"HAC" (space) message & send to 7575

پاکستان اور جنوبی ایشیائی ممالک

پاکستان کو مسلسل بگڑتی معاشی صورتحال کاسامنا ہے‘ جس میں افراطِ زر‘اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ‘ادائیگی میں توازن‘ بجٹ خسارہ اور زر مبادلہ کے ذخائر میں گراوٹ جیسے مسائل شامل ہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے جلد قرضے کی قسط چاہئے‘ جس سے اس کی معیشت کو ایک عارضی ریلیف مل جائے گا؛ تاہم اگر وہ اپنے پچھلے قرضے واپس کرنے کے لیے غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرنے یا پرانے قرضوں کی از سر نو تجدید پر مجبو رہو تو ایسی معیشت کو خود انحصار ی سے تعبیر کرنا ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ آئی ایم ایف کی قسط ملنے سے عوام کی مالی حالت دگر گوں ہو جائے گی کیونکہ حکومت کو یہ قسط لینے کے لیے بجلی‘ گیس اور دیگر اشیا ئے ضروریہ کی قیمتوں میں بھاری اضافہ کرنا پڑے گا۔اس طرح ملک تو شاید ڈیفالٹ سے بچ جائے مگر عوام کے ایک بڑے حصے کو معاشی زبوں حالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
1960ء اور1980 ء کے عشروں کی مستحکم معیشت کے برعکس آج پاکستان کو سنگین معاشی تنزلی کا سامنا ہے۔پاکستان ترقی کی دوڑ میں اکثر جنوبی ایشیائی ممالک سے آگے تھا مگر آج صورتحال اس کے برعکس ہے۔ آج ان ممالک کی اکثریت پاکستان سے کہیں بہتر اور مستحکم معیشت کی حامل ہے۔ جنوبی کوریا‘ملائیشیا اور سنگاپور جیسے ممالک نے نمایاں ترقی کی ہے۔انڈونیشیا‘ تھائی لینڈ اور ویتنام نے بھی گزشتہ دو دہائیو ں کے عرصے میں شاندار معاشی ترقی کی ہے۔ معاشی میدان میں یہ تمام ممالک پاکستان سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ لائوس او رکمبوڈیا جیسے ممالک اپنے معاشی ایشوز فہم و فراست سے طے کر رہے ہیں۔معاشی ترقی کے سفر کی ایک قابلِ ذکر کہانی جاپان سے متعلق ہے جو دوسری جنگ عظیم میں مکمل طورپر تباہ ہو گیا تھا۔
یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ان ممالک کی معیشت نے پاکستان کی مسلسل ڈانواں ڈول معیشت کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کامظاہرہ کیسے کیا ؟ جنوبی ایشیائی ممالک کی معاشی کارکردگی کو کئی عوامل کے تناظر میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو اس امر کی طرف توجہ مبذول کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ ان ممالک نے ترقی کی یہ منازل کیسے طے کی ہیں۔ان جنوبی ایشیائی ممالک نے سیاست سے زیادہ معاشی مسائل کواپنی اولین ترجیح بنایا۔ معاشی اشاریے ہی کسی ملک کی سیاسی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان ممالک کی حکومتوں نے صنعتی اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے ایسی پالیسیاں اپنائیں جن میں ان کا سارا فوکس برآمدات پر مبنی صنعت اور معاشی سرگرمی پر مرکوز رہا۔ مائیکرو اور میکرو سطح پر ملک کی معاشی بحالی پر توجہ دی گئی۔ان ممالک نے انٹرنیشنل سطح پر مسابقت کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو اپنا یا اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کی خوراک اور اشیائے ضروریہ پر توجہ دی جنہیں ملکی سطح پر پیدا کیا گیا یا بیرونی ممالک سے منگواکر ضرورت پوری کی گئی؛چنانچہ صنعت کے شعبے میں پیش رفت کو زرعی ترقی کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ان تمام ممالک میں اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اورعمومی لوازماتِ زندگی مہنگے ہوگئے ہیں مگر حکومتوں نے مارکیٹس کو مانیٹر کرکے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کر لیا۔ان ممالک میں بھی غربت موجود ہے مگر اس میں تیزرفتاری سے اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ کسی حد تک اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ان ممالک نے حکومتوں میں پائی جانے والی کرپشن پر چیک رکھنے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے ہیں۔ان کی ساری توجہ بڑے بڑے ایسے سرکاری معاہدوں میں کک بیکس اور کمیشن کو کنٹرول کرنے پر مرکوز ہے جن میں اعلیٰ حکومتی شخصیات کا عمل دخل ہوتا ہے‘ تاہم کچھ ممالک میں نچلی سطح پر دفتری مراحل میں کام کی روانی میں سہولت کاری کے لیے کسی حد تک پیسے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کاروباری لوگ مقتدر حکام کے ساتھ حکومت کے اندر اور باہر ڈیل کربھی لیتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آخری دو عشروں میں ان میں سے بعض ممالک میں کرپشن کے سنگین کیسز رپورٹ ہوئے مگر اکیسویں صدی میں قوانین کے سخت نفاذ کی وجہ سے صورتحال میں بہتری آئی ہے۔
ان ممالک کی سیاست میں اتنی گروہی تقسیم‘تلخی اور محاذ آرائی نہیں پائی جاتی جس کا آج کل پاکستان کو سامنا ہے۔سیاستدان ایک دوسرے کونیچا دکھانے کے لیے اتنی گھٹیا سطح تک نہیں گرتے۔چھوٹی موٹی سیاسی تلخی اور کشیدگی تو ان ممالک میں بھی پائی جاتی ہے جس کا الیکشن کے دنوں میں اظہار بھی ہوتا رہتاہے۔تاہم اس محاذآرائی کو معیشت کو نقصان پہنچانے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ ان ممالک نے اپنے ہاں نسلی تضادات بھی کم کر لیے ہیں جس سے ملکی معیشت کو بہتر بنانے میں خاصی مددملی ہے۔ یوں معاشی خوشحالی کی بدولت نسلی مسائل کو حل کرنا بھی ممکن ہو گیا۔ایک وقت تھا جب ان ممالک کے چینی اور بھارتی نژاد شہریوں کو مقامی آبادی کے ساتھ سخت تنازعات کے تجربے سے گزرناپڑا مگر اب ایسی نسلی کشیدگی محدود پیمانے پر ہی نظر آتی ہے۔ ان ممالک نے اپنے دوطرفہ علاقائی ایشوز بھی حل کر لیے ہیں یا ان کی سنگینی اور شدت کوکم کر لیا ہے۔ان ممالک میں مستحکم اور پُر امن باہمی تعلقات استوار ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ علاقائی تعاون کی مد د سے کامیابیوں کا حصول ممکن ہو سکا ہے۔ آسیان نے خود کوعلاقائی تعاون کی ایک کامیاب تنظیم ثابت کیاہے۔ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار اورپرامن تعلقات نے ہر ملک کے لیے اور مجموعی طورپر پورے ریجن کے لیے معیشت دوست ماحول فراہم کیا ہے۔
ان ممالک میں مذہب کو کلچر کا حصہ سمجھا جاتا ہے مگر یہ سیاسی اور معاشی فیصلہ سازی پر اثرا نداز نہیںہوتا۔حکومتیں مذہبی حساسیت کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہیں مگران کی قومی حکومتیں مذہب کو دوسروںپرمسلط نہیں کرتیں؛ تاہم انڈونیشیا میں مقامی اور علاقائی حکومتیں مذہب کی بنیاد پر قا نون سازی کر سکتی ہیں۔ان میں سے کچھ ممالک میںشدت پسند مذہبی گروپ موجود ہیں مگر ریاست ان پر کڑی نظر رکھتی ہے اور ان کی سرگرمیو ں کومحدود رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کرتی رہتی ہے۔ بعض ممالک کے کچھ حصوں میں دہشت گردی اور متشدد مخالف سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں مگر ان سے ملک کی قومی دھارے کی سیاست اور معیشت پر مضراثرات مرتب نہیںہوتے۔ ان ممالک کی حکومتوں نے اپنی توجہ اور وافر مالی وسائل افرادی قوت کی ترقی پر صرف کیے ہیں۔ان کا ہدف ایسی سکلڈ افرادی قوت مہیا کرنا ہے جو قانون کا احترام کرتی ہو۔سب سے زیادہ توجہ تعلیم اور صحت پر مرکوز ہے۔تعلیمی نظام کاسارا فوکس معیاری تعلیم‘سائنس‘ٹیکنالوجی اور علم کے حصول پر ہے۔حکومتیںپرائمری سے لے کر یونیورسٹی سطح تک کی تعلیم پراپنے مالی وسائل صرف کرتی ہیں۔ان ممالک میں عام شہری کی صحت میں بہتری لانا ریاستی ذمہ داری ہے اور وہی اس کا بندوبست کرتی ہے۔اس کے پس پردہ یہ تصور کارفرماہے کہ جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی سے لیس صحت مند انسان ہی مؤثر طریقے سے قومیت سازی میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔اب نجی شعبہ بھی تعلیم اور صحت کے شعبے میں متحرک نظر آتا ہے مگر ابھی تک ریاست نے اپنے شہریوں سے متعلق ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑا۔
اگرپاکستان بھی سیاسی طورپر مستحکم اور معاشی طورپر پائیدار ملک بننا چاہتا ہے تو اسے ان آسیان ممالک سے سبق سیکھنا چاہئے۔ ہمارے لیے سبق موجود ہیں کہ ان اقوام نے اپنی ریاست‘سماج اور علاقائی ماحول کو کیسے تبدیل کیا۔ اگر یہ ریاستیں کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہیں تو پاکستان ایک مستحکم معیشت اور مثبت سیاست کی راہ پر کیوں گامزن نہیں ہو سکتا؟پاکستان نے آج تک انسانی وسائل کی ترقی‘ معیاری تعلیم اور ہیلتھ کیئر کو بری طرح نظر انداز کیا ہے۔ پاکستان کو اپنے نسلی مسائل‘منحرفانہ سرگرمیوں اور معاشی ناہمواریوں کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر نا چاہئے۔اسے علاقائی تناظر میں دوطرفہ تعاون اور گرمجوشی کی اہمیت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں