پی ڈی ایم/ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے مابین سخت محاذ آرائی اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ جمہوری کلچر اور اس کی روح کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ آئین میں درج جمہوری اصولوں اور پاکستانی سیاست کے عملی حقائق کے درمیان خلیج گہری اور بڑی حد تک غیر متعلق بھی ہو چکی ہے۔ اگر ہمارا طرزِ سیاست اسی ڈگر پر چلتا رہا تو مستقبل میں ہمارے جمہوری عمل کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ زیادہ تشویش ناک پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ہمارے متحارب سیاسی کھلاڑی اس حقیقت کے ادراک میں ناکام ہوئے ہیں کہ حکمران جماعت اور اپوزیشن‘ دونوں جمہوری عمل کا جز و لاینفک ہوتے ہیں۔ وفاق میں حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کی پوری کوشش ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کی اعلیٰ قیادت کو تکنیکی بنیادوں پر سیاست کے میدان سے نیست و نابود کردے مگر یہ کسی طور آئین پسندی اور جمہوریت کی خدمت نہیں ہے۔ جب سے مسلم لیگ (ن) پنجاب میں حکومت سے محروم ہوئی اس رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کا تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی تقسیم کا ایک دھیما مگر مستقل عمل جاری ہے۔ شہبار شریف حکومت کو ایک طرف جہاں معیشت کی بحالی جیسے کوہِ گراں کا سامنا ہے وہیں اسے پارٹی کے اندر سے بھی مخالفت کا سامنا ہے۔ پارٹی کا ایک حصہ نہیں چاہتا کہ شہباز شریف بیرونِ ملک مقیم پارٹی قیادت سے زیادہ خود مختار ہو جائیں۔
پاکستانی سیاست کو مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان جاری اس سیاسی طرزِ عمل میں تحمل اور اعتدال پسندی کی اشد ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کی قیادت کے خلاف غیر مہذب اور مغلظ زبان کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ ہماری سیاست کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے خوشامدی عناصر کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس رجحان کی بہر صورت حوصلہ شکنی ہونی چاہیے کیونکہ اس سے ہمارے سماج اور خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کے اندازِ تکلم میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس سیاسی ماحول میں بہتری لانے کی بڑی ذمہ داری حکمران جماعت پر عائد ہوتی ہے جسے ریاستی مشینری پر پوری دسترس حاصل ہے اور وہ اسے اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اپوزیشن کو بھی اس کے حقِ حکمرانی کا احترام اور ادراک کرنا چاہیے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی ملک کو درپیش معاشی مسائل سے نبردآزما ہونے کیلئے اپوزیشن کو مشترکہ اپروچ اپنانے کی دعوت بھی لائقِ تحسین ہے۔ پاکستان کے معاشی گرداب خاص طور پر غربت‘ پسماندگی اور مہنگائی جیسے سنگین مسائل سے اس وقت تک مؤثر انداز میں نمٹنا ممکن نہیں ہے جب تک حکومت اور اپوزیشن کے مابین تعاون کی فضا کو فروغ نہیں ملتا۔ اس سے ملکی سیاست میں جاری کشیدگی اور بے یقینی میں بھی کمی آئے گی۔ تاہم اگر موجودہ کشیدہ سیاسی ماحول میں اعتدال کا عنصر غالب نہیں آتا تو بامعنی اور ٹھوس مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔ وزیراعظم کس طرح اپنے ایجنڈے پر بات چیت کی توقع کر سکتے ہیں جب تک وہ اپوزیشن کیساتھ سیاسی جنگ اور چپقلش میں ملوث ہیں؟ سیاسی ڈائیلاگ ایک مد دگار سیاسی فضا کا متقاضی ہوتا ہے جو تاحال نظر نہیں آتا۔ ایسا کوئی عندیہ نہیں ملتا کہ حکومت اور اپوزیشن موجودہ سیاسی کشیدگی میں کمی لانے کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ بامقصد مذاکرات کیلئے لفظی جنگ بندی اولین تقاضا ہے۔
اگر ہم 13اگست کی رات وزیراعظم کے قوم سے خطاب کا جائزہ لیں جس میں انہوں نے ایک میثاقِ جمہوریت کی بات کی ہے تو ہمیں ان کی تقریر کے اندر بھی ایک دوغلا پن نظر آتا ہے۔ اپنے خطاب میں بھی انہوں نے اپوزیشن کی طرف دستِ تعاون بڑھانے کے بجائے اسے ہدفِ تنقید زیادہ بنایا‘ جس سے تعاون کی خواہش زیادہ سرگرمی نہ پیدا کر سکی۔ جب تک سیاسی ماحول کو بہتر اور ساز گار بنانے کیلئے کچھ اہم اقدامات نہیں کیے جاتے اس وقت تک اپوزیشن کے ساتھ اس مرحلے پر کسی قسم کی بات چیت کی امید قائم کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
پی ٹی آئی بار بار عام انتخابات کے انعقاد کیلئے مذاکرات کی بات کر رہی ہے۔ عمران خان کی بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کو اس مرحلے پر عام انتخابات کی بات سننا بھی گوارا نہیں ہے کیونکہ حکمران جماعت ابھی تک عام شہری کو کوئی معاشی ریلیف نہیں دے سکی۔ مذاکرات کیلئے جو دو ایجنڈا آئٹمزہیں یعنی میثاقِ جمہوریت اور قبل از وقت انتخابات‘ اس وقت تک بات چیت کیلئے بنیاد فراہم نہیں کر سکتے جب تک مسلم لیگ (ن) ریاستی اختیارات کی حدود کا ادراک نہیں کر لیتی جو کسی سیاسی لیڈر یا جماعت کی ذاتی میراث اور ملکیت نہیں ہوتے۔ اصل اہمیت جمہوری عمل اور مہذب سیاسی ماحول کے تسلسل کی ہوتی ہے۔ اپوزیشن کو بھی اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ سیاست میں محاذ آرائی ہی آخری حکمت عملی نہیں ہوتی۔ جمہوریت متنازع ایشوز پر سیاسی روا داری اور باہمی طور پر قابلِ قبول حل کی تلاش کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن سیاسی ماحول میں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے اور سیاسی اور معاشی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں توانہیں بات چیت کیلئے ایک مثبت سیاسی ماحول پیدا کرنے کیلئے درج ذیل اقدامات کرنا ہوں گے۔
اول یہ کہ حکمران اتحاد کی اعلیٰ ترین قیادت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے پر طنزیہ جملے بازی کا سلسلہ ترک کرنا ہوگا۔ حکمران اتحاد کی اعلیٰ قیادت کو چاہیے کہ وہ پارٹی پالیسیوں کی تشریح کو اپنی اولین ترجیح بنا لے کہ یہ کس طرح عام آدمی کی فلاح و بہبود کیلئے کام کر رہی ہیں۔ جبکہ اپوزیشن حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے کیساتھ ساتھ اپنی متبادل پالیسیاں پیش کرکے یہ بتا سکتی ہے کہ یہ کس طرح ریاست اور سماج کی فلاح کیلئے بہتر انداز میں کام کر سکتی ہیں۔ آج کل اپنی پالیسیاں پیش کرنے کے بجائے پی ڈی ایم کی اعلیٰ قیادت اپنے سیاسی مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنانے اور ان کی مذمت کرنے میں مصروف نظر آتی ہے۔ اس منفی اپروچ کی درستی اشد ضروری ہے۔دوم یہ کہ ہر پارٹی قیادت کو چاہیے کہ اپنی اپنی جماعت میں بدزبانی کا مظاہرہ کرنے والے رہنماؤں کی گوشمالی کرے اور انہیں متنبہ کرے کہ وہ سیاسی حریفوںکے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ناشائستہ اور غیر پارلیمانی الفاظ کا استعمال کرنے سے گریز کریں۔ اگر ہماری سیاست موجودہ روش پر ہی چلتی رہی تو سیاسی تلخی میں کمی اور سیاست کے ماحول میں کسی بہتری کے امکانات زیادہ روشن نہیں ہیں۔
سوم یہ کہ پی ڈی ایم/ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو چاہیے کہ پی ٹی آئی کو ریاست مخالف جماعت قرار دینے اور پارٹی پر پابندی عائد کرکے اس کی قیادت کو سیاسی کار زار سے باہر نکالنے کی تمام کوششیں ترک کردے۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف اس حکمت عملی کا مقابلہ کرنے کے لیے شہر شہر ریلیاں نکال کر اور جلسے کرکے اپنی عوامی سپورٹ کا مظاہر ہ کر رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد عام آدمی کے لیے ملکی معیشت اور اس کی کارکردگی تیزی سے روبہ زوال ہے۔ پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ وہ اپنے غیرملکی سازش‘ آزاد خارجہ پالیسی اور دونوں مخالف سیاسی جماعتوں کی کرپشن کے سیاسی بیانیے کو مؤثر اور مقبول بنانے کے لیے عوام کو متحرک کرے۔ ان ساری باتوں کا مطلب ہے کہ سیاسی محاذ آرائی کا سلسلہ ہنوز جاری رہے گا۔
اب وقت آگیا ہے کہ دانشمندی‘ تحمل و برداشت اور شائستگی کا چلن اپنا کر مثبت سیاسی ماحول پیدا کیا جائے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے تو اس کا نتیجہ جمہوری عمل کو نقصان پہنچنے اور معاشی مسائل کی سنگینی کی صورت میں ہی نکلے گا۔ مثبت تبدیلی اسی صورت ممکن ہے اگر سیاسی قیادت انا پرستی پر مبنی سیاست اور اپنے سیاسی حریفوں پر غلبہ پانے کی خواہش اور کوشش کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا ادراک کرلے۔