پاک چین معاشی راہداری، ایک تاریخ ساز موقع

1947 ء سے ہی پاکستان معاشی طور پر خود کفیل ہونے کی کوشش کررہا ہے تاکہ اس کو عطیات فراہم کرنے والے غیرملکی اداروں اور ان کی سیاسی غلامی سے نجات مل سکے ۔ اس وقت معاشی محاذ پر درپیش چیلنج یہ ہے کہ اس کی معاشی پالیسی صرف اشرافیہ کو نوازنے کا ہی تسلسل ہے ۔ اس پالیسی کی وجہ سے دولت مند مزید امیر اور غریب طبقے مزید غریب ہوتے جارہے ہیں۔ اس کا مظہر سست معاشی نمو کی شرح، ہنر مند افرادی قوت کی کمی، کم ہوتی ہوئی برآمدات، پھیلتا ہو شاپنگ بل، ناکافی انفراسٹرکچراور بہت سے دیگر منفی خدوخال ہیں۔ حال ہی میںپاک چین معاشی راہداری کی صورت میں معاشی ترقی کی امید بندھی ۔ اس منصوبے کو گیم چینجر قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ آنے والے برسوں میں پاکستانی معیشت بے پناہ ترقی کرے گی۔ 
پاک چین معاشی راہداری یا سی پیک، گوارد سے چین کے مغربی علاقوں تک 2,000 کلو میٹر طویل روڈ اور ریل لنک ہے۔ یہ راہداری بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں انفراسٹرکچر تعمیر کرے گی، ایسا انفراسٹرکچر جو پہلے برطانوی سرکار اور بعد میں کچھ پاکستانی حکومتوں ، نے کسی حد تک پنجاب اور سندھ میں تعمیر کیا تھا۔ اگلے چند ایک برسوں تک 3,218 کلو میٹر طویل روٹ مغربی چین کے سنکیانگ علاقے کو گوادر کے ساتھ ملا دے گا۔ اس وقت تک چین کی تیل کی کم و بیش اسّی فیصد ضروریات آ بنائے ملاکا سے پوری ہوتی ہیں، اور اس کے لیے سولہ ہزار کلو میٹر سے زائد کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے ۔ یہ فاصلہ دویا تین ماہ میں طے ہوتا ہے ۔ تاہم گوادربندرگاہ فعال ہونے اور راہداری تعمیر ہونے کے بعد یہ فاصلہ سمٹ کرصرف پانچ ہزار کلو میٹر رہ جائے گا۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک پاکستان کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنا اشرافیہ کے مفاد کے گرد گھومنے والا معاشی ڈھانچہ توڑ کر تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معاشی طاقت بن جائے ۔ معاشی ترقی کا ایک نیادور ہماری دہلیز پر دستک دے رہا ہے ۔ تاہم اس تاریخی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے سسٹم کو اوور ہال اور اپ گریڈ کرنا ہوگا۔ اس وقت ملک کو درکار غیر ملکی سرمایہ کاری صرف چین کی طرف سے ہی آرہی ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے ، اور اسے تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ تاہم اس سرمایہ کاری کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کے لیے پلاننگ کی ضرورت ہے ۔ فی الحال تو سی پیک سے وابستہ منصوبوں کا کوئی تصور ہمارے ذہن میں نہیں اور نہ ہی عوام کو بتانے کی زحمت کی جاری ہے۔ تاہم ایک مرتبہ جب راہداری تعمیر ہوجائے گی تو وہ منصوبے بھی عملی شکل میں سامنے آجائیں گے ۔ دعویٰ ہے ، اور ہمیں تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں، کہ وہ منصوبے پاکستان کو دنیا کی صف ِ اوّل کی معاشی قوتوں کی صف میں کھڑا کردیں گے ۔ 
اس وقت معاشی راہداری کے حوالے سے ہمارے سامنے وفاقی اور صوبائی سطح پر سیاسی انتظامیہ کی نااہلی اور کوتاہی کا تاثر موجود ہے ۔ اس کوتاہی کو دُور کرنا اگر ناممکن نہیں تو بھی کوئی آسان کام نہ ہوگا۔ سی پیک ایک میگا پراجیکٹ ہے، اور اس کے ذریعے سرکاری اور نجی شعبے کو ایک فاسٹ ٹریک پر کام کرنا ہے ۔ اگر یہ منصوبہ ہمارے سرکاری شعبے کو فعال اور تیز رفتار بنادیتا ہے تو یہ بذات ِ خود ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ ہمارا سرکاری شعبہ نااہلی، سستی اور کام چوری کی مثال ہے ، لیکن اب دنیا کے بہترین اداروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس کا پوٹینشل ، اگر کوئی تھا، نکھر کر سامنے آنا چاہیے ۔ہماری معاشی ترقی کا دائرہ بھی پھیلنا چاہیے ۔ فی الحال زیادہ تر وسائل پر چند ایک خاندانوں ، جن کا تعلق سیاست سے ہے ، کا تسلط ہے ۔ معاشی راہداری تعمیر کرتے ہوئے ہمیں سیاست اور کاروبارکے ناپاک تعلق کو توڑنا ہے ۔ہم نوے کی دہائی سے دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ بااثر سیاست دان بنکوں سے بھاری قرضے لے کر ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ بہت سے اوسط درجے کے تاجر سیاست کے کوچے میں قدم رکھنے کے بعد ہوشربا اثاثوں کے مالک بن گئے ۔ دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کی وجہ سے ملک میں ملازمتوں کے مواقع کم ہوتے گئے اور جرائم اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوگیا۔ 
پاک چین معاشی راہداری میں سرمایہ کاری کے متوقع حجم کو دیکھتے ہوئے تمام کریڈٹ ریٹنگ بتانے والی ایجنسیاں پاکستان کے بارے میں مثبت تبصرے کررہی ہیں۔ سی پیک میں 21 کے قریب منصوبے گیس، کوئلے اورشمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے ہیں، اور خیال ہے کہ ان میں سے چودہ 2018 ء تک تکمیل کے مراحل طے کرتے ہوئے 10,400 میگا واٹ بجلی پیدا کریں گے ۔ اس وقت پاکستان کو چارہزار سے زائد میگا واٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔ چین کے چین کے ایک روزنامے کے مطابق ان منصوبوں سے 16,400 میگا واٹ بجلی پیدا ہونی چاہیے۔ اگر ہمارے سسٹم میں اتنی بجلی آ جاتی ہے تو یہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار کے لیے بہت بڑی تحریک ہو گی۔ 
سی پیک کا اس تمام خطے کو فائدہ ہوگا، جنوبی ایشیا میں تجارت بڑھے گی، بیرونی دنیا پر سے انحصار کم ہوگا۔ ذرا تصور کریں کہ جب سڑکوں کے کنارے انڈسٹریل زون بنیں گے، سینکڑوں صنعتیں لگیں گی، بجلی کی کوئی کمی نہیںہوگی، افغانستان میں امن اور خوشحالی آئے گی، سیاحت کی صنعت کو فروغ ملے گا، دنیا ہماری جانب متوجہ ہوگی۔ اس دوران رقابت میں الجھنے کی بجائے ایران اور افغانستان بھی سی پیک سے استفادہ کریں، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی ایشیا کی تقدیر بدل جائے گی۔ اس کے ذریعے باہمی محبت اور اعتماد بڑھے گا۔ اس لیے یہ حکومت ِ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلے۔ 
پاکستان کے معاشی ترقی کی طلوع ہونے والی صبح زیادہ دور نہیں۔ ہمیں تمام شہریوں کو اعتماد دینا ہے کہ مایوسی کی رات چھٹنے والی ہے، جو ہوچکا ہے ، بس گزر گیا، اب ایک نیادور ہمارے سامنے ہے۔ ہم پورے اعتماد کے ساتھ ایک قوم کے طور پر اس میں قدم رکھنے والے ہیں۔ سی پیک کسی ایک صوبے کا منصوبہ نہیں، اس سے تمام پاکستانیوں کو فائدہ ہوگا۔ بڑھنے والی معاشی ترقی کسی ایک جیب بھاری نہیں کرے گی۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو عشروں بعد سامنے آنے والا ایسا موقع ضائع چلا جائے گا۔ چینی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کے لیے سماجی ہم آہنگی لازمی ہے ۔ ہمیں انصاف، خلوص اور ہم آہنگی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ کسی کو بداعتمادی نہ ہو۔اگر ہم یہ ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو دشمن جتنی چاہے چالیں چل لے، وہ کچھ نہیں کرپائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں