"HAC" (space) message & send to 7575

پاکستان کے مسائل اور ان کا حل

پاکستان میں جمہوریت کا موجودہ دور 2008 سے جاری ہے۔ اسے دو متضاد رجحانات کا سامنا ہے۔ ایک طرف پاکستان میں نمائندہ نظامِ حکومت کیلئے وسیع حمایت موجود ہے۔ زیادہ تر لوگ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات، اقتدار کی پُرامن منتقلی اور منتخب حکومتوں کو قومی اسمبلی کی میعاد تک کام کرتے دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ اس سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ پاکستان آئین کی بالا دستی، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور تمام شہریوں کیلئے بلا لحاظِ مذہب، ذات، علاقہ یا جنس مساوی حقوق کی فراہمی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے گا۔ دوسری طرف جمہوری اداروں اور ان کے اقدامات کی کارکردگی ووٹرز کی توقعات سے بہت کم ہے۔ جمہوریت کیلئے عوامی حمایت کی سب سے بڑی وجہ یہ توقع ہے کہ ایک ایسی حکومت‘ جو عوام کے ووٹ سے برسراقتدار آتی ہے اور جسے اپنے مینڈیٹ کی تجدید کیلئے عوام کے پاس واپس جانا پڑتا ہے، کو عام آدمی کے سماجی و اقتصادی مسائل حل کرنے کو سب سے زیادہ ترجیح دینی چاہئے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنا چاہئے؛ تاہم یہ توقع اب تک پوری نہیں ہو سکی ہے۔
سویلین حکومتیں انتخابات کے امتحان سے گزریں اور ان کی انتخابی کارکردگی تسلی بخش رہی، حالانکہ بعض سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ حریف سیاسی جماعت کی انتخابی کامیابی سے اختلاف کیا۔ حکومت بنانے والی سیاسی جماعت بہتر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی۔ یہ عام لوگوں کے معیار زندگی میں خاطر خواہ بہتری یقینی بنانے میں بھی ناکام رہی۔ اس صورتحال نے عام لوگوں کو منتخب جمہوری حکومتوں سے بیگانہ کر دیا ہے۔
ناقص کارکردگی کی شکایت کا اطلاق 2008 سے برسراقتدار آنے والی تینوں حکومتوں پر ہوتا ہے‘ یعنی پی پی پی (2008-2013)، پی ایم ایل این (2013-18) اور پی ٹی آئی (2018 سے تاحال)۔ جولائی 2018 میں پی ٹی آئی کی کامیابی کا سہرا جزوی طور پر ووٹرز اور معاشرے کی جانب سے پہلے دو آپشنز کا تجربہ کرنے کے بعد تیسرے آپشن کو آزمانے کی خواہش کے سر بندھتا ہے۔ لیکن اب 2022 میں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ تیسرا آپشن بھی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا۔ اس سے یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ اب آگے کیا ہوگا؟ کیا عوام کو پہلی دو جماعتوں میں سے کسی ایک کی طرف لوٹنا چاہیے جنہوں نے ماضی میں انہیں مایوس کیا؟ پی ٹی آئی کی حکومت اس وقت اپوزیشن جماعتوں کے سخت سیاسی دباؤ میں ہے جو درپیش مہنگائی، غربت اور پسماندگی جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے کوئی نیا اور پُرکشش فریم ورک پیش کیے بغیر صرف حکومت کو ہٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ حزبِ اختلاف کی جانب سے نئے خیالات کی عدم موجودگی کے باعث عوام حکومت کو ہٹانے کی ان کی کوششوں کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے ہیں۔
حکومت کو ناک آؤٹ کرنے کے سلسلے میں اپوزیشن کے ایجنڈے کیلئے وسیع پیمانے پر عوامی حمایت کی عدم موجودگی ہی کی وجہ سے 2020-2021 میں پی ڈی ایم کے جلسے حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر عوام کو اکٹھا نہیں کر سکے۔ اس بات کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں کہ پی ڈی ایم، پی ایم ایل این اور پی پی پی کی جانب سے حکومت کو گرانے کی جاری کوششوں کے بارے میں عوامی ردعمل تبدیل ہو گیا ہے۔
یہ سچ ہے کہ عوام بڑے پیمانے پر مہنگائی سے بری طرح متاثر ہیں اور پی ٹی آئی کی حکومت اب تک بڑی تعداد میں نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ پورا کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اس نے عوام کو مایوس کیا ہے؛ تاہم عوام کو اپوزیشن کی طرف سے بھی شاید ہی کوئی امید نظر آتی ہوگی کیونکہ اپوزیشن جماعتوں نے اس مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کیا جس نے عام لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ سیاست اور معیشت کی حرکیات کو سمجھنے والے زیادہ تر لوگ جانتے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی اور اپوزیشن جماعتوں کی واپسی سے قیمتیں کم نہیں ہوں گی۔ ان کے پاس پاکستان کی معیشت کیلئے آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر آنے کا کوئی نسخہ بھی نہیں ہے۔ کیا وہ بجلی، پٹرولیم مصنوعات، پام آئل اور گیس کی قیمتیں کم کر سکتی ہیں؟ مندرجہ بالا سوالوں کا جواب نفی میں ہے، کیونکہ پاکستان کی معیشت کی خرابی کے ذمہ دار پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے ناقص مینجمنٹ کے علاوہ دیگر متعدد عوامل بھی ہیں۔ حکومت کی تبدیلی بہتر معیشت کی ضمانت نہیں دیتی۔
پاکستان کی معیشت کے ڈھانچے کو گمبھیر مسائل کا سامنا ہے‘ اور یہ بیرونی ذرائع پر بہت زیادہ منحصر ہے۔ اگر معیشت کے بنیادی مسائل کو موثر طریقے سے حل کیا جائے تو یہ صورتحال بہتری میں بدل سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، حکومت کو ان سرکاری اداروں کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو مستقل طور پر خسارے میں چل رہے ہیں۔ فی الوقت وفاقی حکومت ان اداروں کے نقصانات اور موجودہ اخراجات پورے کرتی ہے۔ ریاست ان اداروں کو کب تک کِھلا سکتی ہے۔ اسی طرح ٹیکس کے نظام اور ٹیکس کی وصولی کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔ آپ جو کچھ خریدتے ہیں اس میں ٹیکس بھی شامل ہوتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی ٹیکس زدہ ملک ہے۔ ٹیکسوں میں اضافہ کیوں کیا جائے؟ اس کا کوئی تسلی بخش سرکاری جواب نہیں ہے۔ اگر زراعت اور زراعت پر مبنی صنعت پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی تو پاکستان کے بجٹ اور تجارتی خسارے پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ اسی طرح بیرونی قرضوں اور گرانٹس پر پاکستانی معیشت کے انحصار کو کم کرنے کیلئے معاشی سوچ اور انتظامات میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ فلوٹنگ بانڈز‘ جو قرضے کی ہی ایک قسم ہے‘ اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر پر انحصار بھی کم کرنا ہو گا۔ جب تک پاکستان کی معیشت بنیادی طور پر ملکی ذرائع پر مبنی نہیں ہوگی، اس کے قومی سیاسی اور مالیاتی اختیارات اور خارجہ پالیسی کے آپشنز محدود رہیں گے۔
اگر حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتیں سیاسی جنگ میں مصروف رہیں تو درپیش معاشی مسائل سے مؤثر انداز میں نہیں نمٹا جا سکتا۔ اگر وہ جمہوری کلچر کے اصولوں پر بمشکل ہی عمل کریں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف رہیں تو پاکستان کے معاشی اور سیاسی چیلنجز سے نمٹنے کی امید کم ہی ہوگی۔ سیاسی قائدین کے رجحانات اور ان کی تنگ‘ ذاتی یا گروہی مفادات پر مبنی‘ سیاست میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل کے حل کیلئے سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کو اپنے طریقے بدلنے چاہئیں اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دینا چاہیے۔ کوئی ایک جماعت یا لیڈر پاکستان کے معاشی مسائل حل نہیں کر سکتا۔ اس کیلئے اجتماعی اور مشترکہ نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں انتہائی منقسم، اور غیراخلاقی سیاست حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو گرا دے گی‘ یوں جمہوریت‘ انتخابات اور آئین پرستی کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کرنے والوں کو تقویت ملے گی۔ مسئلہ آئین اور پارلیمانی نظام کا نہیں ہے۔ مسائل کے بڑے ذرائع سیاسی اور سماجی رہنما ہیں جو ریاست اور معاشرے کے معاملات چلاتے ہیں۔ مسئلہ انسانی فائبر کے معیار کا ہے، یعنی ان لوگوں کی انسانی خصوصیات جو پاکستان میں پالیسی سازی اور پالیسی پر عملدرآمد کیلئے اہمیت رکھتے ہیں۔ اہم سیاسی کھلاڑیوں کو موجودہ سیاسی محاذآرائی کم کرنے، معاشی مسائل سے نمٹنے کیلئے تعاون کرنے‘ بدعنوانی سے پاک دیانتدارانہ اور پیشہ ورانہ انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔ آئین اور سیاسی نظام اکیلے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل حل نہیں کرتے‘ سیاسی طبقہ ہی مسائل کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر حل کرتا ہے۔ ناکامی یا کامیابی آئین کے بجائے سیاسی طبقے اور لیڈروں کی ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں