ٹیکس میں بہتری اور سماجی فلاح

''لیفر کروو (The Laffer Curve) کی اصطلاح میں نے ایجاد نہیں کی، اس کا تصور قدیم زمانے سے ہی چلا آرہا تھا۔ مثال کے طور پر چودہویں صدی کے مسلمان فلسفی ابن خلدون نے اپنی کتاب ''مقدمہ‘‘ میں لکھا: ''ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ کسی حکمران خاندان کے آغاز میں کم شرح سے عائد کردہ ٹیکسز سے بھاری محصولات حاصل ہوتے ہیں‘ لیکن جب وہ خاندان اپنے انجام کی طرف بڑھتا ہے تو ٹیکس کی بھاری شرح کے ساتھ کم محصولات حاصل ہوتے ہیں۔۔۔۔‘‘۔
یہ حوالہ ڈاکٹر آرتھر بی لیفر، جو ایک مشہور اکانومسٹ اور معاشی اصطلاح 'لیفر کروو کے خالق ہیں‘ کی کتاب ''Return to Prosperity‘‘ سے لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ان کے ساتھ شریک مصنف (Co author) سٹیفن مور ہیں‘ جو وال سٹریٹ جرنل کے سینئر اکنامکس رائٹر ہیں۔ پاکستان میں دولت اور آمدنی کی بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے پیچھے کارفرما عوامل میں سے ایک محصولات کا سخت گیر نظام بھی ہے۔ گزشتہ پچیس برسوں میں غریب عوام پر ٹیکسز کی شرح 35 فیصد تک بڑھی جبکہ دولت مند افراد پر اس میں صرف 18 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پانچ جولائی 1977ء کے شب خون کے بعد سے پروگریسو ٹیکسز کی جگہ ریگریسو (regressive) ٹیکسز نے لے لی۔ ریگریسو ٹیکسز میں سب سے زیادہ شدت 1991ء میں آئی جب ایک کاروباری شخصیت کو اُس وقت کی فوجی قیادت نے سیاست کے میدان میں اتارا۔ اس کے بعد دولت مندوں کو نوازنے والے ریگریسو ٹیکسز کے نفاذ کا رجحان تیز سے تیز تر ہوتا دکھائی دیا۔ اُسی دور میں ٹیکس چوروں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ''پر و ٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء‘‘ نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ نے ٹیکس کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ اس کے تحت بیرونی ممالک سے آنے والے زرمبادلہ پر ٹیکس حکام سوال نہیں پوچھ سکتے۔ اس ضابطے سے دولت مند افراد نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنے کالے دھن کو بیرونی ممالک سے ''منگوا‘‘ کر ٹیکس حکام کو خود سے دور رکھا۔ پروگریسو ٹیکسز کے تابوت میں آخری کیل مشرف‘ شوکت عزیز دور میں ٹھونکی گئی‘ جب دولت ٹیکس کو منسوخ کر دیا گیا۔ 
اکانومسٹ طلعت انور کے مطابق 2000-2007ء کے درمیانی عرصہ میں ملک میں معاشی ناہمواری پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی۔ ان کی طرف سے لیا گیا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ اچھی پالیسیاں بھی گڈگورننس کے بغیر غریب عوام کو فائدہ نہیں پہنچا سکتیں۔ مثال کے طور پر جن ادوار میں پاکستان میں بہت زیادہ وسائل مختص کیے گئے، اُن سے سماجی بہتری کا انڈیکس بلند ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ یہ اس لیے کہ غربت کی حقیقی وجوہ کو ختم کیے بغیر غربت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ لیکن یہ صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں، جنوبی ایشیا کے زیادہ تر ممالک میں یہی صورت حال ہے۔ یہاں گورننس کے بہت سے ایشوز حل طلب ہیں۔ حکومتوں کی پالیسیاں، اصل مسائل کی تفہیم اور دستیاب وسائل کا درست استعمال ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ 
پبلک سیکٹر میں ہونے والے اخراجات میں شفافیت کا فقدان اور احتساب کی کڑی گرفت کی ضرورت ہے تاکہ وسائل کے درست استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی احتساب بھی اہمیت رکھتا ہے تاکہ حکومت عوام کا سامنا کرنے سے پہلے اپنے طرز عمل اور پالیسیوں کا جائزہ لینے پر مجبور ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ ریگریسو ٹیکس سسٹم اور سبسڈی دینے میں غلطی اس نظام کی فعالیت کو بگاڑ دیتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ گورننس کے مسائل، سبسڈی دینے کی درست پالیسی اور ٹیکس سسٹم میں ہونے والے وسائل کے ضیاع کو روکا جائے۔ 
دولت کی تقسیم میں مساوات کا اصول اُسی وقت فعال ہو گا جب ہر افراد کی درجہ بندی ہوگی اور ہر درجہ بندی پر مختلف ذمہ داریاں ڈالی جائیں گی۔ یہ ذمہ داریاں وسائل کی بنیاد پر ہوں گی۔ ہمارے ٹیکس کے موجودہ نظام میں اس درجہ بندی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ایک کمرشل امپورٹر‘ جس کا ٹرن اوور دس ملین روپے ہے، بھی اتنا ہی ٹیکس ادا کر رہا ہے‘ جتنا پانچ سو ملین کی امپورٹ والا۔ اس صورت میں انکم ٹیکس کی ادائیگی معاشی مساوات کو یقینی بناتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ خود پر لگے بالواسطہ ٹیکس کا بوجھ عوام پر منتقل کر دیں گے۔ ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا ہے، اس لیے ہمارا موجودہ ٹیکس نظام معاشی مساوات قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں امیر زیادہ سے دولت سمیٹ رہے ہیں جبکہ غریب افراد کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ 
چیئرمین ایف بی آر نے تیرہ مئی 2014ء کو سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو کو بتایا کہ ٹیکس میں چھوٹ دینے کی مد میں ہر سال پانچ سو بلین روپے ضائع ہو جاتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر استحقاق یافتہ طبقے کو دی گئی بھاری بھرکم مراعات کو غریب عوام پر صرف کیا جاتا تو آج ہمارے معاشرے کی یہ حالت نہ ہوتی اور موجودہ معاشی انحطاط سے بھی بچا جا سکتا تھا۔ ٹیکسیشن کو اس صورت حال سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا، اسے سماجی نظام سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹیکس میں اصلاحات لاتے ہوئے معاشی ہمواری پیدا کرنے اور غریب عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے مناسب قدامات کرے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ لاکھوں پاکستانی غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں‘ جبکہ اشرافیہ ریاستی وسائل پر پل رہی ہے۔ اس معاشرے میں صرف بندوق کی نوک پر امن کس طرح قائم ہو گا؟ مجھے یہ بات کہنے کی اجازت دیجیے کہ ہمارے ٹیکس کے موجودہ نظام کا اُن خرابیوں سے براہ ِراست تعلق ہے جن کا ہمارا معاشرہ شکار ہے، ان میں دہشت گردی بھی شامل ہے۔ 
یقینا یہ رابن ہڈ کا زمانہ نہیں لیکن پھر یہ بھی نہیں ہو سکتا ہے کہ دولت مند افراد کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے عام شہری پر بوجھ ڈالا جائے۔ جب آبادی کے ایک چھوٹے سے گروہ کے ہاتھ میں دولت اور اختیارات کا ارتکاز ہو جائے تو ریاست اپنے وجود کا جواز کھو دیتی ہے۔ کیا اس ملک کی آبادی کی اکثریت کا اچھی خوراک، تعلیم، صحت، ہائوسنگ اور دیگر سہولیات پر حق نہیں؟ کیا منتخب حکومت بتا سکتی ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے اور جان و مال کا تحفظ، یعنی سیکورٹی کے علاوہ عوام نے اُنہیں کس مقصد کے لیے ووٹ دیے تھے؟ جیسا کہ میں نے پہلے کہا، پاکستان میں معاشی ناہمواری میں 1990ء کی دہائی میں شدت آنا شروع ہوئی اور اس کا سلسلہ اب تک بلاتعطل جاری ہے۔ اس ''سیاسی معیشت‘‘ کا جائزہ لینا بہت ضروری ہو چکا ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ تیزی سے عدم مساوات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ صورتحال امن و امان کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ 
چونکہ پاکستان انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے، اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ آرٹیکل 3 کا اطلاق لازمی بنایا جائے۔ یہ آرٹیکل ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ ہر فرد کو اُس کی صلاحیت کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے اور ہر قسم کے استیصال کا خاتمہ کرے۔ اگر حکومت پاکستان اس آرٹیکل کا عملی نفاذ یقینی بنائے تو عوام کی حالت بہتری ہوگی اور جمہوریت بھی مضبوط ہوگی۔ اسے سمجھنا چاہیے کہ ریاست اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے منصفانہ پروگریسو ٹیکسیشن کی ضرورت ہے، اس کام کے لیے بیانات اور اشتہار بازی ناکافی ہوں گے۔ کیا ہم ابن خلدون کی تنبیہ پر کان دھرنے کے لیے تیار ہیں؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں