"HAC" (space) message & send to 7575

انتخابات کے بعد کی سیاست کے چیلنجز

8 فروری کے انتخابات ہو چکے لیکن یہ پاکستانی سیاست کو جھنجھوڑتے رہیں گے۔ انتخابات کا ایک مثبت نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی رہنماؤں اور ووٹرز نے اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے آئینی راستے پر رہنے کا انتخاب کیا۔ پی ٹی آئی کے نوجوان حامی خاموشی سے پولنگ کے دن پولنگ سٹیشنوں پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو ووٹ دینے گئے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کو اس کے انتخابی نشان اور سیاسی جماعت کی حیثیت سے انتخاب لڑنے کے حق سے محروم کیا گیا‘ مگر اس کے ووٹرز نے اپنی پارٹی کے امیدواروں کی شناخت کے لیے جدید مواصلات اور انٹرنیٹ پر مبنی پلیٹ فارمز کا استعمال کیا۔ 2018ء کے انتخابات کے مقابلے میں کم ٹرن آؤٹ کے باوجود‘ پُرامن اور منصفانہ پولنگ ڈے مینجمنٹ ایک مثبت پیش رفت تھی؛ تاہم زیادہ تر سیاسی جماعتیں سیاسی صورتحال کے بارے میں اطمینان کا اظہار نہیں کررہیں‘ کیونکہ یہ پولنگ بند ہونے اور ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے بعد تخلیق کی گئی ہے۔
تین طرح کے مسائل کا مستقبل قریب میں سیاست کی سمت اور پاکستانی ریاست اور معاشرے کو درپیش سیاسی اور معاشی چیلنج سے نمٹنے کے لیے نئی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی صلاحیت پر بہت زیادہ اثر انداز ہونے کا امکان ہے۔ وفاقی سطح پر واضح اکثریت حاصل کرنے والی کسی سیاسی جماعت کے بغیر منقسم مینڈیٹ نے حکومت کی تشکیل کے کام کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ صوبائی سطح پر‘ خیبر پختونخوا اور سندھ میں واضح فاتحین ہیں جن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ حکومتیں تشکیل دیں گے۔ پنجاب اور بلوچستان میں اتحادی حکومتیں ہوں گی۔ مسلم لیگ (ن) سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پی پی پی‘ ایم کیو ایم اور آزاد ارکان ‘ جو اقتدار کے فوائد سے لطف اندوز ہونے کیلئے حکمران اتحاد میں شامل ہو رہے ہیں‘کی حمایت سے سادہ اکثریت کا انتظام کرے گی؛ تاہم وفاقی سطح پر نئی اتحادی حکومت پی پی پی کی حمایت کے رحم و کرم پر ہوگی ‘جو کابینہ سے باہر رہنا چاہتی ہے مگر کچھ اہم سرکاری عہدوں اور مراعات سے فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اگر پی پی پی کو اقتدار کے مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہوتے تو پی پی پی حمایت واپس لینے کیلئے انتباہ جاری کرکے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہوگی۔ اس اتحادی حکومت کو دو اضافی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کا محدود اور متزلزل مینڈیٹ شدید معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنے اختیارات کو محدود کرے گا۔لیکن مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کو کیسے کنٹرول کیا جائے‘ جس نے اپریل 2022ء تا اگست 2023ء میں شہباز شریف کے تحت پی ڈی ایم حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا‘ یہ چیلنج نئی حکومت کو پریشان کرے گا کیونکہ کاروباری اور تجارتی اشرافیہ کو اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی لانے پر مجبور کرنا مشکل ہوگا‘ اس لیے کہ معاشرے کا یہ طبقہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا اہم سپورٹ بیس ہے۔ مزید برآں‘ اس حکومت کو پی پی پی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جب وہ سٹیل مل‘ پی آئی اے اورریلوے جیسے کچھ ریاستی کاروباری اداروں کو عوامی نجی شراکت داری میں دینے یا انہیں فروخت کرنے کا کام کرے گی۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ ایم کیو ایم کے مفادات بھی ان ریاستی کاروباری اداروں کے انتظامی جمود کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جو ریاست پر ایک اہم مالی بوجھ بن چکے ہیں۔ نئی وفاقی حکومت کے لیے ایک اور چیلنج مقتدرہ کے ساتھ تعلقات کو قائم رکھنا ہوگا۔ اس طرح کی حمایت کے بغیر حکومت کا سیاسی اتحاد غیر مستحکم ہو جائے گا لہٰذاوفاقی حکومت کومقتدرہ کے کردار کو ایڈجسٹ کرنا پڑے گا ۔ سیاسی اتحادیوں کے مطالبات اور مقتدرہ کے ساتھ اچھے تعلقات کو برقرار رکھنے کی ضرورت کے درمیان توازن برقرار رکھنا بھی نئی اتحادی حکومت کے لیے چیلنج ہوگا۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے کام کو وفاقی سطح پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی کارکردگی سے جوڑا جائے گا۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں سیاسی مراعات حاصل کرے گی۔ مزید برآں‘ پنجاب کی سیاست ریاستی وسائل اور سرپرستی کی جانبدارانہ تقسیم سے قریب سے جڑی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں سیاسی اور مالی معاملات کے صاف اور ایماندارانہ انتظام میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔انتخابات کا ایک بڑا سرپرائز‘ جو انتخابات کے بعد کی سیاست کو متاثر کرے گا‘ وہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی حیرت انگیز کارکردگی ہے۔ ان کے ووٹروں نے خود کو انٹرنیٹ پر مبنی پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا کی مدد سے پارٹی سے منسلک کیا‘ خاموشی سے پولنگ سٹیشنوں پر گئے اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو ووٹ دیا۔ اس نتیجے نے ان غیر سیاسی کھلاڑیوں کو چونکا دیا ہے جو انتخابات کا انتظام کر رہے تھے۔ ان میں سے کچھ آزاد امیدواروں نے نئے حکمران اتحاد کو اپنی حمایت منتقل کردی ہے؛ تاہم پی ٹی آئی اب بھی ایک معتبر سیاسی قوت ہے اور یہ وفاقی سطح پر اور پنجاب میں ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر کام کرے گی‘ جس سے وفاقی سطح پر اور پنجاب میں نئی حکومتوں کے چیلنجوں میں اضافہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی‘ سندھ میں اپنی حکومت اور بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اقتدار کے اشتراک کے ساتھ (ن) لیگ پر دباؤ برقرار رکھے گی‘ اگرچہ وہ مسلم لیگ (ن) کے سیاسی سیٹ اَپ کو الٹ پلٹ کرنا پسند نہیں کرے گی۔ اس کی حکمت عملی کچھ اہم سرکاری عہدوں کو قابو کرنا‘ سیاسی فوائد حاصل کرنا اور حکمرانی میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا ہو گی۔ ایم کیو ایم کے مطالبات شہری سندھ میں اس کے سیاسی مفادات سے متعلق ہوں گے جن سے پیپلز پارٹی کے ساتھ کچھ تنازعات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ وفاقی سطح پر اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو اس دباؤ سے نمٹنے کے لیے ایک مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انتخابات کی حتمی جہت جو انتخابات کے بعد کی مدت میں سیاست کو متاثر کرے گی‘ انتخابی نتائج کی ہیرا پھیری کے بارے میں شکایات سے متعلق ہے۔ 8 فروری کو پولنگ ختم ہونے کے بعد کئی پارٹی رہنما اور امیدوار عوامی طور پر ان لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جنہیں وہ نتائج میں ہیرا پھیری کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ شکایات بے بنیاد ہو سکتی ہیں لیکن نتائج میں ہیرا پھیری کا تاثر وسیع ہے۔ یہ صرف پی ٹی آئی تک محدود نہیں ‘ کئی دیگر سیاسی جماعتیں بھی شکایت کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر انتخابی نتائج کے بارے میں موجودہ شکوک و شبہات عدالتی امتحان میں پوری طرح ثابت نہیں ہوتے تو انتخابات کی ساکھ کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور انتخابی انتظامیہ کے حکام کے ماضی کے تجربے سے سبق نہ لینے کا معاملہ اٹھایا جائے گا۔ انتخابی نتائج کے بارے میں زیادہ تر شکایات ماضی میں انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی شکایات سے موازنہ کرنے کے قابل ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ماضی میں انتخابی بدانتظامی اور نتائج میں ہیرا پھیری کی شکایات کے بارے میں متعدد مضامین‘ نیوز رپورٹس اور کتابیں دستیاب ہیں‘ ہمارے انتخابی انتظامیہ کے حکام غلطیوں کو دہراتے ہیں۔
انتخابات سے متعلق شکایات کی فہرست بنانے اور مستقبل میں ان مسائل سے بچنے کے طریقے تجویز کرنے کے لیے ایک آزاد کمیشن قائم کرنے کی ضرورت ہے‘ اس بحث میں پڑے بغیر کہ کس کو بدعنوانیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ انتخابی عمل میں سیاسی اعتماد بڑھانے کے لیے کچھ مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں