کشمیر کے تازہ ترین بحران نے ایک مرتبہ پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا خدشہ پیدا کر دیا ہے۔ ان کے مابین روایتی جنگ شدت اختیار کر کے ایٹمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے اس لئے اس خطے میں بڑی طاقتوں کی ترجیح مسئلہ کشمیر کے حل کے بجائے پاکستان اور بھارت میں جنگ کی روک تھام ہے۔ پاکستان دونوں مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے یعنی روایتی جنگ سے بچائو اور مسئلہ کشمیر کا پُر امن حل بھی۔
پاکستان کو بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے اس بیان پر کوئی تشویش نہیں ہوئی کہ بھارت ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کر سکتا ہے اور اس کا انحصار حالات پر ہے۔ پاکستان نے بھارت کے اس دعوے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا کہ وہ ایٹمی حملے میں پہل نہیں کرے گا۔ پاکستانی قیادت بخوبی سمجھتی ہے کہ اگر سکیورٹی کی صورت حال نے مجبور کیا تو بھارت ایٹمی حملہ کرنے میں کبھی تاخیر نہیں کرے گا۔
جب چین نے اکتوبر 1964ء میں اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تھا تو اس نے بھی ایٹمی حملے میں پہل نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت بھارت نے اس کا یہ اعلان مسترد کر دیا تھا اور اپنے ایٹمی ہتھیار بنانے کا پروگرام شروع کر دیا تھا۔ بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ مئی 1974ء میںکیا تھا اور اسے ''پُر امن ایٹمی دھماکے‘‘ کا نام دیا تھا۔ اس وقت بھارت کے سوا کسی ملک نے اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ مئی 1998ء میں اکٹھے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے بھارت علانیہ ایٹمی طاقت بن گیا تھا۔ پاکستان کا ایٹمی ٹیکنالوجی پروگرام 1955-56 میں شروع ہوا تھا مگر اس نے جنوری 1972ء تک ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے آپشن پر نہیں سوچا تھا۔ مئی 1974ء میں پہلے بھارتی ایٹمی دھماکے تک پاکستان نے اس سمت میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا تھا۔ 28 اور 30 مئی 1998ء کو پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کیے۔ بھارت کے ایٹمی حملے سے تحفظ کے لئے پاکستان بھی ایٹم بم سے لیس ملک بن گیا کیونکہ روایتی ہتھیاروں اور افواج کی تعداد میں بھارت کو پاکستان پر فوقیت حاصل تھی۔ اس وقت سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا فوکس بھارت پر مرکوز ہے اور پاکستان میں اسے بھارت کی ایٹمی بلیک میلنگ کے خلاف ایک قابل اعتبار تحفظ سمجھا جاتا ہے۔
آج پاکستان کو جس امر پر تشویش ہے وہ یہ ہے کہ بھارت کے ایٹمی ہتھیار ایک ایسی قیادت کے ہاتھوں میں ہیں جو دائیں بازو کی الٹرا نیشنلزم پر مبنی ہندتوا پر یقین رکھتی ہے اور جس نے نریندر مودی کے مئی 2014ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور پاکستان کے حوالے سے شدید نفرت کا اظہار کیا ہے۔ ایسی نظریاتی قیادت جو اپنی خود ساختہ صداقت کے فریب میں بھی مبتلا ہو‘ پاکستان کے خلاف فوجی مہم جوئی کر سکتی ہے جو آگے چل کر ایٹمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔
ماضی کا تجربہ شاہد ہے کہ جب کبھی مشکل فوجی صورت حال پیدا ہوئی جیسے 1986-87 میں براس ٹیک کرائسز، کارگل جنگ (1999ئ) بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد سرحدوں پر کشیدگی (2001 -2002ئ) آزاد کشمیر میں دہشت گردوں کے کیمپوں پر سرجیکل سٹرائیکس کا بھارتی دعویٰ(2018ئ) بالا کوٹ میں بھارت کے فضائی حملوں کے جواب میں مقبوضہ کشمیر پر پاک فضائیہ کے جوابی حملے اور بھارتی پائلٹ کی گرفتاری (فروری 2019ئ) ان تمام مواقع پر دانش مندی کا مظاہرہ کیا گیا اور ابتدائی اقدامات کے بعد کشیدگی میں اضافہ نہ ہوا۔
تاہم مقبوضہ کشمیر کے سٹیٹس میں حالیہ ترامیم اور جموں و کشمیر کے بھارت میں انضمام اور پھر دونوں ممالک میں کشیدہ تعلقات کے بعد بھارت کی داخلی سیاست کے تناظر میں مودی حکومت کے مفادات کی وجہ سے اگست‘ ستمبر 2019ء میں دونوں ممالک میں کشیدگی بے قابو ہو سکتی ہے۔ اس سے پہلے بھی ان کے تعلقات سنگین مسائل سے دوچار تھے‘ اور اگست 2014ء میں مودی حکومت کی جانب سے مذاکرات کا سلسلہ منقطع کرنے کے بعد سے دونوں ممالک میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بات چیت کی کوشش کی مگر بھارتی حکومت نے یہ کہہ کر اسے مسترد کر دیا کہ پاکستان پہلے کشمیر اور بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے اسے مطمئن کرے۔
تین اہم تناظر پاکستان اور بھارت کو روایتی جنگ کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
اول: لائن آف کنٹرول پر دونوں ممالک کی افواج میں ہفتے میں دو تین مرتبہ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے‘ جس سے دونوں جانب جانی اور مالی (فوجیوں کا اور سویلین) نقصان ہوتا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جھڑپوں سے کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور پہلے کشمیر اور اس کے بعد پاک بھارت سرحدوں پر جنگ چھڑ سکتی ہے۔
دوم: بھارت مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کا ڈرامہ رچا کر اس کا الزام پاکستان پر عائد کر سکتا ہے۔ بھارت اس واقعے کی آڑ میں کشمیر یا پاکستان میں مبینہ طور پر دہشت گردوں کے کیمپوں پر فضائی حملے کر سکتا ہے۔ چونکہ پاکستان کی طرف سے جوابی حملے کا امکان ہے‘ جیسا کہ فروری 2019ء میں ہو چکا ہے؛ چنانچہ یہ محدود کارروائی ایک مکمل روایتی جنگ میں بدل سکتی ہے۔
سوم: بھارت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کنٹرول لائن پر یا پاکستانی سر زمین پر اپنی روایتی فوجی برتری کی بنیاد پر سریع الحرکت بری یا فضائی حملے کر سکتا ہے اور کسی زمینی ٹکڑے پر قبضہ کر نے کے بعد اس کے ذریعے پاکستان سے سودے بازی کر سکتا ہے؛ تاہم پاکستان اس جارحیت کا اپنی بھرپور روایتی فوجی قوت کے ساتھ جواب دے گا جس سے بڑی روایتی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
ان تینوں امکانات میں خطرہ یہ ہے کہ روایتی جنگ اگر شروع ہوئی تو یہ ایٹمی جنگ میں بدل جائے گی۔ فریقین کے پاس ڈلیوری سسٹم سمیت مختلف اقسام کے ایٹمی ہتھیار ہیں۔ چونکہ پاکستان اور بھارت کی طویل سرحدیں متصل ہیں اس لئے آنے والے میزائل کا جواب دینے کے لئے چند ہی منٹ کا وقت ہو گا۔ دونوں اطراف سے غلط فہمی یا غلط اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں یہ سارا خطہ اور دنیا کے دیگر ممالک بھی تباہی کی زد میں آ سکتے ہیں۔ ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوئی تو یہ ہماری بد قسمتی ہو گی کیونکہ کوئی بھی ملک ایٹمی جنگ میں فاتح نہیں بن سکتا۔ غالب امکان ہے کہ اس جنگ کے دنیا کے دیگر ممالک پر بھی مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم امید کے ساتھ دعا بھی کرتے ہیں کہ بھارت کے پالیسی ساز کسی انتہا پسندانہ مذہبی آئیڈیالوجی کے جال میں نہ پھنس جائیں۔ کسی بھی مسلح جارحیت کے وقت ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کو تحمل و برداشت کی اہمیت کا ادراک ہونا چاہئے۔
جنگ سے گریز کا معاملہ دونوں ممالک کی فہم و فراست پر ہی نہیں چھوڑا جا سکتا، عالمی برادری کو بھی پاک بھارت کشیدہ تعلقات میں بہتری لانے کے لئے سفارتی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑی طاقتوں کو نہ صرف غیر مبہم انداز میں تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دینا چاہئے بلکہ انہیں بھارت پر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال میں بہتری لانے کے لئے بھی زور دینا چاہئے‘ نیز کشمیر کا لاک ڈائون بھی ختم ہونا چاہئے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی یک طرفہ منسوخی اور ریاست کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسے بھارتی یونین میں ضم کرنے کے فیصلے پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ کشمیر کے سٹیٹس میںکسی بھی ترمیم کے لئے بھارت کو کشمیری عوام کا مینڈیٹ لینا چاہئے۔
عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے کسی ایسے قابل قبول حل کے لئے پاکستان اور بھارت کے ساتھ روابط برقرار رکھے‘ جس میں کشمیری عوام کی امنگوں کا بھی خیال رکھا گیا ہو۔پاکستان اور بھارت کے مابین جاری موجودہ کشیدہ صورت حال کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں حائل ہیں؛ چنانچہ عالمی طاقتوں کو چاہئے کہ وہ ان دونوں کے درمیان نہ صرف یہ کہ جنگ نہ ہونے دیں بلکہ وہ کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا پُر امن حل نکالنے کی کوششیں بھی جاری رکھیں۔
کشمیر کا پرامن اور جمہوری حل ہی انسانیت کے مقاصد کو پورا کر سکتا ہے۔