کسی ریاست کے اعلیٰ حکام‘ جیسے حکومت یا ریاست کے سربراہ‘ وزرائے خارجہ اور وفاقی کابینہ کے اراکین کے غیر ملکی دورے سفارت کاری کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں۔ کلیدی سوال یہ ہے کہ کسی دورے سے ملکی مفاد کو فروغ ملا یا نہیں؟ اگر یہ دورہ نہ ہوتا تو کیا سفارتی طور پر ملک کو نقصان ہوتا؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر اعلیٰ عہدیدار کے ہر غیرملکی دورے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
شہباز شریف کی سربراہی میں قائم پاکستان کی نئی وفاقی حکومت نے اپنے اقتدار کے پہلے سات ہفتوں میں وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے دوروں کے بارے میں دلچسپ اعداد و شمار فراہم کیے ہیں۔ وزیراعظم نے سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات (دو بار)‘ برطانیہ اور ترکی کے دورے کیے۔ وزیر خارجہ امریکہ‘ چین‘ سوئٹزرلینڈ اور ترکی کا دورہ کر چکے ہیں۔ پاکستانی سربراہانِ حکومت اقتدار میں آنے کے بعد ہمیشہ سعودی عرب‘ چین اور ترکی کے ابتدائی دورے کرنے کے عادی ہیں۔ اس عرصے میں کسی بیرونی ملک کے کسی اعلیٰ سطحی سویلین اہلکار نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ اپریل کے وسط سے اب تک پاکستان کے ہونے والے زیادہ تر دورے دفاع سے متعلق تھے۔ ایک وزیر دفاع اور اعلیٰ سطح کے کچھ فوجی کمانڈروں نے پاکستان کا دورہ کیا۔ امریکی کانگریس کی ایک خاتون رکن نے بھی پاکستان کا دورہ کیا جسے اعلیٰ سرکاری سطح کا دورہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
حکومت یا ریاست کے سربراہ کے دورے سب سے زیادہ سنجیدگی سے کیے جانے والے معاملات ہیں کیونکہ ان کے لیے کئی خصوصی پروٹوکولز کی تکمیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کے دورے عام طور پر کسی بین الاقوامی یا علاقائی کانفرنس میں شرکت یا دو ممالک کے درمیان کچھ غیرمعمولی سیاسی یا سفارتی انتظامات کے مسودوں پر دستخط کے لیے ہوتے ہیں۔ سربراہِ مملکت یا حکومت کے دوروں‘ جو محض ایک دوسرے کو مبارکبادیں دینے تک محدود رہیں اور جن سے کوئی سیاسی یا سفارتی فائدہ حاصل نہ ہو‘ کو خلافِ معمول دورے تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے کچھ دوروں کے دوران کچھ معمول کے معاہدوں یا پروٹوکول پر دستخط کیے جاتے ہیں تاکہ دورہ بامعنی نظر آئے۔ تاہم زیادہ تر پروٹوکول معمول کے معاملات ہوتے ہیں اور لازم نہیں کہ ان کے لیے حکومت کے سربراہ کے دورے کی ضرورت ہو۔ زیادہ تر پروٹوکولز مکمل طور پر لاگو نہیں ہوتے ہیں۔ اس بات کا جائزہ لینا ہوتا ہے کہ آیا ایسے پروٹوکول پر دستخط کے لیے وزیراعظم یا صدر کے دورے کی ہی ضرورت ہے؟ اور کیا یہ کام کابینہ کی سطح کے دورے سے نہیں ہو سکتا؟ غیرملکی دورے پر پاکستانی سربراہان ہمیشہ کاروباری لوگوں سے خطاب کرتے ہیں۔ یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ اس طرح کے دوروں سے ملک میں کتنی نئی سرمایہ کاری ہوتی ہے؟ غیرملکی سرمایہ کار سربراہِ حکومت کی تقریر سن کر سرمایہ کاری نہیں کرتے بلکہ وہ اس سلسلے میں اپنا ذہن بنانے سے پہلے ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔روایتی طور پر پاکستان کے وزیر خارجہ اکثر سرکاری دورے پر بیرونِ ملک جاتے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مختلف براعظموں کے کئی ممالک کے دورے کیے۔ پچھلے دس برس کے دوران ان کے کچھ پیشروؤں کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے‘ اور لگتا ہے یہ روایت برقرار رہے گی۔
سفارت کاری میں دو طرفہ یا کثیر جہتی دوروں اور کانفرنسوں یا میٹنگز میں شرکت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پاکستان جیسے ملک کے لیے اس روایت کی تقلید سے پہلے یہ سوچنا ضروری ہوتا ہے کہ سربراہِ حکومت‘ وزیر خارجہ یا دیگر وفاقی وزراء کے دوروں سے پاکستان کو کیا سفارتی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟ سربراہِ مملکت یا سربراہِ حکومت کے دورے صرف خاص مقاصد کے لیے ہونے چاہئیں‘ وہ بھی تب‘ جب اس طرح کے دورے کا کوئی متبادل نہ ہو۔ اس بات پر بھی غور کیا جانا چاہیے کہ پاکستانی سربراہِ حکومت کو دورے کے دوران وہ مناسب احترام اور پروٹوکول ملے‘ جو سربراہانِ حکومت یا ریاست کیلئے مخصوص ہے۔وزیر خارجہ یا کسی وفاقی وزیر کو بھی اعلیٰ سطح کے دورے اسی وقت کرنے چاہئیں جب یہ سفارت کاری کے لیے ناگزیر ہوں‘ یا ایسے دورے سے کوئی خاص فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہو۔ دورے سے پہلے اس سوال کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے کہ اگر یہ دورہ نہ ہوا تو کیا سفارتی نقصان ہوگا؟ اگر کسی کانفرنس میں شرکت کے اخراجات حکومتِ پاکستان کو برداشت کرنا ہوں تو دفتر خارجہ کو احتیاط سے جانچ پڑتال کرنی چاہیے؟ بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کیلئے پارلیمنٹیرینز یا دیگر غیر سرکاری افراد کی نامزدگی پیشہ ورانہ انداز میں اور میرٹ کی بنیاد پر کی جانی چاہیے۔ ستمبر میں ہونے والے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں پاکستانی وفد کیلئے لوگوں کی نامزدگی کیلئے بھی ایسی احتیاط انتہائی ضروری ہے۔
پاکستان کے موجودہ معاشی مسائل کی وجہ سے سرکاری سرپرستی میں غیرملکی دوروں کی ضرورت کی جانچ پڑتال اہم ہو گئی ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر غیرضروری غیر ملکی دوروں کے اخراجات پورے کرنے کے متحمل نہیں ہیں۔ یہ دورے اس وقت کیے جانے چاہئیں جب کوئی متبادل ممکن نہ ہو‘ اور حکومت ایسے دوروں سے کچھ ٹھوس سفارتی یا اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے قابل ہو۔ پاکستان میں وسائل کی کمی ہے اور اخراجات کو کنٹرول کرنے کی کوشش حکومت کی اعلیٰ سطح سے شروع ہونی چاہیے۔ ان تمام غیرملکی دوروں کو‘ جن میں زیادہ اخراجات ہوتے ہیں‘ کم سے کم کر دینا چاہئے۔
پاکستان کو اپنے اعلیٰ حکام کو یہاں سے بھیجنے کے بجائے اپنے سفارت خانوں کو پہلے کی نسبت زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستان کے سفیروں یا دیگر سینئر سفارت کاروں کو کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنی چاہیے اور میزبان ملک کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعلقات‘ ثقافتی امور اور دیگر دو طرفہ اہم معاملات پر بات چیت میں مشغول ہونا چاہیے۔ پاکستان کے پاس بہترین سفارت کار ہیں جو ان ممالک میں پاکستان کے قومی مفادات کا مؤثر طریقے سے تحفظ کر سکتے ہیں‘ جہاں وہ تعینات ہیں۔ خارجہ پالیسی کے ایجنڈے پر عمل کرنے کے لیے ان پر زیادہ انحصار انہیں زیادہ اعتماد دے گا اور اسلام آباد میں مقیم اعلیٰ پاکستانی حکام کے غیرملکی دوروں پر ہونے والے اخراجات کو کم کرے گا۔
جدید انفارمیشن اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجیز اور انٹرنیٹ پر مبنی وڈیو کمیونی کیشن سسٹم نے اعلیٰ حکام کے بار بار سفر کرنے کی روایتی سفارت کاری کو تبدیل کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ وہ اپنے اپنے دارالحکومتوں میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو جدید کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے سفارتکاری کے نئے طریقوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ عالمی سطح پر پاکستان کا سفارتی اثر و رسوخ صرف پاکستان کے وزیراعظم‘ وزیر خارجہ یا دیگر وفاقی وزرا کے غیر ملکی دوروں سے نہیں بڑھ سکتا۔ پاکستان کو عالمی برادری کیلئے خود کو اقتصادی طور پر پُرکشش بنانے کی زیادہ ضرورت ہے‘ لہٰذا پاکستان کو اپنے معاشی معاملات کو ٹھیک کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ اسے اپنے معیشت کے ملکی ذرائع کو مضبوط بنانے اور خود کو بین الاقوامی سرمایہ کاری‘ تجارت اور دیگر ممالک کے ساتھ تکنیکی تبادلوں کیلئے پُرکشش بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان کی ویلیو ایڈڈ زرعی و صنعتی مصنوعات اور ٹیکسٹائل‘ بین الاقوامی منڈیوں میں مضبوط اثر ڈالتی ہیں تو پاکستان کا سفارتی اثر و رسوخ بڑھے گا‘ اس کے نتیجے میں زیادہ غیرملکی وفود پاکستان آئیں گے‘ بجائے اس کے کہ پاکستان کے اعلیٰ حکام غیرملکی دوروں پر جائیں جبکہ اس طرح کے دورے کی ضرورت بھی نہ ہو۔ پاکستان کو سفارت کاری کے نئے طریقے تلاش کرنا ہوں گے اور معیشت پر توجہ دینا ہو گی۔