سفارت کاری ایک پیچیدہ اور مسلسل عمل ہے کیونکہ عالمی نظام پراب کسی ایک یا دو سپر پاورز کا غلبہ نہیں رہا۔ یہ ایک کثیر جہتی نظام بن گیا ہے جس میں طاقت کے کئی مراکزوجود میں آچکے ہیں۔ اگرچہ عسکری اور معاشی سبقت کے حامل ممالک ہی بالادست کردار ادا کرنے کی استعداد رکھتے ہیں تاہم طاقتور ممالک کے تجربے سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ صرف معاشی اور دفاعی قوت اب ان کیلئے کامیابی کی یقینی ضمانت نہیں رہی۔انہیں عالمی نظام میں بہت سے علاقائی ممالک او رطاقت کے مختلف مراکز کی سپورٹ درکار ہوتی ہے۔چونکہ عالمی سیاست بہت زیادہ بدنظمی اور انتشار کی شکار ہو گئی ہے چنانچہ اس کے متواتر ریویو کے ساتھ ساتھ سفارت کاری کے طریقوں میں بہتری کی ضرورت بھی رہتی ہے۔
کسی زمانے میں سفارتکاری ریاستوں کے مابین سرکاری سطح پر تال میل یا انٹرایکشن تک محدود ہوتی تھی۔کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی میں بین الحکومتی سطح کے تال میل کو خاص اہمیت حاصل ہوتی تھی اور اعلیٰ سرکاری حکام کے باہمی دوروں کو خارجہ پالیسی کے ایجنڈا کی تکمیل کے تناظر میں خصوصی ترجیح دی جاتی تھی۔ اس نوعیت کی ڈپلومیسی کو آج بھی بروئے کار لایا جاتا ہے اور ایسے تال میل کو بھی مختلف ریاستوں کے باہمی تعلقات کیلئے اہم سمجھا جا تا ہے؛ تاہم اسے سفارتکاری کاصرف ایک پہلو ہی گردانا جاتا ہے۔ دورِ حاضر میں سفارتکاری ایک کثیر جہتی عمل بن چکی ہے۔ ریاستوں کے مابین ایسے کئی طرح کے غیر سرکاری اور نیم سرکاری روابط کام کر رہے ہوتے ہیں جو جدید ڈپلومیسی کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ ڈپلومیسی کے وسیع تر تصور میں سوسائٹی کے اہم طبقات کے درمیان غیر سرکاری تعلقات اور روابط بھی شامل ہوتے ہیں مثلاًریٹائرڈ بیوروکریٹس‘ریٹائر ڈ ملٹری آفیسرز‘میڈیا پرسنز‘ دانشوراور انسانی فلاح و بہبود پر کام کرنے والی این جی اوز وغیرہ۔سیاسی جماعتوں‘گروپس اور مختلف ممالک کے پارلیمنٹیرینز کے درمیان باہمی تال میل کو بھی کشیدگی کم کرنے یا غیر سرکاری ذرائع سے سرکاری پیغام رسانی میں خصوصی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔عام طورپرحکومتیں خوداس طرح کی غیر سرکاری میل ملاقاتوں سے فاصلہ رکھتے ہوئے ان کی کارروائیوں اور سفارشات پر خصوصی نظر رکھتی ہیں۔
ایک ریاست سے دوسری ریاست تک کوئی پیغام بھیجنا مقصود ہو تو مختلف ممالک کے میڈیا پرسنز اور دانشوروں کو بھی دوطرفہ رابطہ کاری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔1977ء میں مصر کے صدر انورسادات نے اسرائیل کے ساتھ براہ راست بات چیت کا عندیہ دینے کیلئے ایک نیوز چینل کواستعمال کیا تھا۔اسرائیلی حکومت نے قدرے پس وپیش کے بعد مثبت رد عمل کااظہار کیا جس کے بعد مصر اسرائیل سرکاری رابطہ قائم ہوااور یوں دونوں ممالک کے مابین امن مذاکرات کی شروعات ہوئی۔کئی دوسری حکومتوں نے بھی دوطرفہ تعلقات میں بہتری کی امید پر سپورٹس‘ثقافتی وفود کے تبادلوں او رغیر سرکاری دوروں کی ڈپلومیسی کااستعمال کیا ہے۔امریکہ اور چین کے درمیان مشہور ''پنگ پانگ‘‘ڈپلومیسی دراصل ٹیبل ٹینس کے امریکی کھلاڑیوں کے 1971ء میں چین کے دورے کی طرف اشارہ کرتی ہے جو امریکہ او رچین کے درمیان پہلا غیر سرکاری رابطہ تھا۔پاکستان نے بھی چین اور امریکہ کے تعلقات کو معمول پر لانے میں ایک سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔1971ء میں ہنری کسنجر بظاہرتوپاکستان کے دورے پر تھے مگردرحقیقت انہوں نے چین کا خفیہ دورہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 1972ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کے دورئہ چین کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ حکومت پاکستان نے2019ء کے بعد غیر ملکیوں کیلئے ویزا پروسیجر کو آسان بنانے کیلئے کئی اقداما ت کیے تاکہ بڑی تعدا د میں غیر ملکی سیاح پاکستان آئیں۔پاکستان میں سیاحت کو نائن الیون حملوں او رخاص طورپر 2007ء کے بعد اس وقت شدید دھچکا لگا جب یہاں دہشت گردی کے واقعات میں شدید اضافہ ہوگیا تھا۔ پاکستان نے2011-12ء میں ویزا جاری کرنے کیلئے بعض اضافی سکیورٹی چیکس متعارف کرائے جن کی وجہ سے امریکہ او ر یورپی ممالک کے سیاحوں کی پاکستان آمد میں مزید کمی ہو گئی۔ ویزا پالیسی میں تبدیلی اسی وقت ممکن ہوسکی جب جون2014ء میں ہونے والے کامیاب سکیورٹی آپریشنز کے بعد ملک میں امن وامان کی داخلی صورتحال میں تسلی بخش بہتری آئی۔اس کے نتیجے میں مقامی سیاحت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ؛ چنانچہ وفاقی حکومت اب غیر ملکی سیاحوں کو بھی خوش آمدید کہنے کیلئے بہت پر اعتماد نظر آتی ہے۔2022-23ء میں دہشت گردی کے دوبارہ واقعات نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تشویش پیدا کرنے کا باعث بن گئے ہیں خاص طور پر وہ حلقے جو کاروبار‘ سیاحت یا ذاتی وجوہ کی بنا پر پاکستان کا دورہ کرنے کے خواہشمند ہیں۔
کسی ملک کا سفارتی امیج اس کاسافٹ امیج پیش کرنے اور بین الاقوامی سسٹم کے ساتھ اس کی مثبت موافقت پیدا کرنے سے ہی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس دونوں طرح کی سٹریٹجی کی استعداد بدرجہ اتم موجود ہے بشرطیکہ حکومت پاکستان اور اس کے غیر سرکاری حلقے ان پر بھرپور توجہ دینے پر آماد ہ ہوں۔ پاکستان کا سافٹ امیج پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کلچر‘ آرٹ‘ آرکیٹیکچر‘ موسیقی‘ سپورٹس‘ ادب‘ سائنس و ٹیکنالوجی‘ علم و دانش کی دیگر شاخوں اور سماجی و انسانی فلاح و بہبود کے میدانوں میں ہماری موجودہ اور سابقہ نسلوں کے کارناموں کو عالمی برادری کے سامنے بہتر انداز میں اجاگر کیا جائے۔ کسی ملک کے مثبت امیج کے فروغ کا ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے صدیوں پر محیط تہذیبی او رثقافتی ورثے کی تاریخ اور آثار قدیمہ کی یادگاروں کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔پاکستان ایسے متنوع ثقافتی ورثے کا امین ہے جس کی جڑیں آج کے بلوچستان میں مہر گڑھ کے کھنڈرات اور آج کے سندھ او رپنجاب میں واقع انڈس ویلی تہذیب میں نظر آتی ہیں‘ جن کا ایک عالم معترف ہے۔شمالی پاکستان میں گندھارا کا ایک ایسا تہذیبی او ر تاریخی خزانہ موجود ہے جو بدھ مت کی روایات سے منسلک ہے۔چٹانوں پر کھدی ہوئی تحریریں اور آرٹ کے نمونے ٹیکسلا‘ پشاور‘ سوات‘ باجوڑاور افغانستان کے ملحقہ علاقوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں شامل علاقوں پر آریہ دور کے اثرات بہت گہرے اور نمایاں ہیں۔ عہدِ حاضر میں پاکستان مذہبی سیاحت کی خصوصی حوصلہ افزائی کررہا ہے کیونکہ سکھ مت‘بدھ مت او رہندو مت کے بہت سے مقدس مقامات اور عبادت گاہیں پاکستان میں موجود ہیں اور دنیا بھر میں ان مذاہب کے پیروکاروں کیلئے خصوصی عقیدت اور قدرو قیمت کی حامل ہیں۔
جدید سفارتکاری کی کامیابی اس ملک کے داخلی‘سیاسی او رمعاشی تناظر پر موقوف ہوتی ہے۔اگر کوئی ملک سیاسی حوالے سے مضبوط اور مستحکم ہے‘اس کی معیشت اتنی طاقتور ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری او ر تجارت کیلئے خاص کشش رکھتی ہے تو عالمی برادری میں اسکے امیج کو فروغ ملے گا۔اسی طرح سرگرم تجارتی اور معاشی تعلقات بھی ڈپلومیسی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کسی ملک کے معاشی‘تجارتی او رسرمایہ کاری کے تعلقات جتنے مستحکم ہوں گے‘عالمی سطح پر اس ملک کی سفارت کاری کی کامیابی کے امکانات بھی اتنے ہی روشن ہوتے ہیں۔ پاکستان کی کشیدہ اور بے یقینی کی شکار سیاسی صورتحال اور زبوں حالی کے چنگل میں گرفتار معیشت دو ایسی رکاوٹیں ہیں جو عالمی سطح پر پاکستان کے سفارتی کردار کی را ہ میں بُری طرح حائل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی سرکاری ڈپلومیسی کو غیر سرکاری اور سماجی سفارت کاری کے ساتھ منسلک کر کے دنیابھرمیں پاکستان کے مثبت امیج کو اُجاگر کیا جائے۔اگر ہم اپنی داخلی سیاست او رملکی معیشت کو منظم نہیں کرتے تو ڈپلومیسی کے میدان میں بھی کسی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔