حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اور عوام کی حالت ِ زار

ہمارے حکمران عوام کی حالت ِ زار کو بہتر بنانے میں کس قدر سنجیدہ ہیں، اس کا اندازہ حالیہ ہولناک زلزلے میں متاثرہ لوگوں کی کسمپرسی سے لگایا جاسکتا ہے۔ عوام کے پاس اس قدرتی آفت سے لڑنے کے لیے ضروری وسائل نہیں ہیں اور سیاسی قیادت کا رویہ اور نااہلی ہمیشہ کی طرح سب کے سامنے ہے۔ فوجی قیادت نے ایک اور موقع پر آگے بڑھ کر ثابت کردیا کہ اگر ادارے میں نظم وضبط اور اچھی قیادت ہوتو ہر صورت ِحال کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ سول قیادت کی نااہلی کو بیان کرنا جمہوریت دشمنی سمجھا جاتا ہے، جب کہ دراصل یہ عوام دوستی ہے۔ ہمیں عوام کو شعور اور آگہی دینا ہوگی تاکہ وہ حکمرانوں کو باور کراسکیں کہ اُن کے فرائض کیا ہیں۔ تاحال سول حکمران عوام کی فلاح وبہبود کی بجائے قومی خزانے کو اپنی عیاشی کے لیے استعمال کرنے میں مشغول ہیں۔ 
جولائی 2013 ء اور ستمبر 2014 ء کے درمیان ہمارے وزیراعظم کے سولہ غیر ملکی دوروں پر قوم کے تین سوملین روپے خرچ ہوئے، جو کہ کسی بھی وزیر ِ اعظم کی طرف سے ایک ریکارڈ ہے۔ ہر غیر ملکی دورے پر اوسطاً بیس ملین روپے ہوا میں اُڑ جاتے ہیں۔ میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق وزیر اعظم کا گزشتہ سال اقوام ِ متحدہ کا کیا گیا دورہ مہنگا ترین تھا جس پر87 ملین روپے خرچ ہوئے، جبکہ ''سستا ترین‘‘ دورہ ہمسایہ ملک، افغانستان کا تھا جس پر 1.2 ملین روپے خرچ ہوئے۔حاصل ہونے والی دیگر تفصیلات کے مطابق چین، برطانیہ اور ترکی کے دوروں پر قوم کے بالترتیب41.9 ملین، 50.4 ملین اور9.6 ملین روپے خرچ ہوئے۔ ایران، تھائی لینڈ، سری لنکا اور ہالینڈ کے ایک ایک دورے پر بالترتیب 4.8 ملین، 9.7ملین ،10.2 ملین اور10.46 ملین روپے خرچ ہوئے۔ 
ایک انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق وزارت ِخارجہ نے وزیر ِاعظم کے بیرونی دوروں کے دوران ہونے والے اخراجات کی تفصیل بتانے سے انکار کردیا۔ ایسا کرتے ہوئے آرٹیکل 19A کے تحت عوام کومعلومات حاصل کرنے کے حق سے محروم رکھا گیا۔ اسلام آباد کے ایک وکیل، ملک سلیم اقبال کو دیے گئے ایک تحریری جواب میں وزارت نے سیکشن فریڈم آف انفارمیشن 2002ء کے سیکشن 8(i) کو حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مختلف سربراہان کی طرف سے خرچ کی گئی رقم کو ''رازداری‘‘ کی بنیاد پر عوام سے شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ سیکشن 8 وفاقی حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ ریاست کے مفاد کے پیش ِ نظر وہ کسی بھی ریکارڈ کو فریڈم آف انفارمیشن 2002ء کے دائرے سے خارج کر دے۔ اس پر وکیل صاحب نے ایک بہت برمحل سوال اٹھایا۔۔۔''کس قانون کے تحت وزیر ِا عظم اور ان کے ساتھ سفر پر جانے والے افراد کے لیے خریدی گئی فضائی سفر کی ٹکٹوں کا شمار قومی سلامتی کے رازوں میں ہوتا ہے؟‘‘
وزارت ِخارجہ کا فریڈم آف انفارمیشن 2002ء کے سیکشن 8 کو استعمال کرتے ہوئے معلومات کو روکنا قانون کا غلط استعمال ہے کیونکہ آئین سے متصادم کوئی بھی قانون بے حیثیت ہوجاتا ہے، جیسا کہ سپریم کورٹ نے حامدمیر کیس بالمقابل ریاست 
پاکستان میں واضح الفاظ میں کہا تھا۔۔۔''ہر شہر ی کو عوامی مفاد سے متعلق معلومات تک رسائی حاصل کرنے کاحق ہے ، چاہے اُن پر قانونی پابندی کیوںنہ ہو۔‘‘ یقینا حکمرانوں کی طرف سے ٹیکس دہندگان کی رقم خرچ کرناعوامی اہمیت کا معاملہ ہے، چنانچہ اسے رازداری کے قوانین کے پیچھے نہیں چھپایا جاسکتا۔ فریڈم آف انفارمیشن 2002ء کا سیکشن3کہتا ہے۔۔۔''وقتی طور پر کسی بھی قانون میں درج کوئی بھی شق درخواست گزار کو سرکاری ریکارڈ تک رسائی سے نہیں روکتی، بشرطیکہ اسے سیکشن 15 کے تحت استثنیٰ حاصل ہو‘‘۔ سرکاری ریکارڈ کو عوام سے چھپانے کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے، جبکہ آئین کے تحت عوام کو معلومات تک رسائی کے بہت زیادہ حقوق دئیے گئے ہیں۔ یقینا وزارت ِخارجہ آرٹیکل 19A کے حقیقی دائرے کو جانچنے میں ناکام ہوگئی، ورنہ اس آرٹیکل کے تحت دیے گئے حقوق کو کسی قانون سے معطل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ قومی اسمبلی میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارت ِخارجہ نے اخراجات کی تفصیل شیئر کی تھی۔ اُس وقت اس نے فریڈم آف انفارمیشن 2002ء کے سیکشن آٹھ کا سہارا نہیں لیا تھا۔ 
ہمارے حکمرانوں کی نااہلی سے نہ صرف ملک کا امیج خراب ہو رہا ہے بلکہ ان کی طرف سے غیرملکی دوروں پر اربوں روپے بھی ضائع ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف عوام کی تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ‘ ہائوسنگ اور دیگر شہری سہولیات کے لیے بھی سرکار کے پاس رقم موجود نہیں۔ کوئی قدرتی آفت ہوتو اداروں کی منظم فعالیت دکھائی نہیںدیتی۔ تمام کام ہنگامی بنیادوں پر چلایا جاتا ہے۔ اس طرح کے ہنگامی امور عوامی فنڈز کے زیاں کا باعث بنتے ہیں۔ چاہے سول اور ملٹری بیوروکریسی ہو یا سیاست دان‘ حکمران اشرافیہ اپنے اخراجات کی عوام تک رسائی دینے کے لیے تیار نہیں۔ یادرہے، یہ عوام کا پیسہ ہے، اگر یہ عوام پر خرچ نہیںہورہا تو عوام کو کم از کم اتنا تو پتہ ہونا چاہیے کہ کس چیز پر کتنا خرچ اٹھ رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ٹیکس کا نظام بہتر بنا کر وسائل میں اضافہ کرنے کی بجائے قرضے لے کر شاہ خرچیاں کرنے کو حکومت کی فعالیت قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح ریاست کے امور کب تک چلیں گے ؟ کیا عوام ووٹ ڈالنے کے بعد ریاست کے معاملات سے لاتعلق ہوکر بیٹھ جائیں اور دیکھتے رہیں کہ حکمران اشرافیہ بیرونی دوروں پر کس طمطراق سے رقم ضائع کرتی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں