پاکستان کو 2020 میں پی ٹی آئی کی حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے مابین بڑھتی ہوئی کشمکش کا سامنا رہا۔ اپوزیشن نے ستمبر میں دس جماعتوں (اصل میں گیارہ) پر مبنی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد تشکیل دیا، جس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دو بڑی جماعتیں ہیں اور دونوں نے متفقہ طور پر مولانا فضل الرحمن کو اتحاد کی قیادت سونپی۔ مشترکہ ایجنڈا عوامی ریلیوں اور سڑکوں پر احتجاج سمیت ماورائے پارلیمانی دباؤ کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو اقتدار سے ہٹانا ہے؛ تاہم، ایجنڈا پاکستان میں حزب اختلاف کے روایتی نعروں پر مشتمل ہے‘ جو یہ ہیں: آئین کا احترام، جمہوری اور نمائندہ گورننس کی بحالی، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات، شہری بالادستی کو یقینی بنانا، اور عوام کے معاشی مسائل حل کرنا۔
اگر اکتوبر تا دسمبر عوامی جلسوں میں پی ڈی ایم کے رہنماؤں کی تقاریر اور بیانات کا تجزیہ کریں تو پتا چلے گا کہ انہوں نے اپنے اہم مطالبات کے طور پر چار امور اٹھائے ہیں۔ پہلا، پی ٹی آئی کی حکومت میں نمائندہ کردار کی کمی ہے کیونکہ 2018 کے انتخابات میں اس کے فائدے کیلئے دھاندلی کی گئی تھی۔ دوسرا، پی ٹی آئی حکومت کی سماجی و اقتصادی پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں اور قیمتوں میں اضافے اور اشیائے ضروریہ خصوصاً اشیائے خورونوش کی قلت کی وجہ سے عوام کو شدید معاشی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؛ تاہم حزب اختلاف کی تینوں اہم جماعتوں، مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنماؤں نے قومی معیشت کے حالیہ مسائل سے نمٹنے کیلئے کوئی متبادل منصوبہ پیش نہیں کیا۔ تیسرا، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قائدین‘ جن کو اپنے مالی اثاثوں کے حوالے سے احتساب کا سامنا ہے‘ احتساب کے عمل کو سیاسی انتقام سمجھتے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ نیب اور پی ٹی آئی کی حکومت حزب اختلاف کے سینئر رہنماؤں کو نشانہ بنانے کیلئے مل کر کام کر رہی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر موجودہ سیاسی سیٹ اپ گر جائے اور وہ اقتدار میں واپس آ جائیں تو احتساب کے عمل کو غیر مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ چوتھا، پی ڈی ایم کے قائدین غیر سیاسی قیادت کے توسیعی کردار کو محدود کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اسے عمران خان کو اقتدار میں لانے کا جزوی طور پر ذمہ دار تصور کرتے ہیں؛ تاہم پی ڈی ایم کے رہنما اس مدت کے بارے میں بات نہیں کرتے‘ جب پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے توسیعی کردار سے فائدہ اٹھاتی رہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے جنوری میں مدت میں توسیع کے حوالے سے پی ٹی آئی کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اب سال کے آخر میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی‘ دونوں بالکل مختلف طرزِ عمل روا رکھے ہوئے ہیں۔
سالِ رواں کے دوران کچھ معاشی اشارے پی ٹی آئی کی حکومت کے حق میں گئے۔ اس نے سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ سے نئے قرضے اور معاشی تعاون حاصل کرکے پاکستان کو بین الاقوامی قرضوں کے حوالے سے نادہندہ ہونے سے بچا لیا اور اس نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں‘ خصوصاً آئی ایم ایف‘ سے بھی رجوع کیا۔ اگرچہ اس حکمت عملی نے قرضوں کا نادہندہ ہونے سے بچایا، لیکن اس نے پاکستان پر قرضوں کے بوجھ کو اب تک کی انتہائی سطح تک بڑھا دیا۔ درآمدات پر پابندی سے تجارتی خسارے کو بہتر بنانے میں مدد ملی۔ علاوہ ازیں حکومت نے اخراجات میں کمی کی۔ اس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوا۔ اس صورتحال نے مختلف منصوبوں اور سکیموں میں غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے۔
حکومت کی ایک بڑی ناکامی اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر قابو نہ پا سکنا ہے۔ پاکستان کو بیرون ملک سے گندم اور چینی درآمد کرنا پڑی۔ کپاس کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے؛ چنانچہ اندیشہ ہے کہ 2021 میں پاکستان کاٹن درآمد کرے گا۔ معیشت کی مجموعی نمو منفی رہی، اور بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا؛ تاہم سماجی بہبود کے پروگرام 'احساس‘ نے غریب خاندانوں کو مدد دی۔ عام لوگوں پر بڑھتے معاشی دباؤ نے ایک سال میں حکومت کی مقبولیت کا گراف نیچے کر دیا، لیکن اس کمی نے اپوزیشن کی مقبولیت میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ لوگوں نے سیاسی عمل سے مایوسی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔
سال رواں کے دوران جمہوریت کے معیار میں کمی واقع ہوئی کیونکہ پارلیمنٹ کا کردار ایک اہم قانون ساز ادارے کی حیثیت سے کمزور ہوا اور وہ قومی مسائل کے حل کے حوالے سے ایک فورم کے طور پر کام کرنے سے قاصر رہا۔ اجلاسوں میں حکومت اور حزب اختلاف کے مابین الزامات کے تبادلے ہوتے رہے۔ حزب اختلاف نے حکمران جماعت کیلئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کا کام انجام دینا مشکل بنا دیا۔ چونکہ اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر حکومت کو نہیں گرا سکتی تھی؛ چنانچہ اس نے اس کیلئے جلسوں اور سڑکوں پر احتجاج کے ماورائے پارلیمنٹ طریقوں کو اپنانے کا فیصلہ کیا جس نے پارلیمنٹ کے کردار کو مزید کمزور کر دیا۔ سیاسی بیان بازی میں عامیانہ زبان در آئی ۔ اس نے مجموعی طور پر سیاسی ماحول کو بری طرح متاثر کیا۔ حزب اختلاف کے کچھ رہنماؤں نے وزیر اعظم کو سکیورٹی رسک قرار دیا اور کہا کہ وہ اور پاکستان ساتھ نہیں چل سکتے۔ پی ٹی آئی حکومت کے کچھ رہنماؤں نے اپوزیشن کو پاکستان مخالف خارجہ حکومتوں کے مفادات کیلئے کام کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ حکومت اور حزب اختلاف کے مابین تعامل کے اس طرح کے منفی نمونے نے سیاسی مباحثوں میں شائستگی اور جمہوری آداب کو تیزی سے معدوم کر دیا۔ معاشرے میں عمومی طرز عمل اور باہمی احترام کے معاملات پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ سماج میں گفتگو کے معیارات زوال پذیر ہوئے کیونکہ نوجوان نسل گفتگو میں اکثر سیاسی رہنماؤں کا انداز اپناتی ہے۔
امسال مارچ سے پاکستان کو کورونا وائرس کی وبا نے نشانہ بنایا۔ 26 فروری کو پاکستان میں اس وائرس کا پہلا مریض پایا گیا تھا۔ مارچ تا جون کورونا وائرس تیزی سے پھیلا۔ ابتدا میں حکومت نے سماجی، سیاسی اور معاشی سرگرمیوں کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کر دیا؛ تاہم تین ہفتوں کے اندر حکومت نے معاشرے کے نچلے طبقے، خاص طور پر روزانہ کی بنیاد پر اجرت کمانے والوں، عارضی بنیادوں پر ملازمت کرنے والوں اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروبار میں مصروف افراد پر اس پالیسی کے مضر اثرات کو تسلیم کر لیا؛ چنانچہ مکمل لاک ڈاؤن کو ''سمارٹ‘‘ یا ''ٹارگٹڈ‘‘ لاک ڈاؤن میں تبدیل کر دیا گیا۔ حکومت نے معاشرے کے غریب طبقات کو مالی مدد فراہم کی اور بینک سود کی شرح 13.25 فیصد سے گھٹا کر 7 فیصد کردی گئی۔ سب سے بڑھ کر، متعدد افراد‘ گروہ اور تنظیمیں بھی رضاکارانہ طور پر کھانے پینے کی اشیا تقسیم کرکے معاشرے کے کمزور طبقات کو مدد فراہم کرنے کیلئے آگے آئیں۔ جولائی کے آخر تک وائرس پر مناسب طور پر قابو پا لیا گیا تھا؛ تاہم اکتوبر سے اس کی نئی لہر پاکستان میں پیدا ہو چکی ہے۔ اندیشہ ہے کہ یہ لہر کم سے کم مارچ تک جاری رہے گی۔ حکومت کے سیاسی مخالفین کی پالیسی کووڈ19 سے لڑنے کے حوالے سے غیرجانبدارانہ رہی کیونکہ انہوں نے حکومت کی جانب سے وائرس کے خطرے کے اظہار کے باوجود عوامی جلسے جلوس جاری رکھے۔
اگر حکومت سخت معاشی فیصلے کر سکے‘ جن کی اشد ضرورت ہے‘ اور ایک پرامن سیاسی ماحول سے کورونا وائرس پر قابو پاکر قومی معیشت کو مستحکم کرلے تو نئے سال میں پاکستان کیلئے اچھے مواقع پیدا ہوں گے؛ تاہم سال کے آخر میں سیاسی سگنل پی ٹی آئی کی حکومت اور حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کے مابین مسلسل محاذ آرائی کی سمت ہیں؛ چنانچہ پاکستان کے داخلی سیاسی و معاشی مسائل اور غربت و عدم مساوات کے مسائل نئے سال میں اس حکومت اور معاشرے کو پریشان کرتے رہیں گے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ملک پر کون حکمران ہے۔