ہم پاک بھارت تعلقات میں مسائل اور مشکلات کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ان میں بہتری کی کسی بھی علامت کو مشکوک پیشرفت سمجھا جاتا ہے۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ ایک ملک کے رہنما کا دوسرے ملک کے بارے میں مثبت بیان‘ پروپیگنڈا بیان ہے یا اس طرح کا بیان کسی بڑی عالمی طاقت کو مطمئن کرنے کیلئے دیا گیا ہے۔ اس طرح کے شکوک و شبہات قابلِ فہم ہیں کیونکہ خراب تعلقات کے طویل ادوار‘ دونوں ملکوں کے مابین ہم آہنگی کے مختصر ادوار پر چھائے نظر آتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین پریشان کن تعلقات ان کی تاریخ کی مختلف تشریح‘ قومی ریاست اور قومی شناخت کے علاوہ علاقائی اور عالمی امور کے متضاد نظریات سے منسلک ہیں؛چنانچہ پُرامن اور معمول کے تعلقات قلیل مدتی ثابت ہوئے۔ اس کے باوجود تعلقات میں تناؤ کو کم کرنے اور پُرامن بات چیت کی بنیاد رکھنے کیلئے بار بار کوشش کی جاتی رہی۔ مارچ 2021ء میں بھی یہ اشارے ملے کہ پاکستان اور بھارت اپنے تعلقات میں تناؤ کو کم کرنے کیلئے کچھ اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ نئے رجحانات کچھ عرصے تک برقرار رہے تو عین ممکن ہے کہ ان اختلافی امور پر بات چیت دوبارہ شروع ہو سکے جو بھارت نے اگست 2014ء میں معطل کر دی تھی۔ نریندر مودی مئی 2014ء کے آخری ہفتے میں پہلی بار بھارت کے وزیراعظم بنے تھے۔ اگرچہ پاکستان کے وزیر اعظم (سابق) نواز شریف ان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کیلئے دہلی گئے تھے لیکن اس کے بعد تین ماہ سے بھی کم عرصے میں مودی حکومت نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کا عمل معطل کردیا۔
پاک بھارت دوطرفہ تعلقات اس وقت مزید گراوٹ کا شکار ہو گئے جب 5 اگست 2019ء کو مودی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر بھارتی یونین میں ضم کردیا اور جموں و کشمیر سے باہر کے لوگوں کو وہاں آباد ہونے اور جائداد خریدنے کی اجازت دے دی۔ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو ایک ''ریاست‘‘ سے کم کرکے دو ''مرکزی علاقہ جات‘‘ میں تبدیل کردیا گیا۔ بھارت کی آئینی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھاکہ کسی ''ریاست‘‘ کو واپس ''یونین ٹیریٹری‘‘کی نچلی حیثیت پر دھکیل دیا گیا۔ پاکستان نے ان اقدامات کو مسترد کردیا اور سفارتی سطح پر شدید احتجاج کیا۔ دونوں ملکوں نے اپنے ہائی کمشنروں کو واپس بلا کر اپنے سفارتی تعلقات کو نچلی سطح پر لے گئے۔دریں اثنا لائن آف کنٹرول کے پار فوجوں کی گولہ باری کا سلسلہ شدت اختیارکرگیا۔ نومبر 2003ء میں پاکستان اور بھارت نے لائن آف کنٹرول پر سیزفائر پر آمادگی ظاہر کی تھی اور یہ افہام و تفہیم دسمبر 2012ء تک قائم رہا جس کے بعد پُرتشدد واقعات پھر ہونے لگے‘ ان کی تعداد میں 2013ء میں اضافہ ہو گیا جو اگست 2014ء میں بھارتی وزیر اعظم مودی کی جانب سے پاک بھارت مکالمہ معطل کرنے کے بعد باقاعدہ ایک معمول بن گیا۔ اس طرح کے خراب سفارتی ماحول میں یہ حیرت کی بات تھی کہ مارچ 2021 میں دونوں ممالک کے مابین تناؤ کو کم کرنے کیلئے کچھ اشارے دیے گئے۔ ان میں شامل ہیں‘ (1): پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے مابین ٹیلی فونک بات چیت جس میں لائن آف کنٹرول پر سیزفائر پر عمل درآمد پر اتفاق کیا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے مابین اس تازہ ترین تفہیم کے بعد کنٹرول لائن پر صورتحال پُرامن ہو گئی ہے۔ (2): مارچ کے وسط میں اسلام آباد میں نیشنل سکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے دونوں ممالک کے مابین بہتر تعلقات کی ضرورت پر بات کی۔ (3): پاکستان کے آرمی چیف نے اسی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ پُرامن اور مستحکم تعلقات کیلئے وزیراعظم کے مؤقف کو دہرایا۔ (4): بھارت کے وزیر اعظم نے اپنے پاکستانی ہم منصب کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آنے پر انہیں صحت کی جلد بحالی کی دعا کا پیغام بھیجا ۔ انہوں نے 23 مارچ کو یوم پاکستان پر مبارکباد بھی ارسال کی۔ (5): پاکستان کے انڈس واٹرس وفد نے 23‘24 مارچ کو اپنے بھارتی ہم منصب سے بات چیت کیلئے دہلی کا دورہ کیا۔ فریقین نے بات چیت کا یہ سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔(6): 26مارچ کو کشمیر میں پونچھ بارڈر پر پاکستان اور بھارت کے بریگیڈ کمانڈروں کی فلیگ میٹنگز ہوئیں۔
یہ سب پیشرفت امید بڑھا دیتی ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تناؤ کم ہو جائے گا جس کے نتیجے میں طویل عرصے سے حل طلب مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی؛ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام باہمی مسائل حل کر لئے جائیں گے۔ پاکستان کے نقطۂ نظر سے دو امور اولین توجہ کے متقاضی ہیں: لائن آف کنٹرول پر امن اور استحکام اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری‘ جہاں بھارت کے سکیورٹی اہلکار اور سویلین حکام کشمیریوں کے خلاف طاقت کے ناجائز استعمال میں مشغول ہیں۔ دیگر امور جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ان میں قیدیوں کا تبادلہ‘ منقسم خاندانوں کے دورے‘ ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا کو معطل کرنا اور ہائی کمشنروں کی ان کے متعلقہ عہدوں پر واپسی‘ جیسے معاملات شامل ہیں۔ اگر پاکستان اور بھارت ان امور پر پیشرفت کر سکیں تو وہ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی اور کشمیر کے مستقبل سمیت تمام متنازع اور پیچیدہ مسائل پر بات چیت کا سلسلہ بحال کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔جب پیچیدہ تنازعات طے کرنے کی بات کی جائے تو دونوں ممالک کو گمبھیر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دونوں ممالک میں ایسے سرگرم گروہ اور افراد موجود ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ معمول کے مطابق کام کرنے کے خلاف ہیں۔ وہ اپنی متعلقہ حکومتوں پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ دوسرے ملک سے فاصلے پر رہیں۔ مودی سرکار سخت گیر ہندو گروہوں کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات کو ترک کرنے کی متحمل نہیں جو اپنی شرائط کے سوا پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے مخالف ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں کئی گروہ شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ جب تک مسئلہ کشمیر ان کے اطمینان کے مطابق حل نہیں ہوتا اس وقت تک بھارت کے ساتھ تعلق ممکن نہیں۔داخلی دباؤ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے‘ دونوں حکومتوں کو سب سے پہلے لائن آف کنٹرول اور کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے اور پھر ان اقدامات کو باہمی تعلقات کو انسان دوست بنانے کیلئے استعمال کرنا چاہئے۔ اس کے بعد مشکل دو طرفہ امور پر توجہ دی جا سکے گی۔
پاکستان اور بھارت کو اپنے تعلقات بہتر بنانے کیلئے دو طرح کے مکالمے کی ضرورت ہے؛ اول‘ ہر ریاست کے اندر ایک مکالمہ، دوسرا‘ دونوں ریاستوں کے مابین ایک بات چیت۔ دوسری ریاست کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے ہر ریاست کے اندر بات چیت مختلف مفاداتی گروہوں کے درمیان ہونی چاہئے ۔ دوسری ریاست کے ساتھ اچھے تعلقات کیلئے داخلی تعاون کی ضرورت ہے ۔ دوسرا مکالمہ بھارت اور پاکستان کے مابین ہونا چاہئے جس کا مقصد دونوں ریاستوں کے مابین مسائل کے قابل قبول اور عملی حل تلاش کرنا ہے۔بھارت اور پاکستان کے مابین 2004ء اور2007ء میں ہونے والے مکالمے کی طرز پر بات چیت کی جاسکتی ہے ۔ پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے باہمی قابلِ قبول حل کے حل کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے جو کشمیریوں کیلئے بھی قابلِ قبول ہو۔ اگر پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکال سکتے ہیں تو عالمی برادری بھی اس کے حل کو عملی جامہ پہنانے میں مدد دے گی۔