"HAC" (space) message & send to 7575

پاکستان میں سیاست اور حکمرانی

پاکستان کی سیاست مسابقتی سیاسی جماعتوں اور مفادات کے درمیان باہمی بداعتمادی، متضاد تعلقات اور تندی کیلئے مشہور ہے‘ لہٰذا کم تعمیری ہو چکی ہے، اور سیاسی رہنماؤں کو سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل کے وسیع پیمانے پر قابل قبول حل تلاش کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ ایسے سیاسی ماحول میں سیاست تنازعات طے کرنے اور معاشرتی مسائل حل کرنے کے اپنے بنیادی مقصد کو پورا نہیں کر سکتی۔ سیاست کا مقصد اختلافات کو ہم آہنگی میں تبدیل کرنا اور ایسے حالات پیدا کرنا ہے جو لوگوں کو انفرادی اور اجتماعی تکمیل کے قابل بنا سکیں۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہورہا جس سے جمہوریت کے امکانات پر منفی اثر پڑ رہا ہے، اور یہ صورتحال معاشرے میں مایوسی اور بیگانگی کا باعث بن رہی ہے۔
تشویش کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی رہنما اور پارٹیاں اس بات کا احساس نہیں کر پا رہیں کہ ان کی سیاست‘ سیاسی نظام میں کمانڈنگ کردار ادا کرنے کی ان کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ ان کی مسلسل لڑائی سیاسی پیشرفتوں کو کچھ ریاستی اداروں کی طرف منتقل کر دیتی ہے۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن کے درمیان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جدوجہد 1988 تا 1999 کے سیاسی دور سے شروع ہوئی اور سیاست کا یہ نمونہ 2008 سے لے کر آج تک دہرایا جاتا رہا ہے۔
حکمران جماعت اور اپوزیشن‘ دونوں سیاست میں مخاصمت کے دائمی ماحول کیلئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ حقیقتاً دونوں کو اس الزام کو شیئر کرنا چاہئے۔ بعض اوقات حکمران جماعت منفی سیاست میں سبقت لے جاتی ہے۔ کسی دوسرے وقت پر اپوزیشن منفی سیاست کرتی ہے۔ اس قسم کی سیاست دونوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اگر سیاست ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے تک محدود رہے تو کوئی بھی سیاسی جماعت ملک میں مستحکم اور مربوط سیاست نہیں کر سکتی۔ سیاسی عمل کو بنانے یا توڑنے میں دونوں کا کردار ہوتا ہے۔
موجودہ دور کی اپوزیشن اور حکمران پی ٹی آئی ایک دوسرے کو حقیقی حریف تسلیم نہیں کرتیں۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم عمران خان کے عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن سے ہی ان کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے‘ اور ہر دوسرے دن ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ حکمران پی ٹی آئی ایک حقیقی سیاسی قوت کے طور پر اپوزیشن کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے اسی طرح کے مخالفانہ انداز میں جواب دیتی ہے۔ بعض اوقات پی ٹی آئی قرار دیتی ہے کہ اپوزیشن پاکستان کے دشمنوں کا کھیل کھیل رہی ہے۔ ہر شام چینلز پر ٹاک شوز میں حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کے کارکن ایک دوسرے پر ہر طرح کے الزامات عائد کرتے ہیں۔
حزب اختلاف کے بڑے اتحاد پی ڈی ایم نے ستمبر تا دسمبر 2020 میں مختلف شہروں میں حکومت مخالف ریلیاں نکالیں لیکن وہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکام رہا۔ اب، نومبر 2021 میں، پی ڈی ایم نے ایک بار پھر عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے اسلام آباد تک عوامی ریلیوں اور لانگ مارچ کا دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ڈی ایم کے اس فیصلے کے پس منظر میں دو بڑے عوامل کارفرما ہیں۔ سب سے پہلے، مہنگائی اور تمام اشیا بالخصوص اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے معاشرے کے تقریباً تمام طبقات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس صورتحال نے ہر خاندان پر معاشی بوجھ بڑھا دیا ہے اور انہیں حکومت سے بے حد ناخوش کر دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ معاملات پر قابو پانے میں ناکامی پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔
دوسرا، نئے آئی ایس آئی چیف کی تقرری پر وزیر اعظم اور مقتدرہ کے مابین مبینہ اختلافات کو پی ڈی ایم نے حکومت پر سیاسی دباؤ ڈالنے کا ایک موقع تصور کیا۔ ماضی کا مشاہدہ یہی ہے کہ جب بھی ایسے اختلافات پیدا ہوئے‘ اپوزیشن جماعتوں نے اسے حکومت پر اپنا سیاسی دباؤ بڑھانے کیلئے استعمال کیا۔ ایسی صورتحال میں اپوزیشن کے کچھ رہنما وفاقی حکومت کے مقابلے میں مقتدرہ کے پالیسی موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ اب ایک بار پھر اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی حکومت کو کمزور تصور کر رہی ہیں۔
فی الحال، وفاقی سطح پر اور کے پی اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کو سب سے بڑا سیاسی چیلنج بنیادی طور پر اپوزیشن کی طرف سے نہیں بلکہ انتظامی اور سیاسی امور میں اپنی ناقص انتظام کاری سے ہے۔ وہ چار مسائل جن کے حل پر پی ٹی آئی کی حکومتوں کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ یہ ہیں: موثر اور فلاحی طرزِ حکمرانی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور قیمتوں میں اضافہ، اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن کی عدم موجودگی اور اتحادی جماعتوں کی شکایات۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بہتر طرزِ حکمرانی کے بار بار وعدوں سے قطع نظر گورننس کے معیار پر اب سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم (اپریل 2010) کے بعد گورننس کے کام کا بنیادی بوجھ صوبوں پر منتقل ہو چکا ہے‘ لیکن عام لوگوں کی سطح پر ان کی انتظامی اور سیاسی انتظام کاری کے حوالے سے شدید شکایات موجود ہیں۔ گڈ گورننس ریاستی وسائل کے مؤثر استعمال اور عام لوگوں کو بنیادی خدمات کی فراہمی پر زور دیتی ہے۔ انتظامیہ کو عمومی طور پر معاشرے کی ضروریات اور خواہشات پر توجہ دینی چاہیے۔ اصل مسئلہ آپریشنل سطح کا ہے۔ جب لوگ صحت کی دیکھ بھال کیلئے کسی سرکاری ہسپتال سے رجوع کرتے ہیں یا بنیادی سہولیات کیلئے سرکاری محکمے سے مدد مانگتے ہیں تو مطلوبہ مدد دستیاب نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر پنجاب حکومت ڈینگی کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں جگہ اور ادویات کی دستیابی کی بات کر رہی ہے‘ لیکن جب آپ ہسپتال جاتے ہیں تو ڈینگی کے مریض کو بغیر کسی سفارش کے داخل کروانا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی بھی چھوٹے اور معمول کے کام کے لیے کسی سرکاری دفتر جاتے ہیں تو عام تجربہ یہ ہے کہ آپ کو اس کام کی انجام دہی کے لیے کئی دن صرف کرنا پڑتے ہیں یا سفارش ڈھونڈنا پڑتی ہے۔ ہیلتھ کارڈ ایک مثبت اقدام ہے، لیکن اس کے استعمال کی ایک حد ہوتی ہے اور پھر بیوروکریٹک رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی سب سے بڑی ناکامی ان کی تمام اشیا خصوصاً اشیائے خورونوش اور ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں نااہلی ہے۔ صوبائی حکومتیں اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھانے والی مارکیٹ فورسز کو کنٹرول کرنے کے لیے مارکیٹ میں مداخلت سے قاصر ہیں۔
اگر حکمران جماعت اور اپوزیشن سیاسی اور قانون سازی کے معاملات پر ایک دوسرے سے بات نہیں کریں گی تو جمہوریت مؤثر انداز میں نہیں چل سکتی۔ یہ افسوسناک ہے کہ سربراہ حکومت اخلاقیات کی خود ساختہ وضاحت کے باعث اپوزیشن سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ ایسا ہی مسئلہ، لیکن کم درجے کا، پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی جماعتوں کی طرف سے اٹھایا گیا ہے جو فیصلہ سازی سے خارج کیے جانے اور سیاسی صورت حال کے بارے میں اپنے خدشات کو نظر انداز کیے جانے کی شکایت کرتی ہیں۔
اگر حکومتیں اپنی مشکلات پر قابو پانا چاہتی ہیں تو انہیں مذکورہ چاروں مسائل کو موثر انداز میں حل کرنا اور یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ عوام کی خدمت کیلئے بہتر طرزِ حکمرانی کے ساتھ مربوط ادارے کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ وہ سیاست میں تحمل کا مظاہرہ کریں اور محض حکومت مخالف نعرے لگانے کے بجائے مسائل کا ٹھوس حل پیش کریں۔ اگر یہ تبدیلیاں ممکن نہ ہوئیں تو سیاست تصادم کا شکار رہے گی اور سیاسی اداروں کیلئے سیاسی نظام میں اپنی مرکزیت قائم کرنا مشکل ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں