’’آف شور‘‘ کا شور اور چور مچائے شور

آج کل پوری دنیا میں ٹیکس چوروں اور ملکی دولت لوٹنے والوں کے خلاف نفرت اور غم وغصے کا اظہار کیا جا رہا ہے؛ تاہم پاکستان میں یہ اظہار دھیمے لہجے بلکہ نیم دلی سے کیا ہو رہا ہے۔ عوام طویل عرصے سے بدعنوانی اور ٹیکس چوری کو معمول سمجھنے پر مجبور ہیں۔ حکمرانوں کو ووٹ دیتے ہوئے وہ کبھی ان کی بدعنوانی اور ٹیکس چوری کو قابل گرفت نہیں گردانتے۔ پاناما پیپرز کی اشاعت کے بعد اگرچہ ہمارے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ایک بڑے حصے نے کئی سوالات اٹھائے مگر عوامی رد ِعمل نے کسی تحریک کی شکل اختیار نہیں کی جیسا کہ آئس لینڈ، یوکے یا دوسرے ملکوں میں ہوا۔ حکمران جماعت اور اس کے جوشیلے نمائندوں، حامیوںاور دانشوروں نے آخری حد تک جا کر شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا ثبوت دیا۔ معاملے کو نہ جانتے ہوئے بھی ہر طرح کی توجیح پیش کی کہ شاہ کے ہاتھ صاف ہیں۔
دوسری طرف ناقدین نے بھی بغض اور نفرت کا اظہار زیادہ کیا، ثبوت کا سہارا نہیں لیا۔ محترم وزیر ِاعظم کے بیٹوںاور اور بیٹی کے بیانات کے تضاد کو اُجاگر کیا گیا۔ اخباری رپورٹوںسے ثابت کیا گیاکہ لندن کے فلیٹس سے شریف خاندان کا 1992-93ء سے تعلق ہے ۔ 1999ء میں لندن کے ایک بنچ میں ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا جو التومنین بنام حدیبیہ پیپر ملز تھا، جس میں میاں محمد شریف مرحوم، شہباز شریف اور عباس شریف مرحوم کے نام شامل ہیں۔ محمد نواز شریف اور اُن کے اہل ِخانہ کا نام اس فیصلے میں موجود نہیں۔ حسین نواز کے مطابق اُنھوں نے یہ پراپرٹی 2007ء میں خریدی۔ اس کے لیے سعودی عرب میں لگائی ہوئی سٹیل مل سے منافع حاصل کیا گیا۔ حسن نواز نے مشرف کے اقتدار میں آنے بعد 1999ء میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ وہ ان فلیٹس میں بطور کرایہ دار رہتے تھے اور یہ کرایہ پاکستان سے آتا تھا۔ گویا 1999ء میں پیسہ پاکستان سے باہر بھیجا جاتا تھا۔ اگر پیسہ بنک کے ذریعے قانونی طریقے سے بھیجا گیا تو اس کا ثبوت ضرور موجود ہوگا۔ ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے ترسیل ِزر تو غیر قانونی تھا اورآج بھی ہے اور یقیناً وزیر ِاعظم اور ان کے اہل ِخانہ سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسے غیر قانونی ذرائع استعمال کریںگے۔
محمد نواز شریف کے بیٹوں نے جو کاروبار ملک سے باہر کیا، اس کے لیے ذرائع فراہم کرنے کا انکشاف خود اُن کے ٹیکس گوشواروں میں موجود ہونا چاہیے۔ وہ بھی قوم کے سامنے رقم حاصل کرنے کا ثبوت رکھ سکتے ہیں۔ وزیر ِاعظم نے2011ء میں اپنے بیٹے حسن نواز سے مبلغ 129,836,905 روپے کا تحفہ وصول کیا۔ وہ بھی اس بات کا ثبوت پیش کرسکتے ہیں کہ یہ پیسہ کسی آف شور کمپنی کے اکائونٹ سے نہیں آیا اور اس کا انکشاف اُن کے بیٹے نے اپنے ٹیکس گوشوارے میں برطانیہ میں داخل کردیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی ویب سائٹ سے تمام ارکان ِ پارلیمنٹ اور سینیٹ کے گوشوارے ہٹا دیے تھے جو آئین کی دفعہ 19Aکی خلاف وزری تھا۔ اب اسحاق ڈار صاحب اور وزیر اعظم کے احکامات پر اُن کو دوبارہ ڈال دیا گیا ہے۔ ایسی حرکتیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ حکومت ِوقت اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے ریاستی اداروں کو حقائق چھپانے کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔ سیاسی مخالفین کے علاوہ عوام بھی اس روش کی وجہ سے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حکومت کا بنایا ہوا کمیشن بھی حقائق سے پردہ اٹھانے کی بجائے وزیر ِاعظم کو بری الذمہ قرار دے گا۔ ایک طرف تو وزیر ِاعظم اور اُن کے اہل ِخانہ، جن کے نام پاناما پیپرز میں آئے ہیں، غلط بیانی کر رہے ہیں تو دوسری طرف اگر بے گناہی کے ثبوت موجود ہیں تو وزیر ِاعظم اُن کو خود پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے گریزاں ہیں۔ جس ملک میں وہ علاج کے لیے تشریف لے گئے تھے، وہاں کے وزیر ِاعظم نے از خود تمام حقائق پارلیمنٹ میں پیش کیے اور ارکان کے تیز و تند سوالات کا جواب بھی دیا۔ کیا ہمارے وزیر ِاعظم کو کوئی خاص استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ ایسا نہیں کررہے، یاپھر جیسا کہ ناقدین کا الزام ہے، اُن کے پاس اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت موجود نہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور تمام پاکستانیوں کی نگاہیں اس کے جواب کی منتظر ہیں۔ محترم چیف جسٹس آف پاکستان کو جو قواعد (Terms of References) بھیجے گئے ہیں وہ تمام اپوزیشن جماعتیں اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن مسترد کر چکی ہیں۔ اِن حالات میں وزیر اعظم کو اسمبلی میں آکر تمام ثبوت فراہم کرنے ہوں گے کیونکہ عدلیہ ہرگز اِس معاملے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے گی اور اُسے غیر ضروری تنقید کا سامنا بھی ہوگا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو حکومت کے خط کا نفی میں جواب دینا چاہیے۔
سیاسی اکھاڑے میں دنگل بازی اور کمیشن بنانے جیسے اقدامات پر اعتراضات حکومت کے لیے باعث اطمینان ہیں۔ اس کے ذریعے وہ اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر اب بحث اس بات پر نہیں ہو رہی ہے کہ وزیر ِاعظم اور ان کے اہل ِخانہ کو اپنے دعووں کے لیے ثبوت فراہم کرنے چاہئیں، بلکہ کمیشن یا انکوائری کیسے ہو، کمیشن کا سربراہ اور ممبران کون ہوں، طریق ِ کار اور استحقاق کیا ہو، تفتیش کیسے کی جائے اور بیرون ِ ملک آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ کیسے حاصل کیا جائے؟ پر بحث ہو رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اصل معاملے کو متنازع بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے ۔ ثبوت تو وزیر ِاعظم کے بچوں اور خود وزیر ِاعظم نے فراہم کرنے تھے کیونکہ پاناما پیپرز میں اُن کا نام آیا ہے، لیکن اس کی بجائے وہ دوسروں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ عدالت یا کمیشن کے سامنے الزامات ثابت کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان پر الزام تو کسی نے بھی نہیں لگایا اور نہ ہی حسین نواز، حسن نواز اور مریم صفدر نے اُن اداروں کو نوٹس بھجوائے ہیں جنھوں نے یہ انکشافات کیے، بلکہ وہ خود بھی لندن کی پراپرٹی اور سمندر پار کمپنیوں کی ملکیت مان چکے ہیں۔ سوال محض اتنا ہے کہ ذرائع جن سے پراپرٹی خریدی گئی تھی کیا وہ جائزتھے اور کیا ان کے پاس ثبوت موجود ہیں؟ ان ثبوتوں کو پیش نہ کرنے میں کیا مصلحت ہے؟ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے لے کر سیاسی پنڈت، سب اس معاملے کی انکوائری کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ معاملہ صرف اتنا ہے کہ ایک شخص کہہ رہا ہے کہ وہ اس مال کا مالک ہے، لیکن ملکیت کا ثبوت فراہم کرنے سے قاصر ہے کہ یہ مال چوری کا نہیں۔ 
دراصل پاکستانی سیاسی طبقہ ہر معاملے کو الجھانے اور اس پر سیاست چمکانے کا اتنا عادی ہوچکا ہے کہ اب ٹھوس حقائق کی موجودگی میں بھی سراب کا متلاشی ہے۔ایسی قوموں میں اپنی کوتاہیوں سے صرف ِ نظر کرنا توکوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ بدعنوانی اور ٹیکس چوری کو ختم کرنا تو درکنار، حکمران تو اس کے اعتراف سے بھی گریزاں ہیں۔ دوسری طرف دانشور اور صحافی محض اپنی دکانیں چمکانے میں مصروف ہیں اور اس دوران عوام متحیر و پریشان۔ یہ ہے آج کا پاکستان۔ اللہ ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کا حوصلہ اور ہمت عطا کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں