لاہور ہائی کورٹ کے ایک سو پچاس سال

''ایک سو پچاسواں یوم تاسیس منانے کا مقصد عوام کو یہ احساس دلانا ہے کہ عدلیہ اُن کے حقوق کے تحفظ کے لیے فعال ہے، نیز جسٹس سسٹم میں مثبت اصلاحات لائی جا رہی ہیں‘‘۔ (چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ)
یہ بات بہت متا ثر کن ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک سو پچاس سالہ یوم تاسیس کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب محض رسمی کارروائی نہ تھی‘ بلکہ اس موقع پر عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ محترم چیف جسٹس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہے؛ چنانچہ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے سسٹم میں بنیادی اصلاحات لانے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے اس عزم کا اظہار نہایت حوصلہ افزا اور عوام کے لیے باعث طمانیت ہے۔ یقینا عدلیہ کے انتظامی اور دیگر معاملات میں اصلاحات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ 
ایک جمہوری نظام میں انتخابی عمل کے ذریعے عوام کی نمائندگی کے حق کو یقینی بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنی مرضی کے امیدوار چنتے ہیں؛ تاہم حقیقی نمائندگی صرف اُسی وقت ممکن ہے جب آزاد، غیر جانبدار اور فاضل عدلیہ کے ذریعے بے لاگ احتساب ممکن ہو؛ چنانچہ انتخابی عمل ہو یا عدالتی نظام، شفافیت اور غیر جانبداری ہر جگہ درکار ہے۔ اگر آمرانہ رویے رکھنے والے افراد انتخابی عمل کو یرغمال بنا لیں‘ عوام پر اپنی ''نمائندگی‘‘ 
مسلط کر دیں اور ان کا بنایا گیا نظام بدعنوان اور نااہل ہو اور عدلیہ بھی ان مسائل کا تدارک کرنے کے قابل نہ ہو تو پھر جمہوریت بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ من پسند افراد کو نوازنا، بدعنوانی، اقربا پروری، آمریت، من مانی، جبر، انتہا پسندی، انسانی حقوق کی پامالی، اقلیتوں کو دبانا، انصاف سے محرومی، میڈیا پر پابندی اور دیگر جمہور مخالف اقدامات کی عوامی حکومت میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ 
لاہور ہائی کورٹ کو 1866ء میں چیف کورٹ آف پنجاب کے طور پر قائم کیا گیا۔ 1915ء میں اس کا نام ہائی کورٹ رکھا گیا اور اس کی عملداری میں پنجاب اور دہلی شامل تھے۔ 1937ء میں اس میں ججوں کی تعداد پانچ سے بڑھا کر پندرہ کر دی گئی۔ پندرہ اگست1947ء کو اس کا نام لاہور ہائی کورٹ رکھا گیا۔ یکم جنوری 1981ء کو بہاولپور، ملتان اور راولپنڈی میں لاہور ہائی کورٹ کے بنچ قائم کیے گئے۔ کسی معاشرے میں انصاف کی فراہمی اور انتظامی امور کی انجام دہی کو سب سے زیادہ ترجیح حاصل ہونی چاہیے، اور ایسا عوام کی نمائندہ حکومت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔ ہمارے 
عدالتی نظام کو ان امور کی انجام دہی میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ عدالتوں میں ہزاروں کیسز التوا کا شکار رہتے ہیں، اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مقدمات مہنگے ہوتے ہیں اور ان پر کثیر رقم بھی خرچ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سی سماجی اور معاشی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ ان معاملات کو درست کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔ 
اب تو عالم یہ ہے کہ عدالتوں میں جج حضرات کی تعداد میں اضافہ کرنے سے بھی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ہمارے نظام حکومت میں سماجی اور معاشی انصاف کے خدوخال نہایت مدہم ہو چکے ہیں۔ جوڈیشل سسٹم میں اصلاحات لانے کا عمل دیگر امور سے الگ نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ریاستی اداروں، جو نوآبادیاتی دور کی نشانیاں ہیں، کی از سر نو تعمیر ضروری ہے۔ یہ گلے سڑے ادارے اب ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے بھی ہم ٹس سے مس نہ ہوئے اور اپنے اداروں کے خدوخال تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی۔ عدلیہ میں بہتری کے لیے بہت سی تجاویز موجود ہیں۔ اسے درپیش سب سے بڑا مسئلہ سہولیات کی کمی ہے۔ اس کے پاس جدید انفراسٹرکچر موجود نہیں، جس کی وجہ کیسز تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ماہرین نے اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے مسائل کا حل تجویز کیا ہے، لیکن اس کے نفاذ کے لیے سنجیدہ کوشش کا فقدان اصل مسئلہ ہے۔ 
اس بات پر کسی بحث کی ضرورت نہیں کہ کسی بھی ریاست میں 
عدلیہ قانون پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے‘ معاشرے میں انصاف کی بالادستی کو یقینی بناتی ہے۔ قانون کی بالادستی تین اصولوں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ پہلا اصول یہ ہے کہ گورنمنٹ کے افسران ہوں یا پرائیویٹ ادارے، قانون سب سے بالاتر اور کسی سیاسی دبائو کے اثر سے آزاد ہونا چاہیے۔ دوسرا اصول مثبت قوانین کا قیام اور اطلاق ہے جو کہ بلند معیار کی علامت ہوں۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ ریاست اور عام آدمی کے مابین تعلق کو قانون کی مدد سے منظم کیا جائے۔
پاکستان میں ہم جس چیز کی سب سے زیادہ کمی محسوس کرتے ہیں وہ قانون کی حکمرانی ہے۔ ملک کے سب سے گنجان آباد صوبے کے ہائی کورٹ کی 150ویں سالگرہ مناتے ہوئے بھی اس المیے کا ذکر سب سے زیادہ بار کیا گیا۔ پاکستان میں صحیح معنوں میں قانون کا نظام اور اس کی فراہمی ابھی بہت دور ہے۔ عوام کی انصاف کے مہنگے اور صبر آزما نظام تک رسائی بہت مشکل ہے۔ یہ مناسب وقت ہے کہ ہم بامعنی قانونی اصلاحات کے لیے آواز بلند کریں جو انصاف، ترقی، جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لیے بہت ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں