الیکشن کمیشن کا مثبت اقدام

یہ بات بہت خوش آئندہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قانون سازوں کے ظاہر کردہ اثاثوں ، وسائل اور آمدنی کے ذرائع اور اخراجات کی جانچ پڑتا ل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ عوامی نمائندوں کے احتساب کی طرف یہ ایک مثبت قدم ہے ۔ الیکشن کمیشن نے اس کا فیصلہ گزشتہ ماہ، اٹھائیس نومبر کو کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کا پولیٹیکل فنانس ونگ جلد ہی اس مقصد کے لیے فعال کیا جائے گا۔ 
امید کی جاتی ہے کہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوںکے مالی معاملات کا جائزہ لے گا ، جو کہ فی الحال احتساب کے عمل میں سب سے زیادہ نظر انداز کردہ معاملہ ہے ۔ پولیٹیکل پارٹی رولز، 2002 ء کے ضابطے نمبر 4 کے تحت سیاسی جماعتوںکے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اکائونٹس کی سالانہ آڈٹ رپورٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوائیں۔ نہ صرف الیکشن کمیشن بلکہ ایف بی آر بھی ان اکائونٹس کی جانچ پڑتال کرے ۔ اس وقت تک صورت ِحال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ٹیکس گوشوارے تک جمع کرانے کی زحمت نہیں کرتیں، حالانکہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت ایسا کرنا لازمی ہے ۔ ایف بی آر کی طرف سے اس قانون کو پوری طاقت سے نافذ نہ کرنا گورننس کی افسوس ناک صورت ِحال کی غمازی کرتا ہے ۔ تعجب ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں ٹیکس قوانین پر عمل نہیں کرتیں تو ایف بی آر او ر پارلیمنٹ کس طرح خاموش رہ سکتے ہیں؟ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ٹیکس کو اس کا نوٹس لینا چاہیے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لازمی قرار دیا جائے کہ وہ عطیات کی تفصیل اور انہیں فراہم کرنے والوں کے نام اور اپنے اخراجات ظاہر کریں۔ 
موجوہ قوانین کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے نمائندے اپنے اثاثے اور وسائل ہر سال الیکشن کمیشن، اور انکم ٹیکس کے گوشوارے اور دولت ٹیکس کی سٹیٹمنٹ ایف بی آر کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس سالانہ مشق کا مقصد قانون سازوں کے مالی معاملات پر نظر رکھنا ہوتا ہے ۔ اگرچہ دولت میں دکھائی دینے والے مشکوک اضافے کی تفتیش کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس مہارت کا فقدان ہے ، لیکن یہ نیب ، ایف آئی اے اور ایف بی آر اور دیگر ایجنسیوں کی مدد لے سکتا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر انتخابی مہم کے دوران خرچ کی جانے والی رقم پر بھی نظر رکھیں گے ، جبکہ ارکان ِ پارلیمنٹ کے موجودہ اثاثہ جات کے حجم کا موازنہ دوسال پہلے ظاہر کیے گئے اثا ثہ جات سے کیا جائے گا۔ عوامی نمائندگی ایکٹ1976 کا سیکشن 42A اور سینٹ الیکشن ایکٹ 1975ء کا سیکشن 25A منتخب شدہ نمائندوں کو پابند کرتے ہیں کہ وہ ہر مالی سال کی اختتامی تاریخ پر اپنے اثاثہ جات کی تفصیل ظاہر کریں۔ ایسا کرنے میں ناکامی اُنہیں نااہل قرار دے سکتی ہے ۔ تاہم ہمارے عوامی نمائندوں کی طرف سے ان قوانین کا احترام انتہائی غیر تسلی بخش ہے ۔ 
قانون سازوں کے ظاہر کردہ اثاثہ جات کی جانچ پڑتا کا بہترین طریقہ ''Parliamentary Standing Committee on Asset Disclosures & Investigation‘‘ کے پلیٹ فارم پر دونوں ایوانوں کے نمائندوں کی جانچ پڑتا ہے ۔ اس کمیٹی کو ضرورت پڑنے پر ایف بی آر کے مواد کی جانچ پڑتال کرنے کا اختیاردیا جائے ۔ وسائل کے حصول کی تحقیقات کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء مناسب پرویژنز رکھتا ہے ۔ اس وقت میڈیا میں سیاست دانوں کے اثاثے ظاہر کرنے کے قوانین کی بابت غیر ضروری ابہام پیدا کیا جارہا ہے ۔ کوئی شخص بھی واضح دکھائی نہیں دیتا کہ موثر احتساب کو یقینی بنانے کے لیے مختلف قوانین کو کس طرح استعمال کیا جائے ۔ 
بہتر ہے کہ اثاثے ظاہر کرنے کے ایشو پر عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں مختلف سیاسی جماعتوںکے درمیان جاری رسہ کشی کو پارلیمنٹ میں لے جایا جائے ۔ اس مسلے کے حل کے لیے مناسب پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہی ہے ۔ سب سے پہلے ایف بی آر کو قانون کا پابند بنایا جائے کہ وہ تمام عوامی عہدیداروں اور پاکستان کی سروس میں کام کرنے والے افراد کے داخل کرائے گئے اثاثوں کی تفصیل کوپارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کرے ۔ یہ کمیٹی ان ظاہر کردہ اثاثوں کو سول سرونٹ ایکٹ 1973ء، آرمی ایکٹ 1952ء اور دیگر قوانین، عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء ، سینٹ ( الیکشن ) ایکٹ 1975، پولیٹیکل پارٹیز رولز 2002ء کا قاعدہ نمبر 4، اور انکم ٹیکس قانون کے مطابق چیک کرے ۔ کسی تضاد یا دولت کو چھپانے یا غلط بیانی کے شک کی صورت میں کمیٹی ایف بی آر، نیب ، ایف آئی اور فوجی عدالتوںسے قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا کہہ سکتی ہے ۔ 
سیاست دانوں، چاہے اُن کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تمام معاملات میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ ریاستی اداروںکی موثر فعالیت کے لیے اُن کا کردار بہت اہم ہے ۔ اُن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نعرہ کے علاوہ قانون کی بالادستی کو اپنے رویے سے بھی ظاہر کریں ، تاکہ وہ عوام کے لیے رول ماڈل بن سکیں۔ اگر وہ بدعنوانی اور غلط کاریوں میں ملوث رہیں گے ، تو تمام نظام اپنی ساکھ کھو کر انحطاط کا شکار ہو جائے گا۔یقینا ہر سیاسی جماعت کی آرزو اقتدار کا حصول ہوتا ہے ، اور اس میں کوئی بھی غلط بات نہیں،سیاسی کوچے میں قدم رکھنے کا مقصد یہی ہے ۔ تاہم ایک مرتبہ جب وہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو وہ اقرباپروری اور عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وسائل لوٹنا جمہوریت کے لیے زہر ِقاتل ہے ۔ اقتدار میں رہتے ہوئے اُنہیں اپنے افعال سے ثابت کرنا ہے کہ وہ عوامی رقم کے نگہبان ہیں، اوراُن پر اپنی جیبیں بھرنے کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں اقربا پروری اور موروثی سیاست کا غلبہ ہے ، میرٹ کی کوئی قدر نہیں۔زیادہ ترمرکزی جماعتوں ایک ''چیف‘‘ جو پارٹی کا بانی ہے یا بانی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، کا مکمل کنٹرول ہے ۔ اس کا فرمودہ پارٹی کا قانون اور منشور، اُسی کی منشا پالیسی، اور اس کی انا ''مورل سٹینڈ‘‘۔ 
چنانچہ یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ سیاست دانوں کی طرف سے آزاد اور شفاف احتساب کی بھرپور مزاحمت کی جاتی ہے ، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حقیقی احتساب اُن کی بدعنوانی کو بے نقاب کرتے ہوئے ریاست کو ان کے کنٹرول سے آزاد کرا دے گا۔ آگے بڑھنے کا راستہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے کھاتے درست اور شفاف رکھنے پر مجبور کیا جائے ۔ ان کا ساکھ رکھنے والے فرموں سے آڈٹ کرایا جائے اور پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرائیں۔ ایک مرتبہ جب قانون اپنا راستہ بنالے گا تو پھر عوامی نمائندگی کا حق وہی رکھیں گے جو قانون کی پیروی کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی داخلی احتسابی عمل ہونا چاہیے ۔ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 218(3) کے مطابق اپنی ذمہ داری سرانجام دے ۔ سیاسی جماعتوں کو بھی ان ہائوس احتساب کو یقینی بنائیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں