سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو کے 553ویں جنم دن کی تقریبات میں شرکت کیلئے بھارت اور دیگر ممالک سے ہزاروں سکھ اس وقت پاکستان کے دورے پر ہیں۔ سکھ یاتری پاکستان میں سکھوں کے تمام مذہبی مقامات کا دورہ کریں گے۔ اس طرح کے دوروں کو حکومت پاکستان کی طرف سے منظم کیا جاتا ہے جو یہاں موجود دیگر مذاہب کے مذہبی اور تاریخی مقامات کے تحفظ اور ان مذاہب کے غیر پاکستانی پیروکاروں کی ان مقامات کی زیارت کیلئے حوصلہ افزائی کی پالیسی کا حصہ ہے۔
اس سلسلے میں تاریخ ساز فیصلہ 9 نومبر 2019 ء کو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کرتار پور کوریڈور کا افتتاح تھا جس نے بھارتی سرحد کو ضلع نارووال میں بابا گرو نانک کے گوردوارے سے منسلک کر دیا اور حکومت پاکستان نے بھارتی سکھوں کو بغیر ویزے کے ایک دن کیلئے گوردوارے پر آنے کی اجازت دے دی۔ کرتار پور کوریڈور ایک خاص طور پر تعمیر کی گئی تقریباً تین میل لمبی جدید شاہراہ ہے جو پاک بھارت سرحد کو گوردوارے سے جوڑتی ہے اور آنے والے سکھوں کیلئے ایک مؤثر ٹرانسپورٹ سسٹم کی حامل ہے۔ اس راہداری کے ذریعے اب تک 1 لاکھ 10 ہزار 670 ہندوستانی شہری گوردوارے پر حاضری دے چکے ہیں۔ بہت سے ہندوستانی سکھوں نے کرتارپور کے اپنے دوروں کی وڈیوز یو ٹیوب اور انٹرنیٹ پلیٹ فارمز پر ڈال رکھی ہیں جن میں کرتار پور کوریڈور اور گوردوارے کی زبردست تعریف کی گئی ہے۔ وہ اپنے دورے کے دوران ملنے والے شائستگی کے سلوک کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ سکھوں کیلئے خصوصی دورے کی سہولیات پاکستان کی سفارت کاری کے دائرہ کار کو بڑھانے کی پالیسی کی نمائندگی کرتی ہیں۔
روایتی طور پر بین الریاستی تعلقات میں سفارت کاری ریاستوں کے درمیان سرکاری بات چیت تک محدود تھی‘ اعلیٰ حکام کے دورے‘ پروٹوکولز اور معاہدوں پر دستخط اور تجارت اور سفارت خانے کی بنیاد پر سرکاری بات چیت‘ یہ ریاست سے ریاست کا سرکاری تعامل تھا جو سفارت کاری کا ایک محدود نقطہ نظر تھا۔ بعد میں اس کے دائرہ کار کو بڑھا کر اس میں سابقہ حکام اور سماجی اشرافیہ کے درمیان بات چیت کو شامل کیا گیا۔ آج کل سفارت کاری میں سماجی گروپوں اور تنظیموں کے درمیان غیر سرکاری تعامل بھی شامل ہے۔ ثقافت اور تاریخ کے ساتھ ساتھ شہریوں کی کامیابیاں بین الاقوامی سطح پر خیر سگالی پیدا کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ میڈیا گروپس‘ ماہرین تعلیم‘ طلبا اور دیگر سماجی گروپوں کے تبادلوں سے عالمی سطح پر سفارتی امیج کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ اسی طرح کھیل‘ سیاحت اور ثقافتی سرگرمیاں بھی کسی ملک کا مثبت امیج بنانے میں مدد کرتی ہیں‘ خاص طور پر اگر کسی ملک میں بین الاقوامی شہرت کے حامل کھلاڑی ہوں۔
مذہبی سیاحت کو ملک کیلئے خیر سگالی پیدا کرنے کے سلسلے میں ایک اہم حکمت عملی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان نے پچھلے صرف چھ‘ سات سال سے اس طرف توجہ دینا شروع کی ہے۔ پاکستان میں سکھ مذہب کے بڑے مذہبی مقامات موجود ہیں۔ بدھ مت کے ورثے کے آثار ٹیکسلا اور پاکستان کے شمال مغرب اور شمال کے دیگر علاقوں میں ملتے ہیں۔ سوات اور کے پی کے دیگر علاقوں میں پتھروں پر بدھ مت کے نقش موجود ہیں۔ پشاور‘ ٹیکسلا اور لاہور کے عجائب گھروں میں بدھ دور کے نمونے ہیں جن میں بدھا کے کچھ نادر مجسمے بھی شامل ہیں۔ کچھ اہم ہندو مندر سندھ اور پنجاب میں واقع ہیں۔ ہندوؤں کا ایک مشہور مقام پنجاب میں کٹاس راج ہے۔ پاکستان اب مذہبی سیاحت کی حوصلہ افزائی پر توجہ دے رہا ہے۔ کرتار پور راہداری کھلنے کے بعد سکھ زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندو یاتریوں نے بھی گزشتہ چند سال سے پاکستان کا دورہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ جنوری 2019ء میں حکومت پاکستان نے پشاور میں ایک ہزار سال پرانے ہندو مندر کو قومی ورثہ قرار دیا تھا۔بدھ مت کے ماننے والوں کے دل میں پاکستان کے لیے خاص مذہبی احترام ہے‘ ان کا ورثہ اور تہذیب جزوی طور پر پاکستان میں واقع ہے۔ 2012ء سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اور سری لنکا کے متعدد وفود نے پاکستان میں ان مقامات کا دورہ کیا ہے۔ جنوبی کوریا‘ تھائی لینڈ اور سری لنکا سے بھی ایسے وفود دورے کر چکے ہیں جنہوں نے ٹیکسلا اور پشاور کے عجائب گھروں میں بدھ کے مجسموں کے سامنے اپنی مذہبی تقریبات منعقدکیں۔ جنوبی کوریائی باشندے ضلع صوابی (کے پی) میں چھوٹا لاہور نامی قصبے سے خصوصی تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس قصبے سے ایک بدھ راہب 384 عیسوی میں آج کے جنوبی کوریا آیا تھا اور وہاں اس نے بدھ مت متعارف کرایا تھا۔ پاکستان نے 2016ء اور 2018ء میں بدھ مت کے مجسمے اور گندھارا آرٹ کے نمونے جنوبی کوریا‘ سری لنکا اور سوئٹزرلینڈ نمائش کے لیے بھیجے تھے۔
پاکستان کا تہذیبی ورثہ بہت طاقتورہے اور بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ توجہ اپنی طرف مبذول کرواتا ہے۔ اس میں مہر گڑھ کے آثار (بلوچستان) اور موہنجو داڑو اور ہڑپہ میں وادی سندھ کی تہذیب شامل ہیں۔ ایک اور اہم اثاثے میں وہ فن اور فنِ تعمیر بھی شامل ہے جس کی سرپرستی مسلمان حکمرانوں نے کی‘ خاص طور پر مغل خاندان نے۔ ان میں سے کچھ تاریخی عمارتوں‘ قلعوں اور باغات کو یونیسکو نے عالمی اہمیت کے ورثے کے مقامات کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ پاکستان کی لوک اور صوفیانہ موسیقی پاکستان سے باہر بھی توجہ حاصل کرتی ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں کی قدیم زبانیں اور مقامات‘ بشمول اونچے پہاڑ‘ بیرون ملک سے ماہرین تعلیم اور کوہ پیماؤں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔
جدید میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے سے پاکستان کے ورثے اور تاریخی و ثقافتی مقامات کو بیرون ملک پیش کرنے کے مواقع بڑھ گئے ہیں۔ اس سے بیرون ملک پاکستان کا امیج ایک ایسی سرزمین کے طور پر بنانے میں مدد ملتی ہے جس کی تاریخ کئی ہزار سال پرانی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی تاریخی مقامات کی دیکھ بھال کو بھی نسبتاً آسان بناتی ہے۔ اس سے پاکستان کا ایک نرم امیج بنتا ہے جس سے سفارت کاری میں مدد ملتی ہے۔ مغل ‘ سکھ اور برطانوی دورِ حکومت کے تاریخی آثار کو محفوظ کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آزادی کے بعد کے ریکارڈز کو محفوظ کرنے اور بیرون ملک کے اور پاکستان کے محققین کیلئے دستیاب کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان نے پرانے ریکارڈ کو محفوظ کرنے کی قابلِ تعریف کوشش کی ہے۔ پاکستان آرکائیوز اور پرانے ریکارڈ کو پرنٹ یا ڈیجیٹلائز کر سکتا ہے۔ اسے جناح پیپرز کی روایت میں مزید دستاویزات شائع کرنے کی ضرورت ہے۔
وراثت‘ ثقافت اور مذہب پر مبنی سفارت کاری مددگار ثابت ہو سکتی ہے ‘اگر افراد اور نجی گروہوں کیلئے ان مقامات کو محفوظ طریقے سے دیکھنے کیلئے معیاری انتظامات ہوں۔ فی الحال‘ زیادہ تر گروپ سرکاری چینلز کے ذریعے آتے ہیں۔ پاکستان کو مناسب قیمتوں پر سیاحتی سہولتوں کی فراہمی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سیاحوں کی حفاظت بھی ثقافتی ورثے اور ثقافتی سفار کاری کیلئے اہم ہے۔ مذہبی اور ثقافتی عدم برداشت‘ انتہا پسندی اور دہشتگردی دوسرے ممالک سے سیاحوں کے آنے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات یا چینیوں پر حملوں کی خبریں دوسرے لوگوں کی سیاحت اور مذہبی تعلق کی بنا پر پاکستان آنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ پاکستان کو ثقافتی سفارت کاری کو آگے بڑھانے کیلئے ماضی اور حال سے متعلق اپنے وسائل کو بروئے کار لانا چاہئے۔ اس طرح کی غیر سرکاری سفارت کاری اور دوسرے معاشروں کے ساتھ سماجی روابط سے پیدا ہونے والی خیر سگالی دو طرفہ سفارت کاری میں مدد دیتی ہے۔