سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا…(28)

(یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
بیرونِ ملک سے آئے پاکستانی واپس لوٹ رہے تھے۔ اس امر کے باوجود کہ ہم ان کی توقعات پر پورا نہیں اترے‘ وہ اپنے دامن میں امید کے کچھ پھول ضرور لے کے گئے۔ اسی دوران اسلام آباد میں ہمارا قیام ایک دن اور طویل ہو گیا۔ ہم نے سوچا اسلام آباد کے بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے کچھ افسرانِ بالا سے مل لیں۔ کچھ دروازوں پہ دستک دی۔ یہی بتانا مقصود تھا کہ اسلام آباد سے دور جو پاکستان ہے‘ وہاں کیا ہورہا ہے۔ بارشوں اور سیلاب نے لوگوں کو کس طرح متاثر کیاہے۔ ان کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے۔ عملی حقائق کیا ہیں۔ وہ سب بھی یہی چاہتے تھے کہ اہلِ وطن ایک بار پھر اپنے گھروں میں جا بسیں۔ عزت و آبرو کے ساتھ۔ ہنسی اور خوشی کے ساتھ‘ لیکن اصول و ضوابط اور قواعد کی بندشوں نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔ بیوروکریسی کو ہم ذمہ داری تو دیتے ہیں لیکن پھر ہاتھ بھی باندھ دیتے ہیں۔ کام نہ ہو تو مواخذہ بھی کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ جو کام کرے گا‘ وہ غلطی بھی کرے گا۔ ہم پہاڑ جیسی غلطی یا بددیانتی کو فراموش کردیتے ہیں اور رائی جتنی لغزش پکڑ کر لوگوں کو سولی پہ چڑھا دیتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جنہیں مختلف اداروں نے بے گناہی کے باوجود اپنے شکنجے میں جکڑا اور پھر الزام ثابت نہ ہونے پر انہیں رہائی دینا پڑی۔ ان کی زندگی کے جو شب و روز ضائع ہو گئے ان کی قیمت کون چکائے گا۔ پسِ زنداں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ اور وہ بھی بغیر جرم کے۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے۔ ہم خدا کے حضور کیا جواب دیں گے۔
آج کے دور میں سرکاری ملازمین کے لیے کام کرنا بہت مشکل ہے۔ بے جا دباؤ‘ شکوک و شبہات‘ عدمِ اعتماد‘ الزام تراشی‘ گالم گلوچ۔ وہ کوئی ایسا فیصلہ کریں جو ہماری مرضی کا ہو تو پارسا اور ایسا فیصلہ کریں جو ہماری منشا سے ہٹ کر ہو تو بددیانت‘ مجرم اور غدار۔ جو قوم ہر شخص کو بلا سوچے سمجھے جھوٹا کہنے لگے وہ سچے لوگ کہاں سے لائے گی۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ دیانت پہ بے جا شبہ بھی بددیانتی ہے۔ میں نے اٹھارہ سال سول سروس میں گزارے۔ ایسے مغرور ''افسر‘‘ بھی دیکھے جو سمجھتے تھے کہ ان کے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا اور پھر وہ خاکسار بھی دیکھے جو بڑے سے بڑا عہد ہ ملنے پر بھی عجز میں جھکے رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ایک روز اپنے رب کے دربار میں بھی سر جھکائے بیٹھے ہوں گے اور کوئی آواز بلند ہو گی کہ اٹھو‘ سر بلند کرو۔ تم اپنے رب کے پسندیدہ ہو کہ تم نے دیانت کو شعار بنایا‘ خلق کی خدمت کی‘ غرور کو قریب نہ آنے دیا اور ہمیشہ انصاف سے کام لیا۔ بیوروکریسی کو ہم کتنا ہی معتوب ٹھہرائیں‘ ترقی اور تبدیلی کا عمل ان کے ذریعے ہی مکمل ہوگا۔ وہ جو کسی نے کہا کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ کاش ہم ان کو دیانت سے کام کرنے دیں اور یہ لوگ بھی اپنے اصل مقام سے آشنا ہوں۔ وہ پاسداری کریں تو صرف قانون کی۔ آئینِ پاکستان کے سائے میں زندہ رہنے کا عہد کوئی مشکل کام تو نہیں۔
یہ باتیں اس لیے یاد آئیں کہ ہمہ وقت موردِ الزام ٹھہرائے جانے والے اس قبیلہ سے میرا اپنا تعلق بھی ہے۔ اسلام آباد میں اس روز چھ افراد سے ملاقات ہوئی۔ محترمہ شزا خواجہ‘ طارق باجوہ‘ طارق پاشا‘ حامد یعقوب‘ ذوالفقار یونس اور سیف ڈوگر۔ شزا خواجہ تو سیاستدان ہیں اور وزیراعظم کی مشیر۔ طارق باجوہ اور طارق پاشا سابق بیوروکریٹ اور وزیراعظم کے معاونِ خصوصی۔ حامد یعقوب‘ ذوالفقار یونس اور سیف ڈوگر قابلیت اور کردار میں منتخب اور ''حاضر سروس‘‘ بیوروکریٹ۔ حامد یعقوب امورِ خزانہ کے سیکرٹری ہیں‘ جو وفاقی سطح پر غالباً سب سے اہم عہدہ ہے‘ اور بقیہ دونوں اسی وزارت کے بڑے افسران۔ یہ تمام لوگ صلاحیت میں کسی سے کم نہیں۔ دیانت‘ محنت اور فرض شناسی میں بھی۔ طارق باجوہ سٹیٹ بینک کے گورنر رہے‘ طارق پاشا ایف بی آر کے چیئرمین۔ اگر یہ لوگ بھی ہمیں مشکلات کے بھنور سے نہ نکال سکے تو پھر ہمارا مقدر ہی برا ہے۔ انہوں نے میری باتیں بہت غور سے سنیں۔ کسی نے بھی وقت کی کمی کی شکایت نہ کی۔ شام کے چھ بج گئے۔ مغرب کی نماز طارق باجوہ کے ساتھ ادا ہوئی۔ سلام پھیرنے کے بعد جب انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو مجھے خیال آیا کہ گزشتہ چالیس برس میں‘ میں نے اس شخص کو کبھی نماز قضا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
ہماری باتیں کیا تھیں۔ یہی کہ سیلاب زدگان کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں اور چھوٹے قرضے دینے والے ادارے کیا کر سکتے ہیں۔ یہ بات تو وہ بھی مانتے ہیں کہ حکومت تن تنہا سیلاب کی اس آفت کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور نہ ہی غربت کا تدارک کر سکتی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اور سول سوسائٹی‘ ان کو ساتھ شامل کر لیں تو بہت کم عرصہ میں یہ کام ہو سکتا ہے۔ ہم نے ان سب کو گھروں کی تعمیر اور روزگار کے لیے بلاسود قرضوں کی اہمیت یاد دلائی اور اس ضمن میں شروع کیے گئے مختلف پروگرام بھی بتائے۔ ان سب نے وعدہ کیا کہ ہر وہ قدم اٹھائیں گے جو ان کے اختیار میں ہوا۔ میں انہیں بہت کچھ بتانا چاہتا تھا لیکن اختصار بھی ایک وصف ہے۔ میں خواہش کے باوجود اس ماں کی کہانی نہ سنا سکا جس کا بچہ کھیلنے کے لیے میدان میں گیا اور لوٹ کے نہیں آیا مگر وہ مُصر تھی کہ وہ ضرور آئے گا۔ میں نے انہیں اس بابا جی کی کہانی بھی نہیں سنائی جنہوں نے چھ ہزار روٹیوں پر دس روٹیاں رکھ کے کہا: یہ میری طرف سے حقداروں کو دے دینا اور پھر کھانے والے کم پڑ گئے اور روٹیاں ختم نہ ہوئیں۔ میں نے انہیں اس سوزوکی وین والے کی بات بھی نہیں بتائی جس نے کہا ''خدا اور دے گا‘‘۔شزا خواجہ اور یہ سب دوست جن سے میں ملا‘ درد مند دل رکھتے ہیں۔ یہ سب فہم و فراست کے مالک ہیں۔ ان کی زندگیاں اقتدار کی غلام گردش میں بیت گئیں۔ یہ پسِ الفاظ اور بین السطور سب جانتے ہیں۔ یہ اختصار کو پسند کرتے ہیں اور ہمارا کام تو اذان دینا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ اذان ان کے دل پہ ضرور دستک دے گی۔
ہمارا تعلق نہ اب اس قبیلہ سے رہا‘ نہ سیاست سے۔ ہاں اگر کوئی تعلق ہے تو اس غریب سے جو محرومی کی دلدل میں گرامدد کے لیے پکار رہا ہے۔ اس عہد میں جو بھی سیاست سے ہٹ کر مواخات کی بات کرے‘ ہمارے لیے قابلِ عزت و احترام ہے۔ کاش ہم بہت سی اور باتوں کے ساتھ ایک بات اور بھی سیکھ لیں۔ مواخات اور بھائی چارہ۔ ایک سابق وزیراعظم معراج خالد کہا کرتے کہ کبھی وہ دن تھے جب خدمت اور سیاست میں کوئی فرق نہ تھا لیکن آج بہت کچھ بدل گیا۔ خدمت اب وہ ہے جو خدا کے لیے کی جائے اور سیاست وہ جو اقتدار کے لیے کی جائے۔ کاش ہم سیاست اور خدمت‘ دونوں کو ایک بنا دیں۔ جو لوگ سیاست اور خدمت کو خدا کی رضا کا ذریعہ نہیں بناتے وہ محض وقت کا ضیاع کرتے ہیں۔ ''سروری در دین ماخدمت گریست‘‘۔ میرے دین میں بادشاہی یا حکمرانی خدمت کا نام ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں