بھارت کے 17ویں عام انتخابات کے نتائج سے اس امرکا تعین ہوگا کہ کیا بی جے پی کوماضی کو اپنے من پسند انداز میں استعمال کرتے ہوئے بھارت کی تاریخ از سر نو لکھنے کا مینڈیٹ مل گیا ہے ‘تاکہ وہ اپنے کلچرل اور تہذیبی شناخت کے فروغ کی کوششوں کا جواز پیش کر سکے‘ جس میں الٹرا نیشنلسٹ اور ہندتوا کو بالا دستی حاصل ہو۔
ہر قوم آزادی کے بعد اپنی تحریک حریت پر فوکس کرتے ہوئے اپنی قومی تاریخ از سر نو مرتب کر تی ہے۔اس سے جہاں اپنے قومی ہیروز اور دشمنوں کی پہچان ہوتی ہے‘ وہیں آزادی کے بعد اپنی قوم پرستی کے معیارات کا تعین بھی ہو جاتا ہے۔یوں لگتا ہے کہ بھارت اپنی تاریخ ایک سے زائد مرتبہ لکھ چکا ہے۔
اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت بی جی پی( 1998-99اور1999-2004 ) میں پہلی مرتبہ اپنی تاریخ مرتب کر نے کی کوشش کر چکا ‘ جسے سب سے پہلے آزادی کے فوراً بعد لکھا گیا تھا۔بعض نصابی کتب پر نظر ثانی کی گئی ‘بہت سے تاریخی بیانیے اور شخصیات کے کردار کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ‘تاہم یہ ایک ہلکی سی کوشش تھی ‘کیونکہ واجپائی حکومت نے ان لوگوں سے محاذ آرائی کی بجائے نرم خوئی کا رویہ اپنایا ‘جو ان کے ماضی سے متعلق ویژن سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔مزید یہ کہ واجپائی صاحب اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ نارمل ورکنگ تعلقات رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے فروری1999 میں پاکستان کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے مابین نارمل تعلقات رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔جنوری 2004 میں ان کی اسلام آباد میں منعقدہ سارک کانفرنس میں شرکت کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔
نریندرمودی نے ان امور پر ایک سخت گیر اپروچ اپنائی ہے‘ کیونکہ وہ بھارتی شناخت اور قوم پرستی کے ضمن میں آر ایس ایس کے ویژن سے مطابقت رکھتے ہیں‘کیونکہ وہ بھی ہندتوا روایت کے بارے میں وہی جذبات رکھتے ہیں ‘جس طرح کے احساسات 1990 کی دہائی میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی قیادت رکھتی تھی؛ چنانچہ انہوں نے ریاستی مشینری اور وسائل کو انڈیا کی تاریخی پہچان یعنی سیکولر بھارتیت کی بجائے ہندتوا پر مبنی شناخت کے طور پر پیش کرنے کیلئے استعمال کیا ۔نئی بی جے پی عالمی سیاست میں جس طرح کی شناخت پیش کرتی ہے اس میں الٹرا نیشنلزم پر زور ہوتا ہے‘ اس سے ہمسایہ ممالک کے حوالے سے سنگین شکوک اور تحفظات جنم لیتے ہیں۔مودی اور ان کے قریبی رفقا ''سب سے پہلے بھارت‘‘ اور متصل خطے میں بھارت کے روایتی جابرانہ کردار کی بات کرتے ہیں۔
مودی حکومت کی یہ مجبوری تھی کہ وہ داخلی تناظر میںایک ایسی بالادست اور سرگرم آئوٹ لک اور تنگ نظری پر مبنی خالصتاً ہندتوا شناخت اپنائے ‘جسے طاقتور قوم پرستی کی حمایت حاصل ہو‘ تاکہ غربت اور پسماندگی سمیت سماجی و اقتصادی مسائل حل کرنے میں اپنی ناکامی کو چھپایا جا سکے۔اسی طرح مودی سرکار اپنا بیروزگاری مٹانے کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی۔بھارت میں کسانوں کے بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے پچھلے چند برسوں میں غربت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔کانگرس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں مودی حکومت کی معاشی امور میں خراب کارکردگی کی وجہ سے اس کی ناکامیوں کو کیش کروانا چاہتی ہیں؛چنانچہ کانگرس غربت ‘عدم ترقی اور بیروزگاری جیسے مسائل سے نمٹنے پر توجہ دینے کی بات کرتی ہے اور اس نے زرعی شعبے کے لئے فنڈز اورتعلیمی اصلاحات متعارف کرا نے کا وعدہ کیا ہے۔
بی جے پی کا زیادہ فوکس آئیڈیالوجی اور شناخت کے ایشوز پر ہے۔اس نے یکجہتی کے ماحول میں رام مندر کی تعمیر کا وعدہ کیا کیاہے۔اس نے بھارتی آئین اور ریاستی قوانین میں جموں اینڈ کشمیر سے متعلق خاص شقیں ختم کر کے اسے بھی دیگر بھارتی ریاستوں کے مساوی سٹیٹس دلانے کا وعدہ کیا ہے۔جب جموں وکشمیر کے حکمرانوں نے اکتوبر1947 میں بھارت کے ساتھ ضم ہونے کا فیصلہ کیا تھا تو صرف تین امور یا شعبے بھارت کے حوالے کئے گئے تھے۔یہ دفاع ‘خارجہ امور اور مواصلات تھے۔1950 کے بھارتی آئین کی تمام شقیں خود بخود کشمیر پر لاگو نہیں ہو جاتیں اور اس کا آرٹیکل 370کشمیر کی خود مختار حیثیت کو تسلیم کرتا ہے‘مگر جب کشمیر کے مرحوم وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ اور بھارتی حکومت کے باہمی تعلقات زبوں حالی کے شکار ہوتے گئے تو انہیں اگست1953 میں عہدے سے برطرف کر دیا گیا اور ان کی جگہ بھارت نواز بخشی غلام محمد کو کشمیر کا نیا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔اس نے آرٹیکل 370کو محدود کرنے کے عمل میں بھارتی حکومت کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔اس عمل کا آغاز 1954 میں ہوا تھا‘ مگر1986 1974,1972,1966,1965,1964,1963میں اس میں بتدریج مزید ترامیم کی گئیں۔ اس وقت عملی مقاصد کے لئے کشمیر اپنی خود مختار حیثیت کھو چکا ہے؛ اگرچہ آرٹیکل 370میں اب جو کچھ باقی بچ گیا ہے وہ بھی بھارت کے آئینی سسٹم میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو نظریاتی بناد فراہم کرتا ہے اور کشمیر کی سیاسی جماعتیں اس حیثیت کو بحال اور بر قرار رکھنا چاہتی ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 35-Aکی ایک شق کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تحفظ حاصل ہے ‘جو ریاستی قانون کو 1954 سے کشمیر کے ''مستقل باشندے‘‘ کی اصطلاح اور ''کشمیری باشندے کے حقوق ‘‘کی تعریف کرنے کا اختیار دیتی ہے ۔ اس وقت کوئی بھی غیر مستقل باشندہ اپنا ووٹ درج کرا سکتا ہے‘ نہ غیر منقولہ جائیداد خرید سکتا ہے اور نہ ہی ریاست کشمیر کی ملازمت لے سکتا ہے۔بی جے پی اور دوسری دائیں بازو کی سخت گیرہندو جماعتیں کشمیری عوام کیلئے ان دو مخصوص شقوں کی مخالفت کرتی ہیں۔2014 کے الیکشن میں بی جے پی نے ان شقوں کو ختم کرنے کا نعرہ لگایا تھا۔اب ایک بار پھر بی جے پی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا وعدہ دہرایا ہے۔
بی جے پی نے اب ''ڈاکٹرائن آف دی سٹیٹ ‘‘ بھی کشمیر پر لاگو کر دیا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب بھارتی ریاست کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بھارت کی ریاستی بالا دستی کو درپیش چیلنجز کو کچلنے کے لئے ہر طرح کی طاقت کا استعمال کر سکتی ہے۔کشمیری عوام کی جاری سیاسی جدو جہد کو پاکستان کی پراکسی جنگ قرار دیتے ہوئے کشمیری عوام کے اپنے سیاسی مستقبل کے تعین کے حق خود ارادیت کے مطالبے کو کچلنے کے لئے بی جے پی حکومت اب تک فوج ‘پیرا ملٹری فورسز ‘انٹیلی جینس ایجنسیز اور پولیس کو بڑی بے رحمی سے استعمال کر چکی ہے۔بی جے پی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں ریاستی جبر استبداد کا یہ سلسلہ جاری رہنے کی توقع ہے ؛اگر کانگرس کی قیادت میں مخلوط حکومت بنتی ہے تو امید ہے کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئینی شقوں سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گی اور یہ بھی امید ہے کہ وہ کشمیری عوام سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کی نیت سے وہاں جاری فوجی کارروائی کو معطل کر دے‘تاہم یاد رہے کہ بی جے پی کی طرح کانگرس بھی کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ سمجھتی ہے۔
بی جے پی کے منشور سے اس کے قومی سلامتی کے ایشو اور دہشت گردی کے خلاف عدم برداشت کی عکاسی ہوتی ہے؛اگرچہ جب قومی سلامتی اور دہشت گردی کی بات ہو تو الیکشن منشور میں پاکستان کاذکر تو موجودنہیں ہے‘ مگر نریند ر مودی اور ان کے قریبی ساتھی اپنی تقاریر میں پاکستان کی توہین کرنے کاکوئی موقع جانے نہیں دیتے ۔کشمیر یا بھارت میں کہیں بھی تشدد ہو وہ ہمیشہ پاکستان کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہر اتے ہیں۔ بی جے پی کے بعض لیڈر 26فروری 2019 کے پاکستانی علاقے میں بھارتی فضائی حملے کو بھی انڈیا کی دہشت گردی کے خلاف سرحد پار کارروائی کے طور پر پیش کرتے ہیں‘مگر وہ بھارتی حملے کی ناکامی ‘دو جہازوں کو مارگرائے جانے اور بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔
اگر بی جے پی دوبارہ الیکشن جیت جاتی ہے تو تو پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی امید کم ہی ہوگی۔لائن آف کنٹرول پر وقتاً فوقتاً جھڑپیں جاری رہیں گی۔توقع یہی ہے کہ بی جے پی کشمیر میں اپنی متشدد اپروچ پر اسی طرح عمل پیرا رہے گی اور اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کرے گی‘ جس سے حالات اور بھی ابتری کی طرف جائیں گے۔کشمیر کے حوالے سے اپنی پالیسی میں خامی کو تسلیم کرنے کی بجائے بی جے پی کشمیر میں جاری شورش کا الزام پاکستان پر عائد کرتی رہے گی۔بی جے پی کا دوبارہ بر سر اقتدار آنا جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لئے کوئی نیگ شگون نہیں ہوگا۔