حکمرانوں سے قوم کے چند سوالات

ایک ایسے ملک میں جہاں حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق دس میںسے ہر تیسرا پاکستانی سطح ِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ، کیا حکمرانوں کو پرتعیش محلات میں رہنے اور بیرون ِ ملک اثاثہ جات رکھنے پر ہرگز کوئی شرمندگی نہیں ؟کیا اُن کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی ذاتی رہائش گاہوں پر بھی سرکاری وسائل سے خرچ کریں ؟ کروڑوں پاکستانیوں کے لیے پینے کا صاف پانی ، علاج کی سہولت ، تعلیم اور روزگار کی فراہمی غیر یقینی ہو اورمحترم وزیر ِاعظم کے بیرونی دوروں پر ہوش ربا رقم اُڑادی جائے؟جب وہ اپنے طبی معائنے کے لیے لندن تشریف لے جائیں تو سارا خرچہ ٹیکس دہندگان ، جن کے لیے علاج کے لیے کوئی سرکاری اہسپتال نہیں، برداشت کریں؟ سرکاری خزانہ حکمران اشرافیہ کے ذاتی دوروں پرخرچ ہو؟ اس ناانصافی کا تصور جمہوریت میں ناممکن ہے ۔ ملکی خزانہ حکمرانوں کے پاس عوام کی امانت ہے ۔ یہ اُن کی ذاتی جاگیر نہیں کہ اس سے گلچھرے اُڑائیں۔ ستم یہ ہے کہ عوام بے بس اور پارلیمان خاموش ۔ عدلیہ بھی کسی قسم کا نوٹ لینے کے لیے تیار نہیں، کہ یہ بھاری پتھر کو ن اٹھائے ؟پارلیمانی جمہوریت اور دستور ِ پاکستان کادن اور قوم کے ساتھ یہ مذاق ؟ آئین کی پامالی کرنے والا آمر دوبئی میں اور ریاست ِ پاکستان خاموش تماشائی۔ سب کے لیے لمحہ ٔ فکریہ ہے۔
پاناما پیپرز کے بعد پوری دنیا میں ایک بار پھر حکمرانوں اور امیر لوگوں کی، جو بااثر اور سیاسی طور پر طاقتور ہیں، محصولات کی درست ادائیگی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے تمام مراکز کے بارے میں نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے جو لوگوں کو محصولات کی ادائیگی سے بچانے اور ناجائز دولت کو تحفظ فراہم کرنے کی سہولت فراہم کررہے ہیں۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ میں ان پر پابندی لگانے کا بل لانے کے لیے غور کیا جارہا ہے ۔ امریکہ پہلے ہی ان سے قانونی طور پر معلومات حاصل کرنے کا معاہدہ کرکے لوٹی ہوئی دولت واپس لا چکا ہے ۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی امریکی اب دنیا میں جہاں بھی اکائونٹ کھولے، وہ بنک آف امریکہ کو اطلاع کرنے کا پابند ہوگا اور ٹیکس بھی ادا کرے گا۔ یورپ کے تمام ممالک بھی ایسا ہی کرچکے ہیں۔ ان کے تمام بنک ، چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں، معلومات کا تبادلہ کرنے پر مجبور ہیں۔ انڈیا نے بھی تمام آف شور (سمندر پار) مراکز کے ساتھ معاہدے کے ذریعے معلومات کا تبادلہ کیا ہے اور اپنے ہاں موجود ٹیکس چوروں اور ناجائز دولت چھپانے والوں کا سخت محاسبہ کرنے کے عمل کو توانا کیا ہے ۔ 
بدقسمتی سے پاکستان میں اس سمت میںکوئی بھی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ وزیر ِ خزانہ پارلیمان میں بیان دینے کے سوا، کہ لوٹی ہوئی دولت کو واپس لایا جائے گا، عملی طور پر کچھ بھی کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ جن ممالک، جیسا کہ یواے ای، کے ساتھ دہرے ٹیکس کا معاہدہ ہے ، اُن سے بھی معلومات کا تبادلہ نہیں کیا گیا ۔ناقدین الزام لگاتے ہیں کہ خود وزیر ِ خزانہ کے بیٹے یواے ای میں اربوں کا کاروبار کررہے ہیںجبکہ اُس نے کبھی ذاتی حیثیت سے دولت نہیں کمائی۔ اگر ایسا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ دولت باہر کس نے بھیجی اور کیسے بھیجی؟ یہی سوال سابق صدر، آصف زرداری سے بھی پوچھا جانا چاہیے ۔ ان کے بیرونی ممالک میں اثاثوں کی قیمت کئی کھرب روپے بتائی جاتی ہے ۔ حالیہ دنوں اسی سوال کی زد میں موجودہ وزیر ِ اعظم بھی آئے ہیں۔ 
نواز شریف صاحب کے بیٹے ابھی ان کے زیر دست ہیں۔ اُنہیں ابھی اپنے دادا کی وراثت نہیں ملی، تو پھر اُنھوں نے اربوں کے اثاثے کیسے بنائے؟وزیر ِاعظم کا یہ بیان کہ میں ان کے لیے جواب دہ نہیں‘ ہر گز قابل قبول نہیں ۔ان کے گوشواروں میں بیٹے سے بڑی رقم کا تحفہ وصول کرنے کا انکشاف ہے جوکسی اور حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس موقع پر صرف وزیر اعظم کو حلفاً پارلیمان کے سامنے ان سوالوں کا جواب دینا چاہیے : میری بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں جو کہ میں نے اپنے بچوں یا کسی اور کے نام رکھی ہو۔ میں نے پاکستان سے کبھی کوئی پیسا باہر منتقل نہیں کیا ( ذاتی طور پر یا کسی کمپنی کے ذریعے) ۔میں نے کبھی اپنے کسی بھی دور حکومت یا کسی ریاستی عہدہ کے دوران کسی سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں کیا ( اپنے کئے یا کسی بھی خاندان کے فرد یا قریبی رشتہ دار کے لئے)۔ میرے کسی بھی بچے نے کبھی میرے ساتھ مل کر کسی قسم کا کاروبار نہیں کیا اور نہ ہی میں نے ان کے کاروبار سے کوئی فائدہ اٹھایا ہے ۔ اگر ان سوالوں کا جواب آجائے تو قوم مطمئن ہو گی ۔ اس کے برعکس کو ئی بھی ثبوت آنے پر وزیر اعظم کو قانون کے مطابق عہدے سے ہٹایا جا سکے گا۔
اس طرح تمام ارکان قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کو بھی حلفاً بیان دینا چاہیے کہ ان کے اثاثہ جات ملک سے باہر نہیں ہیں اور اگر ہیں تو وہ ان کے ذرائع کے بارے میں ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کو بتا چکے ہیں ۔ پاکستان میں شفاف نظام حکومت کے لیے اب بہت ضروری ہو گیا ہے کہ تمام جج ، جرنیل ‘ سیا ست دان اور اعلی سول حکام اپنے ذاتی اثاثوں( جن میں ان کے خاندان کے افراد بھی شامل ہیں ) کا اعلان کریں اور عام عوام تک ان کی رسائی ہو۔ یہ آئین کے آرٹیکل 19-Aکا بھی تقاضا ہے اور جمہوریت کا بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں