آج معیشت کی دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت سے پڑھا اور پڑھایا جانے والا سبق ''وسائل‘‘ سے متعلق ہے۔ وسائل سے متعلق ایک انوکھا مگر بنیادی نکتہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وسائل محدود جبکہ خواہشات لا محدود ہوتی ہیں، دنیا کی ساری دوڑ ان دونوں کے درمیان ہے۔ انسان کی ساری تگ و دو کثرتِ خواہشات اور قلتِ وسائل کے گرد گھومتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وسائل کن چیزوں کو کہا جاتا ہے؟ یہ ایک خالص علمی بحث ہے۔ عمومی طور پر بتایا جاتا ہے کہ ''ہر وہ چیز جو کسی بھی انسانی خواہش کی تکمیل کر سکتی ہے‘ وسائل میں شمار ہوتی ہے‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ کو سورج کے طلوع ہونے کا منظر اچھا لگتا ہے تو یہ بھی وسائل میں شمار ہو گا کیونکہ اس نے آپ کی ایک خواہش کی تکمیل کی ہے۔ عمومی طور پر وسائل میں مادی اشیا کو شمار کیا جاتا ہے۔
زہریلے وسائل
سوال یہ ہے کہ وہ اشیا‘ جو انسان کے لیے نقصان دہ ہیں‘ کیا وہ بھی وسائل یعنی ریسورسز میں شامل ہیں ؟ ایسی اشیا میں سگریٹ، منشیات اور سب سے بڑھ کر زہر شامل ہیں۔ سگریٹ اور الکحل وغیرہ سے متعلق یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ چیزیں انسان کی خواہشات کی تکمیل کرتی ہیں، یہاں تک تو بات کسی حد تک سمجھ آتی ہے اور دنیا میں مذکورہ چیزوں کا کاروبار بھی ہوتا ہے لیکن زہر کا کیا کیا جائے؟ یہ بھی تو ایک مادی چیز ہے، تو کیا یہ بھی ریسورس کہلا سکتا ہے؟ اگر ایک شخص خود کشی کرنا چاہتا ہے تو زہر اس کی اس ہلاکت خیز خواہش کو پورا کر سکتا ہے، لہٰذا تکنیکی طور پر زہر بھی ایک ریسورس ہے بھلے یہ ایک بھیانک خواہش کی تکمیل کرتا ہے۔ لہٰذا وسائل یا ریسورسز کی تعریف کچھ یوں بنتی ہے کہ ہر وہ چیز‘ جس سے کوئی بھی استفادہ کیا جا سکتا ہو‘ وسائل میں شمار ہو گی۔ کسی بھی چیز کے ریسورس ہونے کے لیے کچھ اور شرائط بھی ہوتی ہیں۔ اگر آپ کے پاس ایک پنسل ہے لیکن وہ پنسل ہر وقت آپ کی جیب میں موجود رہے یعنی آپ اس سے لکھ نہیں رہے تو یہ پنسل ایک Reserve کا درجہ اختیار کر جائے گی، لیکن جب آپ اسے استعمال میں لائیں گے تو فوراً یہ ایک ریسوس بن جائے گی اور اس وقت تک ریسورس میں شمار ہو گی جب تک آپ اس سے لکھتے رہیں گے۔ اس سے آگے درجہ آتا ہے سٹاک کا۔ کوئی چیز آپ کے سامنے موجود تو ہے لیکن آپ اس کا استعمال نہیں جانتے، جیسے کوئی دوائی یا پھر کوئی کیمیکل۔ یعنی یہ چیز آپ کی دسترس میں تو ہے لیکن آپ اس کا مثبت یا منفی استعمال نہیں جانتے تو یہ چیز آپ کے لیے ایک سٹاک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے لیے آپ لیپ ٹاپ؍ کمپیوٹر یا موبائل کی مثال لے سکتے ہیں۔ یہ چیزیں ہر کسی کے پاس موجود ہوتی ہیں لیکن ہر کوئی ان کا مثبت استعمال نہیں جانتا، نہ ہی ان اشیا کو مثبت استعمال میں لاتا ہے لہٰذا اس کے لیے یہ ایک سٹاک کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس ساری تمہید کا خلاصہ یہ ہے کہ زہریلی یا نقصان دہ اشیا بھی وسائل ہی کے زمرے میں آتی ہیں مگر حقیقی وسائل وہ ہیں جن سے استفادہ کیا جائے‘ جن سے کچھ فائدہ اٹھایا جائے
قدر سے ناقدری تک کا سفر
آئیے اب یہ حساب لگاتے ہیں کہ ہم کن چیزوں یا وسائل کو زیادہ قدر دیتے ہیں، کن وسائل کو کم اور کن وسائل کو بے قدری کی نذر کر دیتے ہیں۔ اب دنیا کی رفتار اتنی زیادہ ہو چکی ہے اور زندگی اتنی مصروف ہو چکی ہے کہ بہت ساری بنیادی چیزیں جو کبھی بہت نایاب اور قدر والی سمجھی جاتی تھیں‘ اب اپنی قدر کھو چکی ہیں، جبکہ بہت ساری اشیا ایسی ہیں جو معمولی اہمیت کی حامل ہیں مگر ہم انہیں گراں قدر سمجھ بیٹھے ہیں۔ آج کے دور میں صحت مند ہونا ایک عیاشی کا درجہ رکھتا ہے، لیکن ہم صحت کو دائو پر لگا کر ایسی چیزوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں جن کے بغیر یا جن کے کم ہونے پر بھی گزارا ہو سکتا ہے۔اُس وقت کا ہی حساب لگا لیں جو ماضی میں لوگ کسی گرائونڈ یا پارک میں جا کر ورزش کرنے پر صرف کرتے تھے، یا آئوٹ ڈور کھیلوں میں جو وقت لگتا تھا‘ اب وہی وقت موبائل کے استعمال اور اُن بے مقصد اور فضول پوسٹوں کو دیکھنے، پسند کرنے اور آگے کسی دوست کو بھیجنے پر ضائع ہو جاتا ہے‘ جو ہمارے کسی کام کی نہیں ہیں۔ اسی طرح اپنے اُس وقت کا حساب لگائیں جو پہلے دوستوں وغیرہ کے ساتھ گزارا جاتا تھا‘ ایسے دوست‘ جن سے کوئی غرض یا کام نہیں ہوتا تھا۔ سائنس یہ بات ثابت کر چکی ہے اور چیخ چیخ کر لوگوں کو بتا رہی کہ وہ وقت جو بے مقصد‘ دوستوں وغیرہ کے ساتھ گزارا جائے‘ ہماری ذہنی صحت کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن ہماری زندگی ایک دائرے میں گھوم رہی ہے اور اب میل ملاپ اور تعلقات کا دائرہ بھی مالی یا معاشرتی فائدہ دینے والے اشخاص کے گرد ہی گھومتا ہے۔ یہ دائرہ چونکہ کسی نہ کسی مفاد پر مبنی ہوتا ہے لہٰذا اس مخصوص اور محدود دائرے میں اتنے زیادہ چکر کاٹنا پڑتے ہیں کہ زندگی چکرا کر رہ جاتی ہے۔ باقی حساب آپ خود لگا لیں کہ آپ کا اصل فائدہ‘ روحانی و ذہنی خوشی اور سکون کن چیزوں میں ہے؟ زندگی کی رفتار کو مزید بڑھانے اور چکروں میں ڈالنے والی اشیا کو وسائل کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اسی طرح یہ بھی حساب لگائیں کہ کن مضر چیزوں کی قدر کرتے ہوئے ہم کن مفید چیزوں کی بے قدری کر رہے ہیں؟
فائدہ اور افادہ
بات ہوئی تھی افادے اور فائدے کی‘ صبح کو سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھنا معاشرے کا ایک غالب طبقہ یکسر متروک کر چکا ہے۔ بات افادے کی کریں یعنی یوٹیلیٹی‘ تو پتا چلتا ہے کہ ایک دن کی روٹین میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو اپنے اندر استعمال کیے جانے کی صلاحیت تو رکھتی ہیں، لیکن ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے رہیں۔ بات ہوئی دنیا کی سب سے قیمتی متاع یعنی صحت کی‘ جو اب ایک تعیش کا درجہ اختیار کر چکی ہے، لیکن ہم جانتے بوجھتے اپنی صحت کو دائو پر لگا رہے ہیں اور مسلسل رِسک کو بڑھاتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طبی صحت اب ایک خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے۔زیادہ دور نہ جائیں‘ روز مرہ کی اپنی خوراک کی مقدار، معیار اور بے وقت کھانے کی روٹین پر غور کر لیں‘ بہت کچھ سمجھ آجائے گا۔ صرف اسی خوراک کا حساب لگا لیں جو اپنی تیز رفتار زندگی کی وجہ سے‘ فاسٹ فوڈ کی شکل میں کھائی جاتی ہے۔ اسی طرح آپ ایک دن میں مطلوبہ کیلوریز کا حساب لگائیں اور جو کیلوریز ہم اپنی خوراک میں لیتے ہیں‘ ان کا چارٹ بنائیں تو علم ہو گا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنے جسم پر ان کیلوریز کا قرضہ یعنی بوجھ کس قدر بڑھا رہے ہیں۔ یہ بھی معیشت ہی کا سبق ہے کہ جتنا زیادہ قرضہ چڑھتا ہے‘ اس چیز کی بقا اتنی ہی دائو پر لگ جاتی ہے۔ ہم اپنی معاشی حالت کا حساب کتاب تو ہر لمحہ کرتے رہتے ہیں لیکن اپنے جسم کی معیشت یعنی صحت کا حساب لگانے کے لیے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ یعنی ہم نے اپنی صحت کا خیال رکھنے کے معاملے کو مکمل بے قدر کر دیا ہے۔
اب چلتے ہیں اس وقت کی طرف جو روزانہ کی بنیاد پر ایسے لوگوں کے ساتھ گزارنا ضروری ہے، جہاں صرف دکھ سکھ بانٹے جاتے ہیں، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا جاتا ہے۔ وسائل کا حساب کتاب یہ بتاتا ہے کہ دکھے بانٹنے سے کم اور سکھ بانٹنے سے زیادہ ہوتے ہیں۔ ہم پیٹ کی بھوک یعنی اپنی معاشی حالت کو بہتر کرنے کی ریس میں یہ بھول چکے ہیں کہ بے غرض ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے والا وقت بھی ایک خوراک کی مانند ہے، جو انسان کی دماغی اور نفسیاتی بھوک کو مٹاتا ہے۔ سب سے اہم اور غور طلب بات یہ ہے کہ اگر نفسیاتی بھوک نہ مٹے تو پورا بدن بشمول روح‘ خسارے میں رہتا ہے۔