جنگیں کبھی ”سرد “ یا ”ختم“ نہیں ہوتیں!

بین الاقوامی تعلقات (International Relations) میں ایک فقرہ عقیدے کی طرز پر پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں امن نام کی کوئی چیز نہیں اور امن محض اگلی جنگ کی تیاری کے دورانیے کا نام ہے۔ دنیا کی سو سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات مسلّم اور مسلّط حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ 1914ء سے 1918ء تک پہلی عالمی جنگ لڑی گئی تو دنیا کے فیصلہ سازوں نے یہ سمجھا کہ اس جنگ سے اتنا سبق ضرور سیکھنا چاہیے کہ آئندہ اس پیمانے کی کوئی جنگ نہ ہونے پائے، اسی لئے جون 1919ء میں لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مگر 1939ء سے 1945ء تک جاری رہنے والی دوسری عالمی جنگ نے یہ امید توڑ دی۔ دوسری عالمی جنگ میں جاپان، جرمنی جیسی طاقتیں ختم ہو گئیں۔ فرانس اور برطانیہ کمزور پڑ گئے اور دنیا میں صرف دو عالمی طاقتیں روس اور امریکہ بچیں، تو دیرپا امن کی امیدپیدا ہوئی،کیونکہ ایک خیال یہ تھا کہ عالمی جنگیں بہت ساری بڑی طاقتوں کی موجودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں کوئی ایک بڑی طاقت جنگ کا آغاز کردیتی ہے جو دوسروں پر مسلط ہو جاتی ہے 
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ تیسری بڑی جنگ سے بچا جا سکے۔ دوسری عالمی جنگ کے اتحادی اور فاتح پانچ ممالک کوسکیورٹی کونسل کی مستقل ممبر شپ مع ویٹو پاور دے دی گئی ۔مگر دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے کچھ ہی عرصہ بعدروس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہو گیا۔یہ جنگ نام کی حد تک سرد تھی یا یوں کہہ لیں کہ امریکہ اور روس کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے یہ طے پایا کہ وہ باہم ایک دوسرے پر براہ راست حملہ نہیں کریں گے۔ سرد جنگ کا سب سے پہلامرکزاور نشانہ یورپ تھا یعنی روس اور امریکہ کی کشمکش یہ تھی کے یورپ کے زیادہ ممالک اس کا ساتھ دیں اس مقصد کے لئے روس نے 1955 ء میں وارسا پیکٹ بنایا جس میں چھ یورپی ممالک ہنگری، رومانیہ، چیکو سلواکیہ، پولینڈ، مشرقی جرمنی اور شاید آپ حیران ہوں کہ ایک مسلم ملک البانیہ بھی روس کے دھڑے میں شامل ہوگیا جبکہ امریکہ وارسا پیکٹ سے پہلے ہی1949 میںنیٹو کے نام سے بیشتر یورپی ممالک اور جاپان کو دفاع اور حفاظت کی ضمانت د ے کر نیٹو میںشامل کر چکا تھا۔
سرد جنگ کا اگلا معرکہ اور مرکز ایشیا تھاروس اپنا معاشی و سیاسی نظریہ یعنی کمیونزم ایشیا میں پھیلانا چاہتا تھا اور امریکہ اسے روکنا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لئے امریکہ نے مختلف ممالک پر مشتمل دو دھڑے) (SEATO 1954,اور) (CENTO 1955میں بنائے۔ سیٹو کا مقصد جنوب مشرقی ایشیا کے مملک میں روسی پیش قدمی کو روکنا تھا جبکہ سینٹو کا مقصدمشرق وسطہ کے مسلم مملک میں روس کی پیش قدمی کو روکنا مقصود تھامشرق وسطیٰ کے ممالک کی سینٹو میں شمولیت سے مسلم دنیا واضح طور پر امریکی لابی کا حصہ بن گئی اور روس کے مخالف کھڑی ہو گئی ۔قارئین سیٹو اور سینٹو کے دونوں معاہدوں میں پاکستان واحد ملک تھا جو دونوں معاہدوں کا حصہ تھا۔ سیٹو میں پاکستان کو مشرقی پاکستان کی وجہ سے شامل کیا گیا جبکہ سینٹو میں مغربی یعنی موجودہ پاکستان کی وجہ سے شامل کیا گیا۔1979پاکستان کی تاریخ میں قیام پاکستان اور سقوط ڈھاکہ کے بعد تیسرا اہم ترین سال یاموڑ گنا جاتا ہے چونکہ اس سال پاکستان کے دو ہمسایہ ممالک میں انقلابی واقعات رونما ہوئے، روس افغانستان میں داخل ہو گیا جبکہ ایران میں مذہبی انقلاب و قوع پذیر ہو گیا اور یوں پاکستان کی اہمیت اور مشکلیںدونوں بڑھ گئیں۔ روس کے خلاف افغانستان میں پاکستان کو پراکسی وار لڑنے کیلئے مجبورا ًمنتخب کیا گیا۔ نہ صرف پاکستان بلکہ ایران کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے دیگر مسلم ممالک بھی افغان جہاد میں پاکستان کے ساتھ مل گئے کیونکہ امریکہ نے ان مسلم ممالک کو یہ باور کروایا کہ اگر کمیونزم یاایران کی طرز کا انقلاب آپ کے ملک میںآیا تو آپ کی بادشاہتیں الٹ جائیں گی ۔ ایران کے انقلاب کے بعد مسلم دنیا آپس میں بدقسمتی سے فرقہ وارانہ سرد جنگ کا شکار ہوگئی۔ اس جنگ کے دو بڑے ایران اور سعودیہ ٹھہرے اور یوں پاکستان روس امریکہ سرد جنگ کے علاوہ دوسری سرد جنگ کا مرکز بن گیا۔ اصل جد الفساد اسی کو مانا جاتا ہے جو اب تک جاری ہے جسے ختم یا کم کرنے کے لئے ردالفساد شروع کیا گیا ہے۔
1990ء میں روس کے ٹوٹنے کے بعد عالمی سرد جنگ تو ختم ہوگئی مگر امریکہ نے نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر ایک ایسا ایجنڈا دنیا پر مسلط کیا جس میں مسلم دنیا واحد ممکنہ حریفpre emptiveنظریہ کے تحت زیر عتاب آگئی۔ آپ غور کریں کہ عراق سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ پوری مسلم دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے جس میں مذہب کے نام پر کئی خود ساختہ جہادی تنظیمیں، فرقہ واریت، غربت، جہالت اور آمرانہ طرز حکومت ایندھن کے طور پر استعمال ہورہی ہیں۔اس وقت کل 57مسلم ممالک میں سے تقریباً 50ممالک ایسے ہیں جہاں کسی نہ کسی شکل میں جنگی صورتحال یا انتشار جاری ہے۔ مسلم دنیا کے علاوہ شمالی کوریا ، کیوبا ، ویتنام ایسے ممالک رہے ہیں جن کو امریکہ اپنا مخالف سمجھتا ہے اور اب چین عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کے بعد روس کی معاونت کے ساتھ امریکہ کے سامنے آچکا ہے ،جسے چین کی پرامن خارجہ پالیسی کے باوجود امریکہ اپنا مخالف سمجھتا ہے اور جس کا اظہار کئی دفعہ امریکی انتظامیہ بیانات میںکر چکی ہے ۔ اس جنگی کشمکش کو revival of cold war بھی کہا جاتا ہے۔1914ء یعنی پہلی عالمی جنگ سے لے کر 2017ء یعنی ایک صدی گزر گئی اور دنیا آج بھی پہلے سے کہیں زیادہ جنگی حالات کا شکار ہے چاہے یہ جنگیں گرم ہو ں یا سرد کیونکہ نقصان سرد جنگوں میںبھی گرم جنگوں جتنا ہی بلکہ بعض اوقات زیادہ بھی ہوتا ہے گویا ایک سو سال کی جدید دنیا کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ دنیا میں امن نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ امن دو جنگوں کے درمیان اس وقفے کا نام ہے جس میں اگلی جنگ کی تیاری کی جاتی ہے او ر ـ "جنگیں کبھی سرد یا ختم نہیں ہوتیں "۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں