نااہلیت کے مقدمے اور ڈاکو راج

ٹیکس چوری اور اثاثے چھپانے کے الزام میں سیاست دانوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف ریفرنسز فائل ہو رہے ہیں اور اس طرح پاکستان کے شہریوں کے سامنے ان کے منتخب نمائندوں اور سیاسی رہنمائوں کے اصل رویے بے نقاب ہو رہے ہیں۔ پاکستانیوں کو پتہ چل رہا ہے کہ ان کے قانون ساز خود قانون کا کتنا احترام کرتے ہیں۔ وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے ہیں کہ پروٹیکشن آف اکنامک ریفارم ایکٹ 1992ء اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کا سیکشن 111(4)‘ دونوں ابھی تک منی لانڈرنگ کرنے والوں اور ٹیکس چوروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ وہ ان پرویژنز پر سوال اٹھا رہے ہیں کیونکہ یہ پرویژنز غیر قانونی دولت اور پاکستانی بینکوں کے ذریعے بیرونی دنیا سے منگوائے گئے کالے دھن کے حوالے سے کسی قسم کی باز پرس کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ارباب سیاست کے مالی معاملات دیکھتے ہوئے پاکستانی شہری یہ جان کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ سیاست دانوں کا تعلق چاہے کسی بھی جماعت سے ہو، وہ ٹیکسز ادا کرنے کا نہایت افسوسناک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ بعض انتہائی پُرتعیش زندگی بسر کرنے والے رہنما برائے نام ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ان کی عالی شان رہائش گاہیں، مہنگی گاڑیاں، غیر ملکی سفر اور دیگر تعیشات اپنی جگہ، لیکن ادا کردہ ٹیکس ظاہر کرتا ہے کہ وہ ''کم تنخواہ پر گزارہ‘‘ کرنے والے ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی تنخواہ دار طبقہ ریاست کا بوجھ اٹھا ہوئے، زندگی کی تمام سہولیات سے محروم ہے۔ 
سنٹر فار انویسٹی گیٹیو رپورٹنگ ان پاکستان (CIRP) نے اپنی رپورٹس Taxation by Misrepresentation' (2012)، اور Representation without Taxation، میں ظاہر کیا ہے کہ کس طرح منتخب نمائندے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ انکم ٹیکس قوانین پامال کر رہے ہیں، لیکن آج تک ان کے خلاف ایف بی آر یا نیب کارروائی کرتا دکھائی نہیں دیا۔ CIRP کا حوالہ دیتے ہوئے سنڈے ٹیلی گراف نے پانچ مئی 2013ء کو ایک سوال اٹھایا تھا کہ پاکستان میں کس طرح منتخب نمائندے ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی قانون متحرک دکھائی نہیں دیتا ہے۔ قومی احتساب آرڈیننس 1999ء کا سیکشن 5(m) جن کو عوامی عہدیدار قرار دیتا ہے‘ ان میں تمام موجودہ اور سابق صدور، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، وزیر اعظم، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سپیکرز، وفاقی اور صوبائی وزرا‘ مشیر، معاونینِ خصوصی، سیاسی سیکرٹریز، ارکان اسمبلی اور آڈیٹر جنرل شامل ہیں۔ 
ٹیکس سسٹم کسی بھی جمہوری نظام کا بنیادی عنصر ہوتا ہے۔ اگر عوامی عہدیدار ہی ٹیکس ادا نہ کریں تو نہ صرف سارا نظام اپنی ساکھ کھو دے گا بلکہ منتخب ارکان عوام کی نمائندگی کرنے کا حق بھی کھو بیٹھیں گے ۔ یقیناً نمائندگی کے بغیر ٹیکسیشن نہیں ہو سکتی۔ ہمارے آئین کا آرٹیکل 77 کہتا ہے کہ وفاق کوئی ٹیکس نہیں عائد کر سکتا‘ سوائے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے۔ گویا ٹیکس لگانے کے لیے پارلیمنٹ کی اتھارٹی ضروری ہے۔ یہ دنیا بھر میں جمہوریت کا قابل قبول اصول ہے کہ شفافیت اور احتساب کے بغیر جمہوریت ادھوری ہے۔ تمام شہریوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے ٹیکسز ادا کریں۔ جو ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو ان کے خلاف قانون حرکت میں آئے، چاہے اُن کی معاشرے میں کتنی ہی بڑی حیثیت کیوں نہ ہو۔ لیکن اگر قانون ساز اور عوامی نمائندے خود ہی قانون کی پامالی کریں اور ٹیکس چوری کے مرتکب پائے جائیں تو اُنہیں عام شہریوں سے زیادہ سخت سزا ملنی چاہیے کیونکہ وہ عوامی وسائل کے نگہبان ہوتے ہیں۔
پاکستان میں احتساب کا عمل اثاثے ظاہر کرنے اور سیاست دانوں اور سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ادا کردہ ٹیکسز سے شروع ہونا چاہیے۔ سول سوسائٹی، میڈیا اور عام شہریوں کو پارلیمنٹ کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ ٹیکس چوری میں ''سہولت کار‘‘ کا کردار کرنے والے تمام قوانین کو ختم کرے۔ اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 19A کے تحت ہر شہری کو معلومات تک رسائی دی جائے۔ دنیا بھر میں عوامی نمائندوں کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہوتی ہے۔ عام شہری کی نجی زندگی ہوتی ہے، عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والوں کی نہیں۔ ہمارے ہاں یہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں قانون ان مقدس اشرافیہ کو چھو بھی نہیں سکتا، لیکن عام شہری معمولی سی بات پر پکڑا جاتا ہے۔ 
الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے لڑی جانے والی قانونی جنگ کے نتیجے میں ہمارا سیاسی گند صاف ہونے کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ اس کے بغیر جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور ادارے بے معانی ہیں۔ جس دوران سکیورٹی ادارے انتہا پسندی کا خاتمہ کر رہے ہیں، سویلینز پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی صفوں سے ٹیکس چوری، بدعنوانی اور کالے دھن جیسے جرائم کا خاتمہ یقینی بنائیں۔ 
اگر عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں آنے والے افراد ملک کے ساتھ مخلص ہوتے تو وہ ملک کے پسماندہ علاقوں میں نئی صنعتیں لگانے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لیے ضروری اقدامات کرتے دکھائی دیتے۔ اس کی بجائے وہ اپنے مفاد کا تحفظ کرنے اور لوٹ مار سے حاصل کی گئی دولت کو قانون سے بچانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا مذکورہ سہولیات کی وجہ سے سماجی سطح پر کوئی طویل مدتی مثبت تبدیلیاں برپا ہوتی ہیں یا صرف ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے اور ٹیکس چوری کرنے کا رجحان فروغ پاتا ہے؟ یہ ایک سیدھی سادی معاشی حقیقت ہے کہ جب تک صنعتی شعبے میں پیداواری عمل نہیں بڑھے گا، سٹاک مارکیٹ میں توانائی دکھائی نہیں دے گی، مصنوعی ذرائع سے ایسا کرنے کی کوشش کا ہمیشہ فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوا ہے۔ 
چونکہ پاکستان میں خواص کے لیے ٹیکس کی چوری کوئی جرم نہیں، اس لیے کوئی سیاسی جماعت بھی ٹیکس چوروں کو اپنی صفوں سے نہیں نکالتی۔ عام طور پر سیاست دان دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے اثاثے ظاہر کر دیے ہیں لیکن وہ صرف اشک شوئی ہوتی ہے۔ ان کی طرف سے ادا کردہ ٹیکس وہ ہوتا ہے جو وہ ریاست اُنہیں مشاہرہ دیتے ہوئے ٹیکس کی رقم منہا کر لیتی ہے، لیکن وہ خود اپنے ذمہ واجب الادا محصولات کیسے اور کب ادا کرتے ہیں؟ ٹیکس ادا نہ کرنے والے صرف سیاست دان ہی اکیلے نہیں، بلکہ معاشرے کا ہر طاقت ور طبقہ ایسا کرتا ہے۔ درحقیقت قانون کی پیروی ہمارے ہاں کمزوری کے مترادف ہے اور ٹیکس ادا کرنے کے لیے قانون اور ریاست کا احترام ضروری ہے؛ چنانچہ ہمارے طاقت ور افراد خود کو ''کمزور‘‘ ثابت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اگر قانون ساز خود ہی قانون کا احترام نہ کریں تو وہ دوسروں پر قانون کی حکمرانی کیسے قائم کریں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں