عوام دوست بجٹ کیسا ہو؟

ایک دوست نے پوچھاکہ وفاقی اور صوبائی سطح پر عوام دوست بجٹ کے خدوخال کیا ہونے چاہییں۔ اس پر میرا جواب بہت سادہ ہے کہ ایسے بجٹ کو عوام دوست کہا جاسکتا ہے جو معاشرے کے تمام معاشی طبقات کے ساتھ منصفانہ سلوک روا رکھے۔ ایسے بجٹ اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ عوام غربت کی دلدل میں نہ دھنسے رہیں۔ چنانچہ اُن کا فوکس عوام کی فلاح کرنا ، معاشی طور پر پسماند ہ رہ جانے والوں کی ترقی کے لیے پروگرام بنانااور اُن کے معاشی مسائل دور کرنا ہوتا ہے ۔ایسے بجٹ بے پناہ معاشی وسائل رکھنے والی اشرافیہ پر بھاری ٹیکس عائد کرکے اُن کی دولت کو معاشرے میں تقسیم کرتے ہوئے اُن کی ناراضی مول لینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ تاہم ہمارے ہاں ایسی مثالی صورت ِحال دکھائی نہیں دیتی۔ ہمارے تمام بجٹ ، بشمول اگلے مالی سال کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر پیش کیا جانے والا بجٹ ، خوشحال طبقے کی فلاح کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ بجٹ ''امیروں کے، امیروں کے لیے اور امیروں کی طرف سے بنائے گئے ہوتے ہیں۔‘‘انہیں غریب عوام کی بہتری سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ 
ہر سال وفاقی اور صوبائی بجٹوں کی تقاریر سننے کے بعد زیادہ تر پاکستانیوں کاپہلا رد ِعمل یہی ہوتا ہے کہ ''اس میں غریبوں کے لیے کوئی ریلیف نہیں۔‘‘ہرسال کم آمدنی والی گروہوںپر ٹیکس کا بوجھ بڑھا دیا جاتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ بظاہر ٹیکس کے نرخ نہ بڑھتے دکھائی دیں لیکن عام آدمی کی قوت ِ خرید کم ہوتی جارہی ہے ۔اُنہیں اپنے بچوں کی تعلیم اور صحت کے لیے رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ حکومت بڑی صفائی سے آئین کے آرٹیکل 25A کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان سہولیات کی ذمہ داری نہیں اٹھاتی، اور خود پر کوئی الزام بھی نہیں آنے دیتی۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے نام پر لگائے جانے والے زیادہ سے زیادہ بالواسطہ ٹیکسز کا حتمی بوجھ غریب اور متوسط طبقے کو ہی اٹھانا پڑتا ہے جبکہ دولت مند اور طاقتور طبقہ بھاری وسائل جمع کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔ وفاقی سطح پر دولت مندطبقات کے لیے ٹیکس سے چھوٹ کے لیے مستقل طور پر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 111(4) کی صورت ایک آسان راستہ کھلا ہوا ہے ۔ وہ اس کا بے دھڑک فائدہ اٹھا کر ٹیکسز سے بچ نکلتے ہیں۔ 
نادرا کے شناخت کردہ انتہائی دولت مند خاندان ٹیکس چوری کرتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے ہماری مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل بیٹھ کر ہر قسم کی آمدنی، جس میں زرعی پیدا وار بھی شامل ہے، پر ٹیکس لگانے اور اسے ایک سنگل ایجنسی کے ذریعے اکٹھا کرنے کے اقدامات اٹھانے کے لیے تیار نہیں، حالانکہ وہ جتنا زیادہ ٹیکس جمع کریں گے، این ایف سی ایوارڈ کے تحت اُنہیں اتناہی بڑا حصہ ملے گا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کسی بھی حکومت کی طرف سے قومی ٹیکس پالیسی وضع کرنے اور معاشی نموکی حوصلہ افزائی کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں کی گئی ۔ جس واحد پہلو پر زور دیا گیا، وہ غیر حقیقی طریقے سے محصولات کا ہدف پورا کرنا، اور اس مقصد کے لیے معاشرے کے کمزور طبقات کو زیر ِبار لانا تھا۔ اس ضمن میں سب سے تباہ کن بات محصولات میں اضافے کے لیے مقرر کردہ سیلز ٹیکس کے نرخ ہیں جو سترہ سے پچاس فیصد تک ہیں۔ سروسز پر ہوشربا ٹیکسز کی وجہ سے نہ صرف صنعت کے شعبے کو نقصان پہنچ رہاہے بلکہ ملازمت کے مواقع پیدا کرنابھی مشکل ہوچکا ہے ۔ لگاتار کئی حکومتیں ٹیکس بیس میں اضافہ کرنے، کالے دھن کو ٹیکس کے دائرے میں لانے، عوامی فنڈز کو درست طریقے سے خرچ کرنے اور سماجی معاشی عدم توازن کاخاتمہ کرنے میں ناکام رہی ہیں،چنانچہ پاکستان ایک ''قرض کی جیل ‘‘بن چکا ہے جس سے عوام کی رہائی ناممکن دکھائی دیتی ہے ۔ 
تاہم مایوسی گناہ ہے، ہم ابھی بھی اس جیل سے باہر آسکتے ہیں بشرطیکہ اس کی قیادت عملی اصلاحات نافذ کرتے ہوئے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کا عزم کرلے ، ایک ایسی فلاحی ریاست ، جس میں سب کے لیے سماجی اور معاشی انصاف کے امکانات موجود ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایسی پالیسیاں وضع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جو عوام کو معاشی انصاف فراہم کرتے ہوئے ان کی ترقی میںمعاون ثابت ہوں۔ ہمارے ملک میں تعلیم کا فروغ کبھی بھی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی ، حالانکہ Nordic Countries (شمالی یورپ کے ممالک) کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اُن کی ترقی کے پیچھے واحد عامل تعلیم ہی تھی۔ تاہم ہمارے بجٹ ساز سماجی ترقی ، معاشی انصاف اور سماجی مساوات کے خود بھی قائل نہیں، وہ ان کی ترویج کے لیے پالیسیاں کیوں بنائیںگے ۔ یکساں نظام تعلیم کا کوئی منصوبہ حکومت کے زیر ِ غور نہیں، اور نہ ہی غریب اور ترقی سے محروم افراد کو تعلیم کے زیور سے مالا مال کرکے اُن کی حالت بدلنے کی خواہش حکمرانوں کے دل میں جنم لیتی دکھائی دیتی ہے ۔ اس وقت پاکستان میں نہ صرف تعلیم مہنگی ، بلکہ انتہائی نفع بخش کاروبار بھی بن چکی ہے ، اس کے باوجود اس کا معیار انتہائی پست ہے ۔ ہمارا تعلیمی نظام موجودہ زمانے کے لیے چیلنجز اور ترقی کے مواقع پیدا کرنے کے قابل نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیم پر رقم خرچ کرکے اس کے معاملات بہتر بنانے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کو شاید اس بات کا مطلق احساس نہیں، اور اگر ہے تو مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کرتے ہیں کہ غریب افراد کے بچوں کے پاس تعلیم کے سوا آگے بڑھنے اور غربت کی دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، لیکن یا تو اُنہیں تعلیم کی سہولیات میسر نہیں، اور اگر کسی نہ کسی سطح پر میسر ہیں تو اُن کا معیار انتہائی ناقص ہے ۔ 
وفاقی اور صوبائی بجٹ کھاتے درست کرنے کی خانہ پری کاہی نام ہیں، اس سے آگے بڑھ کر اُن کے پیش نظر اور کوئی مقصدنہیں ہوتا۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کا از سرِ نوجائزہ لے کر دیکھے کہ معاشی طور پر پسماندہ افراد کا معیار ِ زندگی کس طرح بلند کیا جاسکتا ہے ۔ فی الحال امسال بھی ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایسے اقدامات پر غور کرنا چاہیے جن کے ذریعے ٹیکس کے نظام میں اصلاح اور شرح ِ نمو میں اضافہ کیا جائے ۔ اس کے لیے ٹیکس کوڈ میں موجودہ رکاوٹوں، ابہام اورمشکل طریق ِ کار کو درست کرنا ضروری ہے ۔ پاکستان کو ہرسال پندرہ سے پچیس لاکھ افراد کے لیے ملازمت کے نئے مواقع پید اکرنے کے لیے کم از کم آٹھ فیصد شر ح ِ نمو کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔ فی الحال موجودہ ٹیکس کا نظام معاشی شرح ِ نمو کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ۔ ہمیں اس کی بجائے سادہ اور ہموار نرخ رکھنے والے ٹیکس کوڈ کی ضرورت ہے۔ اگر اسے سادہ بنادیا جائے اور اس کے نرخ کم کر دیے جائیں تو ٹیکس چوری کا محرک باقی نہیں رہے گا۔ اس سے بھی ضروری ہے کہ عوام سے حاصل کردہ رقم پارلیمنٹ کے ذریعے عوام پر ہی خرچ ہو۔ یہ رقم رہنما کی مرضی اور خبط کو تسکین دینے کے لیے بنائے گئے منصوبوں کے لیے نہیں ہوتی ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں