"HAC" (space) message & send to 7575

دوحہ معاہدہ اور افغانستان میں امن کے امکانات

29 فروری 2020 کو امریکہ طالبان معاہدے پر دستخط ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ دو دشمن‘ جنہوں نے انیس برس تک ایک دوسرے سے جنگ لڑی‘ اب افغانستان میں امن کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ اگرچہ بہت سے لوگوں کو جنگ سے تباہ حال افغانستان میں امن و استحکام کے عمل کی کامیابی کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں‘ اس کے باوجود اس امن معاہدے کی اہمیت کو ٹھکرایا نہیں جا سکتا۔
فریقین، یعنی طالبان اور امریکہ، نے لچک کا مظاہرہ کیا کیونکہ دونوں کو احساس ہو گیا تھا کہ کوئی بھی فریق اس جنگ میں مکمل فتح حاصل کرنے کے قابل نہیں۔ طالبان نے غیر ملکی افواج کے انخلا سے قبل کسی بھی قِسم کے مذاکرات نہ کرنے کی اپنی پالیسی میں تبدیلی کی اور وہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے نکلنے سے پہلے امریکیوں سے بات چیت پر راضی ہو گئے۔ انہوں نے اپنے بیانات میں اس بات کا وعدہ بھی کیا کہ وہ اس بار افغانستان میں ویسا سیاسی نظام قائم نہیں کریں گے جیسا 1996 تا 2001ء انہوں افغانستان میں قائم کر رکھا تھا‘ اور اب کی بار وہ ان تبدیلوں کو تسلیم کریں گے جو افغانستان کے اندر اور اس کے آس پاس وقوع پذیر ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کابل میں موجود حکومت کے ساتھ سیاسی تصفیے کے لیے بات چیت پر بھی رضامندی ظاہر کر دی۔
یہ معاہدہ امریکہ کے لیے ایک بڑی پسپائی ہے۔ اکتوبر 2001ء میں امریکی افغانستان میں اس لیے داخل ہوئے تھے کہ وہ ستمبر 2001ء میں امریکہ میں حملے کی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کرنے والے اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القاعدہ کو پناہ دینے والے طالبان کو ملیامیٹ کر دیں گے۔ امریکیوں کو ابتدا میں کامیابی ملی اور وہ نومبر 2001ء میں طالبان حکومت کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب رہے‘ لیکن ان کی پوری فوجی و سفارتی قوت مل کر بھی طالبان تحریک کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہی۔ افغانستان میں جو کچھ ہوا اُس نے فوجی قوت کے دائرہ کار کی قلعی کھول کر رکھ دی‘ چاہے یہ قوت دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ استعمال کر رہا ہو۔ دور دراز زمینوں پر کیے جانے والے فوجی آپریشنوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا اتنا آسان کام نہیں چاہے اس کے لیے بے تحاشا انسانی و مادی قربانی کیوں نہ دی جائے۔ ایسے جھگڑوں میں فوجی قوت کے علاوہ بھی بہت سے عوامل موجود ہوتے ہیں جو نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
دوحہ میں سپر پاور کے نمائندوں اور ایک کمزور عسکری اور سیاسی فریق کے مابین معاہدے پر ہونے والے دستخطوں سے یہ حقیقت عیاں ہو گئی ہے کہ وہ ممالک جو برتر عسکری قوت کی بنیاد پر لوگوں پر حکمرانی یا اپنے ہمسایوں کو دبانے کی سوچ رکھتے ہیں‘ وہ بہت بڑی بھول میں مبتلا ہیں۔ اس معاہدے میں ایک دلچسپ جُملہ بھی شامل ہے‘ جو متعدد بار دہرایا گیا۔ وہ جملہ ہے کہ امریکہ یہ معاہدہ ''اسلامی امارت افغانستان کے ساتھ کر رہا ہے، جسے امریکہ تسلیم نہیں کرتا اور اسے طالبان کے نام سے جانا جاتا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد برابری کی بنیاد پر معاہدے پر دستخط کرکے انہیں سیاسی شناخت عطا کر دی ہے۔ اس معاہدے کا نتیجہ ہی تھا کہ بعد ازاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات میں شامل اعلیٰ سطحی طالبان راہنما سے ٹیلی فونک بات چیت بھی کی۔ معاہدے پر دستخط کے فوری بعد جو صورتحال سامنے آئی وہ سمجھ میں آنے والی ہے۔ اس معاہدے کے اطلاق کے بارے میں کبھی بھی یہ نہیں سوچا گیا کہ یہ بہت آسان ہوگا کیونکہ دونوں جانب اس کی مخالفت موجود ہے۔ امریکی انتظامیہ کے اندر اور باہر ایسے لوگ موجود ہیں‘ جن کے خیال میں امریکہ کو ان طالبان کے ساتھ معاہدے پر دستخط نہیں کرنے چاہئیں جو رجعت پسندانہ خیالات کے حامل اور دہشت گردی کے حوالے سے ایک طویل ماضی رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کی دلیل تھی کہ ایسے گروہ تبدیل نہیں ہوا کرتے؛ تاہم امریکی انتظامیہ، خصوصاً صدر ٹرمپ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔
اس حوالے سے کچھ بڑے مسائل کابل حکومت کے رویے بارے بھی ہیں کیونکہ طالبان کے ساتھ امن کے متعلق افغان حکومت اور اس کے حمایتیوں کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ طالبان معاہدے میں شامل اس شق کے حوالے سے کہ 5000 طالبان قیدی رہا کیے جائیں گے، افغان حکومت نے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ اسی معاہدے میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ طالبان کابل حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔ طالبان نے اشرف غنی کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے جنگ بندی ختم کر کے کابل حکومت کے سکیورٹی اہلکاروں پر حملے دوبارہ شروع کر دیے۔ اگر قیدیوں کے معاملے پر فوری پیش رفت نہ ہوئی اور طالبان کے حملے نہ رُکے تو افغان حکومت اور طالبان کے مابین ہونے والی ممکنہ بات چیت تاخیر کا شکار ہو جائے گی۔ صدر اشرف غنی طالبان قیدیوں کی رہائی کے لیے راضی نہیں دکھائی دیتے کیونکہ وہ افغان قومیت پرستی کے چیمپئن بن کر کابل حکومت کی حمایت کرنے والے سیاسی حلقوں کو فعال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ افغانستان کے اندر کابل حکومت کے حمایتی حلقوں کی باہمی سیاسی آویزش کا حصہ ہے جس میں کچھ لوگ طالبان کو رعایت دینے کے حامی نہیں ہیں۔ صدر اشرف غنی کو سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ سیاسی بندوبست ہو جانے سے ان کی کرسی ہاتھ سے نکل جائے گی‘ کیونکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ طالبان ایک ایسے نئے صدر پر اصرار کریں گے جو فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ طالبان کے لیے تو صدر اشرف غنی قابل قبول نہیں ہوں گے۔ غنی کی پوزیشن پہلے ہی متنازعہ ہو چکی ہے کیونکہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ آزاد الیکشن کمیشن کی جانب سے فروری میں صدارتی انتخابات میں ان کی کامیابی کے اعلان کو چیلنج کرچکے ہیں۔
طالبان اور کابل حکومت کے مابین ہونے والے مذاکرات کے دوران دیگر نزاعی معاملات میں طالبان کی جانب سے افغانستان میں موجود آئینی و حکومتی بندوبست میں تجویز کردہ تبدیلیاں بھی ہیں۔ چونکہ طالبان کو بھی حکومت میں حصہ دیا جائے گا تو لازماً اِس وقت ان حکومتی پوزیشنوں پر موجود لوگوں کو اپنی کرسیوں سے محروم ہونا پڑے گا۔ یہ عناصر کسی بھی سیاسی تصفیے کی لا محالہ مخالفت کریں گے۔ فریقین کو اہم قانونی و سماجی معاملات مثلاً انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں، انتخابات، پارلیمان کے کردار، خواتین کی صوبائی سطح اور اس سے بھی نیچے اقتدار میں شمولیت اور کردار جیسے مدعوں پر صبر اور سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ 
اب تک تو امریکہ اس معاہدے کے نفاذ اور طالبان و کابل حکومت کے مابین سیاسی تصفیے پر ڈٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے ہونے والی ناکامی اندرونی نزاع کا باعث بنے گی۔ اگرچہ اس بات کا ذکر طالبان اور امریکہ کے مابین ہونے والے انتیس فروری کے معاہدے میں شامل نہیں؛ تاہم طالبان سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ افغانستان میں امریکہ کے معاشی مفادات کیلئے سہولت کاری کریں گے اور اس کے بدلے میں امریکہ نو تشکیل شدہ طالبان و دیگر افغان گروہوں کی مخلوط کابل میں حکومت کو معاشی مدد فراہم کرے گا۔ یہ امریکی معاشی مفادات امریکہ میں قائم ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے کردار سے جڑے ہیں جو افغان معدنیات، معاشی زندگی، وسطی ایشیا کیلئے ٹرانزٹ ٹریڈ اور ترکمانستان سے پاکستان اور انڈیا تک گیس پائپ لائن میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ طالبان کیلئے ایک بڑا چیلنج امریکہ کو دی جانے والے معاشی سہولت کاری اور اس خطے میں موجود بڑے ممالک مثلاً چین و روس کے معاشی و سیاسی تحفظات کے مابین توازن قائم رکھنا بھی ہو گا۔بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ امریکہ طالبان مذاکرات سے کم گراں بار نہیں۔ پہلے قدم کے طور پر کابل حکومت اور دیگر اتحادی راہنمائوں کو اس وفد کی تشکیل پر اتفاق کرنا ہوگا جو طالبان سے مذاکرات کرے گا۔ انہیں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں اب لچک دکھانی پڑے گی اور طالبان کے حوالے سے ماضی کے تلخ تجربات کو نظر انداز کرنا پڑے گا۔ طالبان کو بھی فریق ثانی کو اتنی ہی رعایت دینی پڑے گی۔ یہ دونوں فریقوں کی سیاسی اور دوسرے فریق کو جگہ دینے کی صلاحیتوں کا بڑا امتحان ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں