"HAC" (space) message & send to 7575

افغانستان میں امن اور پاکستان کیلئے آپشنز

کئی سالوں کی داخلی لڑائی اور بیرونی فوجی مداخلت کے بعد افغانستان داخلی امن اور سیاسی استحکام کی تلاش میں ہے۔ یہ ایک طرف سوویت یونین/ روس جبکہ دوسری جانب امریکہ اور قدامت پسند مسلم ریاستوں کے مابین پراکسی جنگ کا شکار رہا۔ بعد میں یہ دہشت گرد گروہوں‘ جنہوں نے عالمی سطح پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا‘ کے خاتمے کے نام پر امریکی فوجی حملے کا نشانہ بنا۔ اس طرح کے ملک کو معاشرتی ہم آہنگی، امن اور بڑے پیمانے پر حمایت یافتہ گورننس سسٹم قائم کرنے میں ہمیشہ بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا ملک تن تنہا اہم فیصلے نہیں کر سکتا کیونکہ متعدد بیرونی کھلاڑی یا تو ایک دوسرے کے مقابل کھڑے داخلی کھلاڑیوں میں اپنے سٹیکس بنا لیتے ہیں یا وہ ایسے ملک کو اپنے عالمی اور علاقائی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
افغانستان کی خوش قسمتی ہے کہ عالمی برادری نے اب افغانستان کے داخلی مسائل کے فوجی حل کے بے نتیجہ ہونے کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان میں امن اور استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔ 2 دسمبر کو طالبان اور کابل حکومت کے مابین بات چیت میں ایک اہم پیش رفت ہوئی، جب فریقین نے 'وے فارورڈ معاہدے‘ پر دستخط کیے۔ اس معاہدے نے انٹرا افغان بات چیت کا فریم ورک مہیا کر دیا ہے۔ اس دستاویز کی یہ اہمیت ہے کہ طالبان نے افغانستان میں امن کے قیام کیلئے کابل حکومت کو باضابطہ طور پر ایک جائز فریق تسلیم کر لیا ہے۔ طالبان نے ہمیشہ حکومت کی آزاد حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے امریکہ کی کٹھ پتلی قرار دیا۔ اگرچہ طالبان نے رواں سال ستمبر میں کابل حکومت کے ساتھ حالیہ بات چیت کا آغاز کیا تھا، لیکن وہ کابل حکومت کی جوازیت پر سوال اٹھاتے رہے۔ اب انہوں نے کابل حکومت کے ساتھ امن عمل کیلئے بات چیت کو آگے بڑھانے کے فریم ورک پر اتفاق کر لیا ہے۔
تازہ ترین معاہدہ 2020 میں تیسری بڑی پیشرفت ہے۔ پہلی اہم پیشرفت فروری میں ہوئی جب طالبان اور امریکہ نے دوحہ میں ایک امن معاہدے پر دستخط کیے‘ جس نے فریقین کے مابین تناؤ کو کم کرنے کی راہ ہموار کی اور امریکیوں کے لئے یہ ممکن بنایا کہ اپنی کچھ فوج واپس لے جا سکیں۔ دوسری بڑی پیشرفت ستمبر میں طالبان اور کابل حکومت کے مابین بات چیت کا آغاز تھا۔ ستمبر میں انٹرا افغان مذاکرات کے پہلے دور کے بعد سے، ان مذاکرات کے حق میں ڈپلومیسی اس بات کو یقینی بنانے کیلئے سرگرم عمل ہو گئی تھی کہ طالبان اور افغان حکومت افغانستان میں امن اور اقتدار کے اشتراک پر متفق ہو جائیں۔ افغانستان میں مفاہمت کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی، زلمے خلیل زاد نے ستمبر تا نومبر تین بار پاکستان کا دورہ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو دوحہ آئے اور انہوں نے 21 نومبر کو طالبان رہنماؤں اور کابل حکومت کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ سب سے اہم پیشرفت افغانستان اور پاکستان کے مابین سفارتی دورے تھے۔ افغانستان سے پاکستان کے دورے کئے گئے۔ ان میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار کا دورہ شامل ہے، جبکہ افغان پارلیمنٹ کے سپیکر کی سربراہی میں افغان وفد نے بھی دونوں ملکوں کے مابین تجارتی اور معاشی تعلقات بہتر بنانے کیلئے اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی۔ سب سے اہم پاکستانی دورہ وزیر اعظم عمران خان کا تھا۔ انہوں نے افغانستان میں امن مذاکرات کیلئے اپنی حکومت کی حمایت کا اعادہ کیا اور افغانستان اور پاکستان کے مابین تجارتی اور معاشی تعلقات بڑھانے کی پیشکش کی۔
افغانستان میں سیاسی تصفیے کی خواہش میں تین اہم عوامل کارفرما ہیں۔ پہلا، تھکاوٹ کا عنصر: افغان عوام 1979 سے تنازعات اور جنگوں سے دوچار ہیں جس کے نتیجے میں کئی ہزار افغان جاں بحق اور پچاس لاکھ سے زیادہ مہاجر بن گئے ہیں۔ اب بھی، تقریباً 20 لاکھ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجروں کی حیثیت سے پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ ان شورش زدہ سالوں میں معاشی اور معاشرتی زندگی عملی طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ اب، طالبان اور افغان حکومت سے وابستہ افراد میں امن اور منظم زندگی کی بحالی کے لئے احساس پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے تشدد، اموات اور املاک کی تباہی کا سامنا کیا ہے۔ دوسرا، جیت کی کوئی صورتحال نہیں: طالبان اور کابل حکومت کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو پوری طرح شکست نہیں دے سکتے۔ وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا تو جاری رکھ سکتے ہیں‘ لیکن کوئی بھی دوسرے کو خارج کرنے تک افغانستان پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ کسی کو بھی افغانستان میں جنگ جیتنے کی امید نہیں ہے۔تیسرا، امن کے لئے عالمی تعاون: بڑی طاقتیں اور ہمسایہ ریاستیں افغانستان میں داخلی امن اور استحکام کی خواہاں ہیں۔ امریکہ، روس اور چین چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کیا جائے۔ پاکستان نے طالبان کو امریکہ سے مذاکرات کرنے کی ترغیب دی جس کے نتیجے میں فروری 2020 میں دونوں کے مابین معاہدہ ہوا۔ پاکستان نے بعد میں طالبان اور کابل حکومت کے مابین بات چیت میں آسانی پیدا کرنے میں بھی مدد دی۔ اب، پاکستان چاہتا ہے کہ فریقین افغانستان میں امن اور طاقت کے اشتراک پہ اتفاق کریں۔ پاکستان دونوں فریقوں کی مدد جاری رکھے گا لیکن افغانستان میں امن اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب طالبان اور کابل حکومت ایک دوسرے کو ایڈجسٹ کرنے اور باہمی امن معاہدے پر دستخط کرنے کا فیصلہ کریں۔ انہیں یقینی بنانا ہوگا کہ معاہدے پر عمل درآمد ہو۔ عالمی برادری ان کی مدد کرنے کیلئے تیار ہے، لیکن امن اور ہم آہنگی پر فریقین نے ہی راضی ہونا ہے۔ 24 نومبر کو جنیوا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جہاں امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپی ریاستوں اور جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے کچھ دیگر ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے اگلے چار سالوں میں افغانستان کو چار ارب ڈالر فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ مددافغان حکومت اور طالبان کے داخلی امن اور اقتدار کے اشتراک پہ راضی ہونے پر ہی مفید ثابت ہو گی۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین حالیہ سفارتی تعامل خصوصاً وزیر اعظم عمران خان کا پہلا دورہ کابل یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک اپنے معاشی تعلقات کو مستحکم کرنا اور دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کے خواہشمند ہیں۔ افغان تجارتی اور کاروباری برادری پاکستان کے ساتھ زیادہ فعال اور جامع تجارتی تعلقات کی خواہاں ہے۔ پاکستان کو افغانستان میں ایک مسئلہ درپیش ہے۔ اس کے اعلی عہدیداروں کا ایک حصہ‘ خصوصاً افغانستان کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ میں‘ پاکستان کے خلاف سخت تعصب پایا جاتا ہے۔ وہ اکثر افغان سرزمین سے پاکستان مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کیلئے بھارت کی خواہشات کا خیال رکھتے ہیں۔ پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے اپنی سکیورٹی اپروچ پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے سخت سکیورٹی سے سافٹ ڈپلومیسی کی طرف لانا چاہئے۔ ترجیحات میں اس طرح کی تبدیلی پاک افغانستان سرحد پر باڑ لگانے کی تکمیل کے بعد ممکن ہے۔ 
پاکستان کو افغانستان اور خیبر پختونخوا کے مابین کاروباری، معاشرتی اور خاندانی رابطوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ کاروبار اور تجارت، طبی علاج، تعلیم، تکنیکی تربیت، اور خاندانی تعامل کیلئے پاکستان کا رخ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ ثقافت اور کھیلوں کے شعبے میں تبادلوں سے بھی معاشرتی تعلقات کو تقویت ملے گی۔ پاکستان کو افغانستان میں انسانی فلاح و بہبود کے منصوبوں کیلئے فنڈنگ بھی جاری رکھنی چاہئے۔ معاشرتی سطح پر باہمی رابطوں اور معاشی اور تجارتی تعلقات کو بڑھا کر پاکستان‘ افغانستان میں معاشرتی سطح پر اپنے لئے مضبوط حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ یہ عمل کابل میں طاقتور طبقے کے ایک حصے کے منفی رجحان کو بے اثر کر سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں