دنیا کی سیاست میں ورلڈ آرڈر کی اصطلاح کا استعمال ویسے تو امریکہ کے عالمی طاقت بننے کے بعد کثرت سے شروع ہوا لیکن یہ سلسلہ صدیوں پرانا ہے۔ اس کی اصل ابتدا صنعتی انقلاب کے بعد اُس وقت ہوئی جب یورپی طاقتوں نے دنیا کے بیشتر حصوں کو اپنی کالونیاں بنایا۔ اس وقت اصل ورلڈ آرڈر جس طاقت کا قائم ہوا وہ تاجِ برطانیہ تھا‘ تب سلطنتِ برطانیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اس ورلڈ آرڈر سے دنیا کا ایک بڑا مرکز جنوبی ایشیا یعنی برصغیر بنا جہاں دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی آباد تھا جبکہ دنیا کی کل معاشی پیداوار کا بھی ایک چوتھائی یہاں پیدا ہوتا تھا۔ اس خطے کی ترتیب کو برطانوی راج نے کچھ اس طرح مرتب کر دیا تھا کہ یہ خطہ آج تک بے ترتیبی کا شکار ہے۔ عام الفاظ میں یہ کہا جاتا ہے کہ مشرق میں ڈس آرڈر ہے جبکہ یہی مغرب کا ورلڈ آرڈر ہے۔ برطانوی راج یعنی ورلڈ آرڈر میں اس خطے کی معیشت کو پسماندہ رکھ کر برطانیہ کی معیشت کا مینار کھڑا کیا گیا بلکہ انگریزوں کے یہاں سے جاتے وقت بھی اس خطے کو مسائل اور مشکلات کا ڈھیر کچھ اس طرح بنایا گیا کہ آج تک اس خطے میں اکثر سرحدیں متنازع اور کشیدہ ہیں۔ اب رہی بات مشرق یا ایشیا میں ڈس آرڈر جاری رکھنے کی تو مغرب کا ماننا ہے کہ ان کی برابری کرنے والی کوئی بھی طاقت صرف اسی بر اعظم سے سامنے آ سکتی ہے۔ اس بات کے پس منظر میں یہی دلیل کافی ہے کہ دنیا کے واضح ترین اکثر کشیدہ تنازعات ایشیا اور مسلم دنیا ہی میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی حسابی شرح اسی فیصد سے زیادہ ہے‘ مطلب دنیا کے اسی فیصد سے زیادہ تنازعات ایشیا اور مسلم دنیا ہی میں پائے جاتے ہیں۔ یہ محض اتفاق تو نہیں ہے بلکہ عالمی طاقتوں کی طے کردہ ترتیب کا نتیجہ ہے۔
مشرق کی بدقسمت ترتیب
ایشیا کی بات کی جائے تو یہاں سے دنیا کو چلانے والے دو بڑے نظریات نے جنم لیا تھا۔ اس میں نمایاں مثال اشتراکیت کی ہے جو نہ صرف ایک ایسا نظام ہے جو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام سے مختلف بلکہ متضاد ہے۔ اشتراکیت کا نظام مغرب کے نظام سے متصادم اس طرح ہے کہ یہ دنیا کی خرابیوں اور مسائل کا ذمہ دار صرف اور صرف سرمایہ دارانہ یعنی معاشی و سیاسی نظام کو مانتا ہے اور اس کا واشگاف اظہار بھی کرتا رہا ہے۔ یہاں سے ہم ایک اور ایسے پہلو کی طرف چلتے ہیں جو مشرقی دنیا کی سیاسی و معاشی ترتیب کی بدقسمتی کی انوکھی مثال ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ جب روس کی شکل میں اشتراکی نظام لاگو اور متعارف ہوا تو مغرب نے کمال مہارت اور اپنے صدیوں پرانے اثر و رسوخ کی بدولت نہ صرف ایشیا کے مختلف ممالک بلکہ پوری مسلم دنیا کو اس بات پر قائل کر لیا کہ وہ اشتراکیت کی مخالفت کریں جس کے بعد مسلم دنیا نے اشتراکیت کی انتہائی شدت سے مخالفت کی۔ اس کی سب سے نمایاں وجہ اشتراکیت کے نظام کو کفر سے تشبیہ دینا تھا۔ یہ سلسلہ روس کی شکست تک جاری رہا۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بلکہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مغربی دنیا نے مسلم ممالک میں روس کے خلاف جہاد کے نام پر انتہائی سخت گیر قسم کی سوچ کو پروان چڑھایا اور روس کے ٹوٹنے کے بعد اسی مسلم دنیا کے خلاف اس سوچ کا استعمال کیا۔ اس میں سب سے بڑی مثال سول آبادی کو لڑنے کی طرف یعنی جہاد کی طرف اس طرح مائل کرنا تھا کہ بعد ازاں یہ ایک صنعت بن کر رہ گئی۔ آپ افغانستان ہی کی مثال لے لیں جہاں امریکہ کی موجودگی میں بھارت شدت پسند گروہوں کو پاکستان میں دہشت گردی کروانے کیلئے استعمال کرتا رہا۔ یہ سلسلہ اب بھی پوری طرح نہیں رُکا اور بھارت اب بھی اس چینل کا استعمال کرتا ہے جس کا مقصد چین کے تحت چلنے والے معاشی منصوبوں کو سبو تاژ کرنا ہے۔ بھارت اب بھی اس خطے میں مغرب کی پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ اصل میں امریکہ کے افغانستان میں بیس سالہ قیام کے دوران بھارت نے امریکہ سے اپنے تعلقات ایک جنگی سرمایہ کار کے طور پر قائم کیے تھے جو آج بھی اس کے کام آتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے اس پراکسی جنگ کا ایک اور ثبوت اس کی طرف سے چین کے ساتھ کشیدگی قائم رکھنا ہے‘ بھلے اس میں بھارت کا اپنا نقصان زیادہ ہے۔ اب بھارت ایشیا کا ہی نہیں‘ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہونے کے ناطے ایک اہم علاقہ ہے۔ اس کی آبادی دنیا کی کل آبادی کے بیس فیصد کے قریب ہے لیکن بھارت کی نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ اپنے دیگر پڑوسی ممالک سے جارحیت والی پالیسی روا رکھنے کے باعث جنوبی ایشیا آج بھی نہ صرف ایک پسماندہ علاقہ ہے بلکہ کشیدگی کا بڑا مرکز بھی ہے۔ یہ مشرق کی بدقسمتی کا ایک بڑا اور بھیانک مظہر ہے۔
مماثلت اور مخالفت کا حکم
80ء کی دہائی میں معاشیات کے مضمون میں ایک دلچسپ اور معنی خیز سوال کچھ یوں کیا جاتا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت میں سے کون سا نظام اسلامی نظام کے قریب ہے یا اسلامی نظام ان میں سے کس کے قریب ہے۔ تب اس کا جواب معاشیات کے استاد تھوڑا سرگوشی کے انداز سے دیا کرتے تھے چونکہ پاکستان نہ صرف سرکاری طور پر اشتراکیت کی مخالفت کرتا تھا بلکہ یہاں اسے کفر قرار دیا جاتا تھا۔ میں نے ایک دفعہ اپنے معاشیات کے استاد سے یہی سوال کیا تو کہنے لگے چونکہ اشتراکیت کا رنگ سرخ ہے اور اس پر پورے کا پورا عمل کرنا بھی مشکل ہے تو سوشل ازم جو اشتراکیت ہی کی ایک نرم شکل ہے‘ اس کو اسلام کے قریب قرار دیا جا سکتا ہے لیکن میرا یہ جواب غیر سرکاری ہے۔ اس پر ہم لوگ بھی ہنس دیے۔ پھر وہ کہنے لگے کہ ہو سکے تو علامہ اقبال کے خیالات پڑھ لو کیونکہ جو جواب میں نے دیا ہے‘ اصل میں یہ علامہ اقبال ہی کی رائے ہے۔ مزید کہنے لگے کہ اگر اشتراکیت کا رنگ سرخ ہے تو آپ سوشل ازم کو گلابی کہہ سکتے ہیں یا نیم سرخ۔ یاد رہے اس وقت فیمینزم نام کی کسی بات کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا تھا ‘ اس لیے انہوں نے گلابی رنگ کا نام سوشل ازم کیلئے استعمال کیا تھا ۔
اب ہم چلتے ہیں اشتراکی نظام کے بڑے بڑے خدوخال کی طرف تو اس میں سیاسی طور پر ایک ہی جماعت ہوتی ہے جس کا ممبر ہر کوئی نہیں بن سکتا بلکہ اس جماعت میں شمولیت کیلئے آپ کا صاحبِ دماغ اور صاحبِ کردار ہونا ضروری ہوتا ہے۔ آپ چین کی کمیونسٹ پارٹی ہی کو لے لیں جس کا ممبر بننے کیلئے آپ کو باقاعدہ ایک امتحان دینا پڑتا ہے۔ اس امتحان کو پاس کرنے کے بعد ہی آپ اس ملک کے سیاسی نظام میں شریک ہونے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ آپ اس کو کس حد تک جمہوریت سمجھتے ہیں‘ یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ مغرب کے جمہوریت کیلئے متعین کردہ اصولوں کی روشنی میں اسے سرے سے جمہوریت ہی نہ مانیں۔ لیکن اب چین نے اپنے ہاں رائج نظام کو جمہوریت کہنا شروع کر دیا ہے جسے آپ عام فہم الفاظ میں معاشی جمہوریت کہہ سکتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک نئے زاویے سے چیزوں کو دیکھنا ہوگا۔ سوشل ازم یہ کہتا ہے کہ اور کچھ ہو نہ ہو لیکن سب لوگوں کے زندہ رہنے کیلئے ناگزیر چیزوں روٹی‘ کپڑا اور مکان کی فراہمی ہر صورت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آج کل کے حالات دیکھیں تو اس میں صاف پانی اور ہوا بھی ناگزیر چیزوں کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ معاشی جمہوریت کا آسان مطلب یہ بنتا ہے کہ جو کام آپ کے منتخب نمائندوں نے کرنا ہے‘ چاہے وہ منتخب ہو کر کریں یا نہ کریں‘ وہ سوشل ازم میں لازمی ڈیوٹی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ معاشی جمہوریت کا یہ بھی وصف لازم ہے کہ وہ امیر اور غریب کے درمیان فرق کو کم سے کم سطح پر رکھے۔ یاد رکھیے‘ اشتراکیت کے بانی کا کہنا تھا کہ دنیا میں غربت کی واضح وجہ وسائل کی عدم دستیابی نہیں بلکہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ اب یہ بات محض ایک مؤقف نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ آج بھی دنیا کے آدھے وسائل پر محض ایک فیصد لوگ قابض ہیں۔ باقی حساب آپ خود لگا لیں کہ دنیا کثرت اور قلت کے کتنے بڑے اور بھیانک چکر میں پھنسی ہوئی ہے اور نہ جانے کب تک پھنسی رہے گی۔اس بحث کا نتیجہ آپ خود نکال لیجیے گا لیکن اس سے پہلے آپ کو زکوٰۃ کے نظام پر ایک نظر ڈالنا ہو گی جو امیر اور غریب کے فرق کو کم سے کم رکھنے کا ایک انتہائی مؤثراور خودکار سسٹم ہے۔ عالمی اداروں کے اندازے کے مطابق اگر پوری مسلم دنیا پوری ایمانداری سے زکوٰۃ دے تو یہ رقم تین سو ارب سے پانچ سو ارب ڈالر بنتی ہے۔ اب صرف یہ فرض کر لیں کہ یہ رقم اگر ہر سال دو غریب مسلم ممالک کو دے دی جائے تو وہاں سے کتنے برسوں میں غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے‘ ہاں یہ نظام کرپشن سے پاک رکھنا ایک ناگزیر فعل ہو گا۔