نااہلی کے قوانین

آج کل ہر جگہ خاص طور پر ٹی وی مذاکرات میں نااہلی کے قوانین پر بحث جاری ہے ۔اس بحث نے سیاسی اہمیت حاصل کر لی ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ میں تین مرتبہ منتخب وزیر اعظم کے خلاف نااہلی کے مقدمات زیر التوا ہیں ۔ان مقدمات کے بارے میں کوئی رائے زنی جو قانونی دائرہ کار کے اندر ہو ‘کی جاسکتی ہے مگر اس کے میرٹس پر بحث مباحثہ ہر گز مناسب نہیں ۔عدالت عظمیٰ آئین اور قانون کے مطابق معاملات کا جائزہ لے رہی ہے اور تمام لوگوں کو فیصلہ آنے تک بردباری اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔الزام تراشی برائے الزام تراشی اور عدالت کی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوئی بھی کوشش انتہائی غیر مناسب ہے جو کہ مسلسل جاری ہے۔عوام کو ان قوانین کے بارے میں آگاہی ہونی چایئے مگر مناسب انداز میں اور قانونی حدود کے اندر رہ کر ۔
انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواریا منتخب شدہ امیدوارکے لیے آئین پاکستان کے آرٹیکل 62اور63میں اہلیت اور نا اہلیت کے بارے میں تفصیلاً قانونی شرائط درج ہیں۔ پاکستانی شہریت کا حامل کوئی بھی امیدوار انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔اپنے کاغذات نامزدگی میں اس کو اس بات کاحلفاً بیان دینا پڑتا ہے کہ وہ آئین پاکستان کے آرٹیکل62اور63پر پورا اترتا ہے ۔ہر امیدوار کے لیے لازم ہے کہ وہ اچھی شہرت کا حامل ہو ۔ایماندار اور راست باز ہو ،صادق اور امین ہو ۔مگر یہ شرائط جن کا ذکرآرٹیکل 62(1) میں ہے خود بخود نافذالعمل ہیں کیوں کہ ان تمام خصوصیات کے نہ ہو نے کا کوئی عدالتی حکم موجود ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم پاکستان پر ان الزامات پر کہ وہ صادق اور امین نہیں کیونکہ ان کے اسمبلی کے اندر اور باہر بیانات میں تضاد ات ہیں،ان کے وکیل کا موقف ہے کہ انہوں نے جھوٹ نہیں بولا اور ان کے صادق اور امین نہ ہونے کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ موجود نہیں ۔مزید یہ کہ ان کو آئین کے آرٹیکل 66کے تحت استثنیٰ حاصل ہے ۔پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ اس قسم کا استثنیٰ بدعنوانی کے الزامات کے لیے نہیں ہوتا۔غلط بیانی کے بارے میں آرٹیکل 62واضح ہے اور اور آرٹیکل 66اس کو ختم نہیں کر سکتا۔اس بات کا حتمی فیصلہ تو عدالت عظمیٰ ہی کرے گی۔
سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے (سول اپیل نمبر 532/2015)رائے حسن نواز بنام حاجی ایوب وغیرہ میں تفصیل سے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ ہر امیدوار کو اپنے اثاثوں، آمدنی اور اخراجات کا مکمل حساب دینا ہو تا ہے۔اور جہاں بھی اثاثوں کو چھپانے کے لیے مختلف طریقے (اگرچہ قانونی ہی کیوں نہ ہوں)استعمال کیے جائیں ،یہ الیکشن ٹربیونل کا فرض ہے کہ وہ اس کی مکمل تفتیش کرے ۔عدالت عظمیٰ نے ری رپریزنٹیشن آف پیپل ایکٹ 1976ء کے سیکشن12(2)کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ الیکشن ٹریبیونل کو اسی قانون کے سیکشن 76اے کے مطابق یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی معلومات کے نتیجے میں کسی بھی منتخب امیدوار کے اثاثوں کے چھپائے جانے کے بارے میں از خود تحقیقات کرے اوراگر جرم ثابت ہو جائے تونا اہلی کا حکم صادر کرے ۔عدالت عظمیٰ نے اس مقدمہ میں ٹرسٹی اور بے نامی اثاثہ رکھنے کا جرم میں کامیاب امیدوار کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ بر قرار رکھا۔
اگر پاناما لیکس کے بعد الیکشن ٹریبیونل نے از خود کارروائی کا آغاز کیا ہوتا تو عدالت عظمیٰ کے پاس مقدمات کے آنے کا موقع نہ آتا۔موجودہ وزیر اعظم کے خلاف نااہلی کے مقدمات کے گہرے سیاسی مضمرات ہیں کیونکہ اس سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے خلاف منفی تاثر پیدا ہوا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم کو آرٹیکل 10-Aکے مطابق منصفانہ سماعت کا حق حاصل ہے۔بدقسمتی سے صبح شام مختلف ٹی وی چینلز پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے ان کے خلاف تمام الزامات ثابت شدہ ہیں ۔ان کو پہلے ہی سے سزا یافتہ قرار دینا جمہوری لحاظ سے ناپسندیدہ عمل ہے۔قانونی پہلوئوں پر بحث اور ناہلی کے بارے میں لوگوں کی آگاہی کا مقصد بہتراور اچھے امیدواروں کے انتخاب کے متعلق ہو نا چاہیے نہ کہ وزیر اعظم کو بغیر الزامات کے ثابت ہوئے سزا یافتہ قرار دینا ۔اصل بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے محکمے جیسے کہ نیب ،ایف بی آر ،ایف آئی اے اور الیکشن کمیشن امیدواروں اور منتخب نمائندگان کے اثاثوں، آمدنی اور اخراجات کی تفتیش کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔زیادہ تر اثاثہ جات اور انکم ٹیکس کے ڈیکلیریشنز اور اخراجات ان کے رہن سہن سے میل نہیں کھاتے۔وہ صرف معمولی آمدنی ظاہر کرتے ہیں اور رہن سہن 
انتہائی شاندار ۔بڑی بڑی گاڑیاں ،ملازمین کی بڑی تعداد اور عیش و عشرت ۔کیا اس صورتحال میں ہمیں صرف موجودہ وزیر اعظم کے بارے میں تفتیش کرنی چاہیے یا سب کو بارے میں جن کا نام کسی بھی آف شور کمپنی میں ہے۔اس سے پہلے عدالت عظمیٰ محمد صدیق بلوچ بنام جہانگیر ترین (P2D 2016 SC 97)میں کہہ چکی ہے کہ کوئی بھی منتخب نمائندہ جو کہ بد دیانت ہو یا غلط بیانی کا مرتکب ہے وہ کسی بھی طرح سے ریاستی امور چلانے کا اہل نہیں ہو سکتا۔مگر اس مقدمہ میںیہ صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے کہ کسی بھی الزام کے لئے ناقابل تردید ثبوت ہو نا چاہیے۔ہمیں اپنی سیاست اور حکومتی نظام کوجمہوری بنانے کے لیے شفافیت کا مکمل اہتمام کرنا ہو گا ۔یہ عمل امیدواروں کی مکمل چھان بین اور پھر منتخب اراکین کے اثاثوں ،آمدنی اور اخراجات کے بارے میں قریبی نظر رکھنے سے ممکن ہو سکتا ہے۔یہ کام الیکشن کمیشن کو دوسرے محکموں (ایف بی آر ،ایف آئی اے اور نیب )کی مدد سے کرنا ہو گا۔یہ انتہائی اچھا شگون ہے کہ اس عمل کا آغاز عدا لت عظمیٰ میں پاناما کیس سے ہو چکا ۔اس مقدمہ میں فیصلہ ہمارے جمہوری نظام کو استحکام اور ترقی دینے میں بہت معاون ثابت ہو گا۔ٖٖفیصلہ کسی کے بھی حق میں ہو ،عدالت عظمیٰ کے طے شدہ اصول آنے والے دنوں کے لیے مشعل راہ ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں