روپے بھی حاصل نہیں کرپائے گا۔ اصل ہدف 2810 بلین روپے تھا، لیکن تین منی بجٹ پیش کرنے کے باوجود ایف بی آر ہدف تک نہ پہنچ سکا۔ اس سے پہلے، 2013-14ء کے مالی سال کے دوران ایف بی آر نے 2475 بلین روپے کا ہدف طے کیا۔ پھر اس میں ترمیم کرکے 2275 بلین روپے کیا۔ تاہم حاصل کردہ رقم صرف 2254.5 بلین روپے تھی۔ 
ایف بی آر کی حاصل کردہ رقوم میںریفنڈز کی بلاک شدہ رقوم کے علاوہ بھاری ایڈوانس کی رقم بھی شامل ہوتی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کو اس بات کی شفاف تحقیق کرنی چاہیے ۔ ماضی میں ایف بی آر کے باس اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ پیش کردہ اعدادوشمار میں ایڈوانس اور ریفنڈز کی رقوم بھی شامل تھیں، لیکن غلط بیانی پر سزا نہ دی گئی۔ یہ ایک عجیب ، لیکن قابل َفہم بات ہے کہ کسی نے بھی اس پر آواز نہیں اٹھائی۔ چونکہ منتخب شدہ نمائندے ایف بی آر کے افسران کی پشت پناہی کرتے ہیں کیونکہ افسران اُن کی دولت کا کھوج لگانے سے گریز کرتے ہوئے اُن کے مالی مفاد کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ تال میل دونوں کو فائدہ پہنچاتاہے۔ 
اب وقت آگیا ہے جب اس ''الائنس‘‘ کا خاتمہ کیا جائے تاکہ طاقت ورسیاست دانوں سے درست ٹیکس وصول کیا جائے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق حکومت نے 5.3 فیصد بجٹ کے خسارے پر2014-15ء کے مالی سال کا اختتام کیا۔ حکومت کا ہدف اس خسارے کو 4.9 فیصد تک محدود کرنا تھا، لیکن 0.4 فیصد خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ فنانس منسٹری کے مطابق وفاقی اور صوبائی سطح پر جی ڈی پی کے 14.4 فیصد ٹیکس جمع کیا جاسکا، جو کہ 3.391 بلین روپے تھا۔ اس دوران حکومت کا کل خرچہ 5.387 بلین روپے‘ ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کا گیارہ فیصد جبکہ نان ٹیکس ریونیو 3.3 فیصد تھا۔موجودہ خرچہ جی ڈی پی کا 16.2 فیصد، یعنی 4.424 بلین روپے ہے۔ اس میں سے 1303 بلین روپے مارک اپ ادائیگیوںپر اور698 بلین دفاع پر خرچ کیے گئے۔ حکومت نے 1140 بلین روپے ترقیاتی منصوبوں اور قرضہ جات پر صرف کیے۔ 
گزشتہ مالی سال میں بھی حکومت نے اعدادوشمار کی ایک جادوگری دکھائی جس کا حجم 177 بلین روپے تھا ۔ اس کی حقیقت فاش ہونے کے بعد چند دن پہلے، انتیس اگست 2015ء کو فنانس منسٹری نے ''جان بوجھ کر غلط بیانی ‘‘ کو تسلیم کیا ۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ قوم کے سامنے اس کی وضاحت پیش کرے کہ ملک کا نام کیوںکر بدنام کیا گیا؟ایک انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی شہباز رانا کی رپورٹ کے مطابق دوسری مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ حکومت کوغلط بیانی کی وجہ سے خفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ کچھ عرصہ پہلے ایک برادر اسلامی ملک کی طرف سے ملنے والے 1.5 بلین ڈالرکو بھی محصولات کی فہرست میں شامل کرلیا گیا حالانکہ یہ رقم بطور ''تحفہ‘‘ دی گئی تھی ۔ اس رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ فنانس منسٹری کے مطابق بجٹ کا خساراجی ڈی پی کا5.3 فیصد، یعنی 1.456 بلین روپے تھا لیکن درحقیقت یہ فرق چھ فیصد یعنی 1.634 بلین روپے تھا۔ عالمی ماہرینِ معاشیات کا دعویٰ ہے کہ یہ خسارہ جی ڈی پی کے 6.4 فیصد سے کم ہرگز نہ تھا۔ 
حکومت کی طرف سے اس وسیع پیمانے پر مالی بے ضابطگیوں کی کبھی وضاحت نہیں کی گئی۔ اس ملک کے باشندے حکومت سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے، چنانچہ اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔ فنانس منسٹر سے توقع کی جاتی ہے کہ عوام کے سامنے، میڈیا پر، اس معاملے کی وضاحت کریںگے۔ اگر نہیں تو پارلیمنٹ کے فلور پر منتخب نمائندوں کو ہی بتادیں کہ یہ کیا ہے اور ملک کے مالی معاملات کس طرح چلائے جارہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں