ناکام ٹیکس ماڈلز کی راہ پرگامزن

مالی سال 2016-17ء کے بجٹ کے اعلان کے بعد یہ بات ایک مرتبہ پھر کم و بیش طے ہو گئی کہ ہمارے بجٹ ساز، چاہے اُن کا تعلق کسی بھی حکومت سے ہو، ناکام معاشی ماڈلز کی پیروی کرتے ہیں۔ 1962ء سے لے کر اب تک قائم ہونے والی ہماری حکومتیں غریب عوام کو نظر انداز کرکے دولت مند اور طاقتور افراد کو نوازنے کی پالیسی پر گامزن رہیں۔ 2016-17 ء کے بجٹ سے بھی اسی پالیسی کے تسلسل کی جھلک ملتی ہے۔ یہ انسانی مساوات اور فلاح کے اُس تصور کو نظر انداز کرتا ہے‘ جو انتہائی دولت اور انتہائی خوشحالی کی مذمت کرتا ہے۔ معاشی ترقی اور شرح نمو میں اضافہ سماجی انصاف کی فراہمی اور طبقاتی انشقاق کی روک تھام کے لیے ضروری ہے؛ تاہم ہمارے فنانس منسٹر نے مارکیٹ کے اتار چڑھائو سے مرتعش ہونے والے غیر یقینی پن کو معاشی ماڈل کے طور پر لیا ہے۔ زرعی شعبے کی پیداوار میں ہونے والی تنزلی سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ کسان اور بے زمین مزارع موجودہ حکومت کی جابرانہ معاشی پالیسیوں کا اولین شکار ہیں۔ 
تین جون 2016ء کو بجٹ کی تقریر سننے کے بعد زیادہ تر ماہرین نے اسے ''حسب معمول کھاتے درست کرنے کی کارروائی‘‘ قرار دیا۔ حکومت کی طرف سے پیش کردہ اعداد و شمار سے یہ بات بلاشبہ ثابت ہوتی ہے کہ بے مثال قائد، محمد نواز شریف اور اُن کے معاشی جادوگر، فنانس منسٹر، اسحاق ڈار کی قیادت میں ''غیر معمولی معاشی انڈی کیٹرز‘‘ کو پیش کرنے پر زیادہ زور گیا ہے۔ فنانس منسٹر کا کہنا تھا۔۔۔ ''ہم مطلوبہ معاشی موڑ تک پہنچ چکے ہیں‘‘ تاہم حقیقت کچھ اور ہے۔ مثال کے طور پر حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقت گزشتہ دو عشروں کے درمیان مہنگائی کی شرح کم ترین ہے۔ دوسری طرف غریب اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہونے والے بلا روک ٹوک اضافے نے اُن کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ انتہائی دولت اور انتہائی غربت کے فزوں تر رجحان کی وجہ سے درمیانی طبقہ تیزی سے غربت کی لکیر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس وقت غربت کی لکیر تلے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد ساٹھ ملین سے کم نہیں؛ چنانچہ 2016-17ء کا بجٹ اشرافیہ کی طرز فکر کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں معاشی ہمواری کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ محترم اسحاق ڈار کی ''معاشی نمو‘‘ کی تعریف میں پاکستان کے غریب عوام کا کوئی حوالہ یا حصہ نہیں۔ کافی عرصے سے ملک میں مردم شماری ہوئی ہی نہیں، اس کے باوجود فنانس منسٹر اپنی مافوق الفطرت طاقتوں سے کام لے کر فی کس آمدنی کا حساب لگا لیتے ہیں۔ 
2016-17ء کا بجٹ پرانے طرز عمل کا تسلسل ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ وسائل سے بڑھ کر پُرتعیش زندگی بسر کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ وہ عام آدمی پر بوجھ ڈال کر اپنے لیے ترقی یافتہ ممالک جیسی سہولیات چاہتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ارکان نے بجٹ سے پہلے ہی اپنی تنخواہوں میں تین گنا اضافہ کر لیا۔ بھاری بھرکم افسر شاہی، جو کہ ناقص گورننس، بدعنوانی اور مس مینجمنٹ کی علامت ہے، کی تنخواہوں اور سہولیات میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ حکومت نے اپنے ہاتھ روکتے ہوئے غیر پیداواری اخراجات کو کم کرکے غریب عوام کی مشکلات کم کرنے کی مطلق کوشش نہیں کی۔ اس کی بجائے عوام پر مزید ٹیکسز لگا کر اشرافیہ کو عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ توقع کے مطابق محصولات کے بھاری بھرکم اعداد و شمار ظاہر کرنے کے لیے دو سو بلین روپے مالیت کے غیر متنازع ریفنڈز روکے گئے اور صوبوں سے تین سو پچپن بلین روپے کا اضافی کریڈٹ لیا گیا۔ اس طرح بجٹس کا خسارہ جی ڈی پی کا 4.3 فیصد دکھایا گیا۔ یہ دائو کھیلنے کے بعد محترم فنانس منسٹر نے اپنی تقریر میں دعویٰ کیا۔۔۔ ''معاشی شواہد ہماری کارکردگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ میں اﷲ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں کہ ہمیں چوتھی مرتبہ بجٹ پیش کرنے کا موقع ملا، اور ہمارا ہر بجٹ گزشتہ بجٹ سے بہتر تھا۔‘‘
مسٹر اسحاق ڈار نے یہ کھلا راز کریدنے کی زحمت نہیں کی کہ حکومت جون 2013ء کے بعد سے اب تک کتنا قرض لے چکی ہے؟ اُنھوں نے قوم کو یہ بات بھی نہیں بتائی کہ اب تک محصولات اور قرض کے درمیان شرح پانچ سو فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ہمیں ہر سال مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے اربوں روپے کا قرض لینا پڑتا ہے۔ ہر سال ہماری قرض واپس کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں فنانس منسٹر نے قوم کے سامنے کوئی وضاحت نہیں رکھی کہ حکمران اشرافیہ عالی شان محلوں میں ملازموں کی فوج ظفر موج کے ساتھ کیوں رہتی ہے؟ یہ اشرافیہ اپنی عیش و عشرت میں ذرہ برابر کمی لانے کے لیے تیار نہیں، حالانکہ ملک کے معاشی حالات انتہائی سنگینی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت بھاری آمدنیوں کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ حکومت اُن کی عیش و عشرت کی زندگی دیکھتے ہوئے بھی اُن سے ٹیکس وصول کیوں نہیں کرتی؟ یہ سوالات اب ہر شخص کے ذہن کو پریشان کرنے لگے ہیں۔ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ ان کے موجودہ اخراجات پر نظر ثانی کرکے اُن میں اضافہ کیا گیا، حالانکہ اُن میں آسانی سے کمی کی جا سکتی تھی۔ 2015-16ء کے اخراجات گزشتہ سال کے اخراجات سے 28 فیصد زیادہ تھے۔ اگرچہ ''پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام‘‘ کا حجم چھ سو بلین دکھایا گیا ہے، لیکن یہ بات واضح نہیں کہ اس میں سے کتنا استعمال ہو گا اور کتنا اجاڑ دیا جائے گا۔ 
اکنامک سروے 2016ء (باب 4، صفحہ 78) دعویٰ کرتا ہے۔۔۔ ''2013 کے بعد سے پاکستان نے معاشی استحکام بحالی کرنے کی طرف خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔ اس وقت پاکستانی معیشت ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے‘‘۔ ہمارے فنانس منسٹر کا بھی یہی زبانی دعویٰ ہوتا ہے، لیکن عوام سوال پوچھتے ہیں کہ یہ ترقی کی شاندار شاہراہ ہے کہاں؟ زراعت کے شعبے کی پیداوار زوال پذیر، پیداوار اور برآمدات کے تمام اہداف ناکام، تو کیا ترقی کی اس شاندار شاہراہ پر بھاری تنخواہ پانے والے افسران اور سیاست دان ہی گامزن ہیں؟ اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں؟خود وزیر اعظم صاحب بیرونی ممالک کے ریکارڈ، ساٹھ دورے کر چکے ہیں اور ان پر اس غریب قوم کے اربوں روپے صرف ہو چکے ہیں۔ شاید اسے ترقی کی علامت سمجھا جائے‘ اور تو اور صدر مملکت کا آفس، جس کی فعالیت محض علامتی ہے، کے لیے بھی نصف بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کیا قوم کے وسائل کے زیاں کے لیے مزید کسی ثبوت کی ضرورت ہے؟
غیر ملکی اور داخلی قرضوں کے اعداد و شمار، اور لیے گئے نئے قرضہ جات کا حجم دیکھ کر دل کو ہول پڑتے ہیں کہ اس ستم زدہ قوم کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے؟ پہلے سے لیے گئے قرضے کی قسط کی ادائیگی اور غیر پیداواری اخراجات کے علاوہ ہمیں انسانی وسائل کی ترقی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے بھی رقم درکار ہے۔ ہماری معیشت کی کہانی کا خلاصہ یہی ہے؛ چنانچہ یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ بجٹ 2016-2017ء کھاتے پورے کرنے کی ایک اور روایتی مشق ہے۔ اس میں قومی ترقی اور خود انحصاری کی منزل حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس کے اعداد و شمار عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ مختصر یہ کہ اسے اشرافیہ کی طرف سے بنایا گیا شاہانہ بجٹ کہا جا سکتا ہے جس کا معاشی بوجھ غریب عوام نے برداشت کرنا ہے۔ فی الحال معیشت پر اشرافیہ کی اجاراداری کو توڑنا ممکن نہیں۔ ستم یہ ہے کسی سیاسی جماعت کا یہ ایجنڈا ہے بھی نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں