ٹیکس کے ہموار نرخوں کی ضرورت

یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ بھاری بھرکم اور سخت ٹیکسز، جو زیادہ تر بالواسطہ ہیں، کے باوجود پاکستان کونہ ختم ہونے والے مالیاتی خسارے اور قرض کے بھاری ہوتے ہوئے بوجھ کا سامنا ہے ۔عوامی قرضے کو کم کرنے کے لیے وسائل کو متحرک کرنے اور غیر ضروری اخراجات میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔اس وقت موجودہ حکومت دونوں کام کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ 2016-17 ء کے لیے طے کیا گیا ٹیکس کا حجم 3600 بلین روپے ہے جو حقیقی ٹیکس پوٹینشل سے بہت کم ہے۔ پاکستان کا حقیقی ٹیکس پوٹینشل 8000 بلین روپے سے کم نہیں ، لیکن یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے ٹیکس سسٹم کو مکمل اوورہال کرنے ، اس میں نت نئی اختراعات لانے اور معمول سے ہٹ کر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ 
ملک کو خود کفیل بنانے اور معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے ضرور ی ہے کہ پاکستان میں حقیقی ٹیکس پوٹینشل کو بروئے کار لایا جائے ۔مزید یہ کہ ٹیکس چوری ،اخراجات ، کابینہ کے حجم اورسرکاری اخراجات کوکم کرنے کے لیے علاوہ سرکاری کنٹرول میں چلنے والی کارپوریشنز کو نفع بخش بنانا ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے کو بہتر بنانا بھی معاشی ناہمواری کم کرنے کے لئے بھی لازمی ہے ۔ اب وقت آگیا کہ خاموش تماشائیوں کی طرح اپنی حکومت کی حماقتوں کو دیکھتے رہنے کی بجائے سول سوسائٹی ان جابرانہ ٹیکسز، عوام دشمن پالیسیوں اور وسائل کے زیاں کے خلاف مہم چلائے تاکہ پاکستان ایک فلاحی مملکت بن سکے ۔ پاکستان کو ہموار نرخوں والے ٹیکس کے نظام کے ذریعے ایک خوشحال اورترقی پسندریاست بنایا جاسکتا ہے ۔اس کا ماڈل پرائم انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ، www.primeinstitute.org ، پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ یہ پیپر سارے ٹیکس سسٹم کو نئے خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ٹیکس دہندگان کی رقم کے درست مصرف کی بھی بات کرتا ہے ۔ 
یہ پیپر موجودہ ٹیکس سسٹم کے ڈھانچے اور فعالیت میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا حل بھی تجویز کرتا ہے ۔یہ بنیادی اصلاحات ٹیکس سسٹم کا متبادل سامنے لائیں گی۔کسی موثر ٹیکس انتظامیہ کے بغیر ٹیکس اصلاحات کا نفاذ ممکن نہیں ہوگا۔ اس مقصد کے لیے ایک ٹیکس وصول کرنے والی ایک نئی ایجنسی، ''نیشنل ٹیکس اتھارٹی ‘‘(این ٹی اے) کا قیام عمل میںلایاجائے گا۔ این ٹی اے کو آئین کے آرٹیکل 142 کے ساتھ فورتھ شیڈول کے تمام ٹیکس وفاقی حکومت کے لیے جمع کرنے کا کام سونپ دیا جائے ۔ ایسا کرنے سے ٹیکس جمع کرنے والی مشینری کوبھاری بھرکم سٹاف سے نجات مل جائے گی۔ اس وقت وفاقی اور صوبائی سطح پر ٹیکس جمع کرنے والی مختلف ایجنسیاں نااہلی اور بدعنوانی کا گڑھ ہیں۔ اس وقت ٹیکس دہندگان کو مختلف ٹیکس ایجنسیوں سے نمٹنا پڑتا ہے۔ اس سے اُن کے بزنس کی لاگت بڑھ جاتی ہے ۔ چنانچہ شہریوں کو ٹیکس کے فرض کی ادائیگی کے لیے ایک خود کار، مشینی انداز میں کام کرنے والی باصلاحیت ٹیکس ایجنسی کی ضرورت ہے جہاں تمام امور ون ونڈو آپریشن کے تحت سرانجام پاسکیں۔ ٹیکس سے متعلق فوائد کا نہ ملنا بھی ٹیکس کے حصول میں ایک رکاوٹ ہے ۔
چار تہیں رکھنے والا موجودہ ٹیکس کا نظام کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوچکا ہے ۔ اس سے شہریوں کی شکایات سے اس کی کارکردگی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ٹیکس دہندگان کو غیر منصفانہ ٹیکسز سے بچائو کا کوئی راستہ حاصل نہیں۔ ریونیو حکام بھی ٹیکس اپلیٹ سسٹم سے ناخوش ہیں کیونکہ ٹیکس تنازعات کا فیصلہ ہونے میں کئی 
سال گزرجاتے ہیں۔ چنانچہ اپلیٹ سسٹم کو زیادہ فعال بنانے کے لیے براہ ِ راست اور بالواسطہ ٹیکسز سے ڈیل کرنے والے ٹربیونلز کو نئی جہت دی جائے۔ مذکورہ پیپر دو تہوںوالا ٹیکس اپلیٹ سسٹم تجویز کرتا ہے جہاں پہلے اپیل نیشنل ٹیکس ٹربیونل کے پاس جائے گی، جبکہ سائل کو انٹرا کورٹ میں ایک اور اپیل کا حق بھی حاصل ہوگا۔ اس کے بعد اگر قانون کے بارے میں کوئی ٹھوس سوال موجود ہو، تو اس کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے ۔ اس نظا م کے تحت ہونے والے فیصلوں میں ہم آہنگی ہوگی، کیونکہ موجودہ نظام کے تحت چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس کے سامنے کی گئی ایک جیسے کیسز کی ایک جیسی اپیلوں کے مختلف فیصلے ہوتے ہیں۔ دو تہوں والا جسٹس سسٹم ٹیکس تنازعات کو ایک سال سے بھی کم وقت میں نمٹاسکتا ہے ۔ 
اس وقت انکم ٹیکسیشن انتہائی پیچیدہ اور غیر منظم ہے ۔ آمدنی کے مختلف ذرائع پر ایک اور کلاسیکل ٹیکسیشن ہے ، جبکہ ترسیلات پر ٹیکسز اس کے علاوہ ہیں۔ مزید یہ کہ presumptive اور کم ازکم ٹیکسز بھی ذاتی انکم ٹیکس کے اندر شامل کیے گئے ہیں۔ پیپر تجویز کرتا ہے کہ کمپنیوں کے علاوہ دیگر تمام افراد سے دس فیصد نرخوں کے ساتھ ٹیکس وصول کیا جائے ۔ کمپنیوں کے لیے اس کا نرخ بیس فیصد ہو۔ اشیا پر سیلز ٹیکس لگانے کاحق وفاقی حکومت ،جبکہ سروسز پر سیلز ٹیکس کا حق صوبائی حکومتوں کا ہے ۔ اس وقت وفاقی سیلز ٹیکس کے انتہائی ناہموار نرخ ہیں، جو کہ 17 فیصد سے لے کر 70 فیصد تک ہیں۔ یہی حال صوبائی ٹیکس کوڈ کا ہے جس کا تعلق ٹیلی کمیونی کیشن سروسز سے ہے ۔ اس کے نرخ انیس فیصد ہیں۔ ایڈوانس چودہ فیصد انکم ٹیکس اس کے علاوہ ہے ۔ 
اس قسم کی نقصان دہ ٹیکسیشن پیداواری عمل اور سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے ۔ پیپر یک مرحلہ جاتی سیلز ٹیکس کو تجویز کرتا ہے ۔ اس کے نرخ وفاقی سطح پر پانچ فیصد ہیں، اور کسی چیز کو اس سے استثنیٰ حاصل نہ ہو۔ تاہم جان بچانے والی ادویات، کتابیں، بچوں کے کپڑے اور تعلیمی آلات کو سیلز ٹیکس سے قطعی مستثنیٰ قرار دے دیا جائے ۔ کسٹم ایکٹ 1969 ء کے تحت اُن چیزوں کو استثنیٰ حاصل ہے جو پاکستان میں ایس آر او کے تحت درآمدکی جائیں۔ اس کے لیے 5,000 ٹریف لائنز ہیں۔ اُس وقت تک معاشی خوشحالی اور سماجی سکون کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک ٹیکسیشن کے نظام کو اوور ہال نہیں کیا جاتا،اور حاصل شدہ رقوم کو چکاچوندبے کار منصوبوں کی بجائے عوام کی صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی، ہائوسنگ اور دیگر سہولیات پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں