تیل پربے جا سیلز ٹیکس

وفاقی حکومت نے یکم فروری 2016ء سے پرانا طریق ِ کار تبدیل کر کے پٹرولیم کی تمام مصنوعات پر فی لٹر سیلز ٹیکس فکس کردیا ہے۔ اس سے پہلے پرانے طریق ِ کار کے مطابق فیصد کی بنیاد پر سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔ ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے یہ تبدیلی عمل میں لانا غیر قانونی ہے ۔ یہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ء کے علاوہ آئین ِ پاکستان کے خلاف ہے۔ تیس جنوری 2016ء کو جاری ہونے والے SRO 57(I)/2016کے مطابق HOBC کے علاوہ گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ہر قسم کے پٹرول پر14.48 روپے فی لٹر، HOBC پر 18.57 روپے فی لٹر ، ہائی سپیڈ ڈیزل پر 29.57 روپے فی لٹر، لائٹ ڈیزل پر 9.63 روپے فی لٹراور مٹی کے تیل پر 10.40 روپے فی لٹر سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ تاہم اس ٹیکس کا نفاذ سیلز ٹیکس 1990ء کے سیکشن 3(2)(b) کے تحت عمل میں نہیں آیا، حالانکہ اس سیکشن کا استعمال ہی SRO 57(I)/2016 جاری کرسکتا ہے۔ 
پٹرولیم کی مصنوعات پرفکسڈ سیلز ٹیکس کا مقصد زیادہ سے زیادہ محصولات کا حصول ہے۔ ان کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخوں میں کمی کے فوائدسے پاکستانی صارفین کو محروم کردیا گیا۔عالمی سطح پر پٹرولیم کی قیمت میں ہونے والی کمی کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں صرف پانچ روپے فی لٹر کمی صریحاً ناانصافی ہے۔ ہائی سپیڈ ڈیزل پر 29.57 فی لٹر ٹیکس کی وصولی سے محصولات کاحجم بہت بڑھ جائے گا کیونکہ بھاری گاڑیوں، جنریٹروں اور صنعتوں میں اس کی کھپت بہت زیادہ ہے۔ جو چیز اس صورت ِحال کو انتہائی تکلیف دہ بناتی ہے وہ محترم فنانس منسٹر کا بیان ہے کہ ''فروری میں پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کردیا کہ ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کے عز م پر کاربند ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ فکسڈ سیلز ٹیکس عوام کو فوائد سے محروم کردیتا ہے۔ 
پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر SRO 57(I)/2016 کے ذریعے پٹرولیم کی مصنوعات پر ٹیکسز کی بھرمار''انجینئر اقبال ظفر جھگڑا اور سینیٹر رخسانہ زبیری بالمقابل وفاق پاکستان و دیگر‘‘ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ وفاقی حکومت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے کو خاطر میں نہ لائے۔ اس فیصلے میں فاضل عدالت نے کہا تھا۔۔۔'' یہ ایک طے شدہ مسئلہ ہے کہ وفاق اپنے استعمال کے لیے ٹیکس نہیں لگا سکتا جب تک وہ مجلس ِ شوریٰ (پارلیمنٹ) سے اس کی اجازت حاصل نہ کر لے۔ اس حوالے سے ''Cyanamid Pakistan Ltd. V. Collector of Customs (PLD 2005 SC 495)‘‘کا حوالہ ہمارے سامنے ہے کہ ایسی طاقت ایگزیکٹو اتھارٹی کو تفویض نہیں کی جاسکتی۔ اس طرح ''Government of Pakistan vs. Muhammad Ashraf (PLD 1993SC 176) and All Pakistan Textile Mills Associations v. Province of Sindh (2004 YLR 192)‘‘ کیسز سے بھی اس کا حوالہ ملتا ہے۔ ‘‘
سیلز ٹیکس 1990ء کے سیکشن 3(2)(b) یہ بات واضح کردیتا ہے کہ اس کے تحت حکومت ٹیکسز کے نرخوں میں کچھ تبدیلی لاسکتی ہے، اس کے ذریعے نئے فکسڈ ٹیکسز عائد نہیں کرسکتی۔ چنانچہ SRO 57(I)/2016حکومت کو ایسا کوئی اختیار نہیں دے سکتی کیونکہ یہ اختیار آئین کے آرٹیکل 77کی خلاف ورزی تصور ہوگا۔SRO 57(I)/2016 کو نافذ کرتے ہوئے فنانس منسٹر کے اس بلندبانگ دعوے کی بھی قلعی کھل گئی جو موصوف نے گیارہ مئی 2015ء کو کیا تھا۔۔۔''مالیاتی ترمیمی بل 2015ء کے ذریعے ایف بی آر سے SROs جاری کرنے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔ ‘‘اُنھوں نے واشگاف انداز میں کہا تھا کہ اب ایسے تمام اختیارات غیر معمولی حالات میں ''ای ای سی‘‘ (Economic Co-ordination Committee of Cabinet)کو سونپ دے گئے ہیں۔ یہ دعویٰ بھی حقیقت سے دور تھا کیونکہ سیلز ٹیکس 1990ء کے سیکشن 3(2)(b)کے لیے ای ای سی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
SROs جاری کرتے ہوئے فکسڈ ٹیکس عائد کرنا قانون کے مطابق نہیں۔ ایف بی آر کی ویب سائٹ سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ابھی بھی مختلف اقسام کے ٹیکس کا نفاذ یا ان کے نرخوں میں تبدیلی کرنا ایف بی آر کے اختیار میں ہے ، حالانکہ فنانس منسٹر کا دعویٰ اس کے برعکس تھا۔ ابھی تک قومی اسمبلی یا سینٹ نے اس انتہائی اہم مسئلے پر بحث نہیں کی ہے۔ ایک طرف دولت مند کاروباری طبقے بے اندازہ وسائل رکھتے ہیں اور ایف بی آر انہیں ڈیوٹیز اور ٹیکسز میں تخفیف کرتے ہوئے بھاری فائدہ پہنچاتا ہے، تو دوسری طرف عام شہریوں پر بھاری فکسڈ ٹیکسز کا بوجھ لاد دیا جاتا 
ہے۔ پٹرولیم کی مصنوعات پر عائد کردہ فکسڈ ٹیکس کا حتمی بوجھ یقینا کم آمدنی والے عام شہری پر ہی پڑے گا۔ اس کی وجہ سے نہ صرف معاشی ترقی کی رفتار کمی ہوگی کہ بلکہ مصنوعات کی لاگت میں اضافے کی وجہ سے برآمدکنندگان عالمی منڈی میں دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کرسکیںگے۔ 
پاکستان ایک ایسا منفرد ملک ہے جہاں ایگزیکٹواتھارٹی بڑی آسانی سے پارلیمنٹ کے لگائے ٹیکسز کو ختم کرسکتی ہے۔ ایسا کرنا آئین کے آرٹیکل 162کی خلاف ورزی ہے۔ یہ آرٹیکل کے صدر کی اجازت کے بغیر قومی اسمبلی کو بھی ٹیکس میں چھوٹ دینے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن دلچسپی کی بات ہے کہ فنانس ترمیمی بل 2015ء کے ذریعے یہ طاقت بہت دھڑلے سے ای ای سی کو تفویض کر دی گئی ہے۔ آرٹیکل 77کو آرٹیکل 162ملا کر پڑھنے سے حکومت کی طرف سے آئین کو نظر انداز کرنے کا تاثر ابھرتا ہے۔ اس کے علاوہ مذکورہ بالا کیسز کے فیصلوںسے بھی پتہ چلتا ہے کہ پارلیمنٹ کو نظر انداز کرکے ایگزیکٹو یا ای ای سی کے ذریعے ٹیکسز کا نفاذ بھی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ تعجب ہے کہ ابھی تک سپریم کورٹ نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا، اور نہ ہی کسی فریق کی طرف سے حکومت پر فاضل عدالت کی توہین کاالزام لگایا گیا ، نہ ہی کسی نے پارلیمان میں احتجاج کیا۔ اس کے باوجود ہم جمہوریت اور آئین کی سربلندی کے دعوے دار ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں